تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     11-12-2016

میٹا مور فوسس

جنید جمشید اپنی زندگی میں میٹا مور فوسس(Metamorphosis) کے خوب صورت عمل سے گزرے۔ میٹا مور فوسس بنیادی طور پر حیاتیات کی ایک اصطلاح ہے جو کسی جانور کے نمو کے ابتدائی مراحل سے حتمی مرحلے تک کے عمل کو بیان کرتی ہے۔ خاص طور پر تتلی کے لیے یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو انڈا‘ لاروا‘ پیوپا اور پھر مکمل تتلی بننے تک مختلف شکلوں سے گزرتی ہے۔
وائٹل سائن اور دِل دِل پاکستان سے شروع ہونے والا شہرت کا سفر میٹا مور فوسس کے مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی اور عشق رسول ﷺ کے حتمی مرحلے پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ جنید جمشید کی زندگی پر نگاہ دوڑائیں تو یہ سارا سفر حیران کن لگتا ہے۔ یہ سفر دِل کے بدلنے کا تھا اور دلوں کو بدلنے والی ذات تو اللہ رحیم و کریم کی ہے۔ جنید جمشید کی آخری دُعائیہ حمد ہے: میرا غفلت میں ڈوبا دِل بدل دے... ہوا و حرص والا دِل بدل دے۔ اور سچ یہ ہے کہ وہ خود تو دل بدلنے کے عمل سے گزر چکے تھے۔ وہ اپنے وقت کا مشہور پاپ گلوکار تھا جسے لوگوں نے چاہا اور بے انتہا چاہا۔ شہرت اور دولت اس کے قدموں میں ڈھیر تھی۔ 1987ء میں دلِ دلِ پاکستان گایا۔ بہت کم لوگوں کو اس مقبول ترین ملی نغمے کے خالق کا نام معلوم ہو گا۔ نامور شاعر نثار ناسک نے اس کے بول لکھے مگر وائٹل سائن نے گا کر اسے امر کر دیا۔ وائٹل سائن گروپ میں سلمان احمد‘ نصرت‘ روحیل حیات شامل تھے۔ اس گروپ کے بنیادی گلو کار جنید جمشید ہی تھے‘ جس کی سحر انگیز آواز ہر گیت کو راتوں رات مقبولیت کے آسمان پر پہنچا دیتی۔ پس منظر میں شعیب منصور کی تخلیقی صلاحیتیں کام کر رہی تھیں۔ وہ ان کے لیے منفرد گیت لکھتے اور پھر انہیں منفرد انداز میں پکچرائز کراتے۔ نوے کی دہائی بلاشبہ وائٹل سائن کی دہائی تھی۔ 1994ء میں یہ بینڈ ٹوٹ گیا۔ جنید جمشید سولو گلو کار کے طور پر اپنی مقبولیت اور شہرت کی منازل طے کرتے رہے۔ دنیا بھر میں وہ کنسرٹ کے لیے جاتے تو ان کے نام پر ٹکٹ ہاتھوں ہاتھ بک جاتے۔ کرنل جمشید کے انجینئر بیٹے نے گلو کار کی حیثیت سے وہ عالمی شہرت دیکھی جو پاکستان میں کم کم ہی کسی کو نصیب ہوئی۔ زندگی کی ہر خوشی‘ شہرت‘ دولت‘ کروڑوں فینز کی محبت پا کر بھی جنید جمشید کے اندر کوئی خلا تھا ‘ کوئی خالی پن تھا‘ کوئی بے سکونی تھی جس کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی۔ میٹھے لہجے میں بات کرنے والے ممتاز عالم دین طارق جمیل سے ملاقات ان کی زندگی کا ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی!
نئی صدی کا آغاز ہوا تو جنید جمشید زندگی کے دوراہے پر کھڑے تھے۔ 2002ئ/ 2003ء میں ان کا ایک اور گیت بہت مقبول ہوا جو غالباً آخری گیت تھا اور یہ گزشتہ گیتوں سے مختلف بھی تھا۔ اس میں سچی راہ کی طرف جانے کی خواہش کا اظہار تھا، کسی روحانی راستے کی طرف قدم بڑھانے کی طلب تھی۔ یہ گیت بھی ہمیشہ کی طرح شعیب منصور نے لکھا مگر حیرت ہے کہ شعیب منصور نے اس ہردلعزیز پاپ گلوکار کی اندرونی کشمکش کو کس خوبی سے گیت میں ڈھالا۔ بلا شبہ یہ ایک خوب صورت گیت ہے ۔اس کے چند مصرعے دیکھیں:
لاکھوں صنم چھپے ہیں
اور راہ دیکھتے ہیں
چلو عشق کا کہا مان کر
اپنا صنم پہچان کر
کسی ایسے رنگ ‘ رنگ جائیں
سب سے جُدا نظر آئیں
ہم کیوں چلیں اس راہ پر
جس راہ پر سب ہی گئے
کیوں نہ چنیں وہ راستہ
جس پر نہیں کوئی گیا!!
پھر جنید جمشید اس راہ کی طرف مُڑ گئے۔ عشق حقیقی کے رنگ میں رنگ جانے کی خواہش، جس کا اظہار اس گیت میں تھا‘ وہ پورے ہونے لگی۔ غالباً 2003ء میں ان سے اخبار کے دفتر میں ایک انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ چونکہ میرا تعلق بھی اسی جنریشن سے ہے جو نوے کی دہائی میں جنید جمشید کے سحر انگیز اور منفرد گیتوں کے پرستار رہے ہیں‘ سو، اپنے پسندیدہ گلوکار سے ملنا اور انٹرویو کرنا بہت ہی خوش کن تجربہ تھا۔ ان کا یہی گیت ان دنوں بے حد مقبول تھا۔ شاید وہ اپنی نئی راہ کا تعین کر چکے تھے‘ ان کا حلیہ اور گیت اب ایک پاپ گلو کار جیسا نہیں تھا۔ کرتا شلوار‘ چہرے پر ہلکی داڑھی ‘ وجیہ و شکیل انسان، بہت عاجزی اور سادگی۔ وہ گفتگو بہت شاندار اور یادگار تھی۔
انہوں نے باقاعدہ اعلان کیا کہ وہ موسیقی چھوڑ رہے ہیں۔ اس پر شعیب منصور نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا: ''جنید جمشید ایسا فیصلہ خود سے کیسے کرسکتے ہیں۔ میں نے دس سال محنت کر کے ان کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ میں ایک فلم بنا رہا ہوں جس کا کردار جنید کو ہی مدنظر رکھ کرلکھا گیا ہے‘‘۔ یہ رد عمل میںصرف ایک آواز نہ تھی۔ ایسی کئی آوازیں آئیں۔ بہت تنقید ہوئی۔ شوبز برادری کا یہ ردعمل فطری تھا۔ مگر ان آوازوں کا جنید جمشید پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اپنی نئی راہ پر جو سچی تھی‘ جو رب اور اس کے رسولؐ کی طرف لے جاتی تھی‘ اس پر چلتے رہے، کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ یہاں تک کہ 7 دسمبر کا المناک حادثہ ہو گیا۔ جہاز کے 47 مسافروں میں جنید جمشید بھی شامل تھے۔ مولانا طارق جمیل نے روتے ہوئے کہا: وہ اللہ کے راستے میں تھے اور شہید ہوئے۔ جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم نے کہا کہ جنید جمشید نے دنیا بھر میں سینکڑوں نوجوانوں کو متاثر کیا اور ان کی زندگی کا رخ بدلا۔ کیا یہ دین کی بہت بڑی خدمت نہیں۔ 
جنید جمشید کی زندگی حیران کن تھی۔ پاپ گلو کار سے مبلغ دین اور نعت خواں تک کا سفر ! گٹار سے تسبیح اور نماز تک کا سفر ! لیکن وہ ایک لمحے کے لیے بھی شہرت کے آسمان سے دور نہیں ہوئے۔ ان کی زندگی کی راہ بدل گئی‘ ان کا لباس بدل گیا مگر لوگوں کے دل میں ان کی محبت اور پیار ویسا ہی رہا۔ 7 دسمبر کو ہونے والا ایئر کریش 47 قیمتی جانوں کو کھا گیا۔ یہ سب اپنے اپنے گھروں کے سٹار اور پیارے تھے۔ ان سب کا بچھڑنا انتہائی کرب ناک ہے۔ جنید جمشید پر زیادہ بات ہونا فطری ہے کیونکہ وہ دو دہائیوں سے زیادہ پاکستان کے عوام کے دلوں میں بستے تھے۔ ان کا پاکستانیوں کے ساتھ پہلے ایک گلو کار اور پھر ایک منفرد نعت خواں اور مبلغ دین کی حیثیت سے گہرا رشتہ تھا۔ 
یہ رشتہ مسلسل اس لیے برقرار رہا کہ ان کی زندگی جوں جوں آگے بڑھتی رہی ان کا راستہ بدلتا گیا۔ ماڈل کی طرح پاپ سنگر کی عمر بھی تھوڑی ہوتی ہے۔ ڈھلتی جوانی کے ساتھ اس کی شہرت غروب ہو جاتی ہے۔ لیکن جنید جمشید کا معاملہ مختلف تھا، ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی۔
آج لوگوں کو 90 کی دہائی کا پاپ سنگر یاد نہ ہوتا اگر وہ دوراہے پر پہنچ کر ایک سچی راہ کا انتخاب نہ کرتے۔ رابرٹ فراسٹ کی خوب صورت نظم کے چند جملے ان کے میٹا مور فوسس کے نام:
Two roads diverged in a
yellow wood...
And I, took the one
Less travelled by
And that has made all
The difference.

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved