تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     12-12-2016

ایک پہلو یہ بھی ہے

ایک سوال مگر اور بھی ہے۔ کیا شریف خاندان ہی تنہا قصوروار ہے‘ کیا پاکستان کے مستقبل کا تمام تر انحصار‘ اس سے چھٹکارا پانے میں ہے؟ایشیا کے نیلسن منڈیلا‘ زرداری صاحب کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ تحریک انصاف کے نوسربازوں کے بارے میں؟
عدالت کے سامنے تین اور بھی راستے تھے۔ وہ فیصلہ صادر کرتی۔ وزیراعظم یا ان کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر بری کر دیتی۔ وزیراعظم یا خاندان کے دوسرے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر سزا سناتی۔ تیسرا یہ کہ کسی فریق کی پروا کیے بغیر کمشن کا اعلان کر دیتی۔ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے تمام اختیارات جسے حاصل ہوتے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر جناب علی ظفر کو مغالطہ ہوا کہ اس سے پہلے ایسا ادارہ کبھی تشکیل نہیں دیاگیا۔ ملک ریاض‘ جسٹس افتخار چوہدری کے تنازع میں ایسا کیا گیا تھا۔ یہ الگ بات کہ رپورٹ ابھی ادھوری تھی۔ عدالت عظمیٰ نے فریقین کا ذاتی جھگڑا قرار دے کر معاملے کو نمٹا دیاکہ عدالت کا یہ درد سر نہیں۔
ججوں نے چوتھا راستہ چنا۔ معاملے کو آنے والے چیف جسٹس پر چھوڑ دیا۔ یہ اس کا اختیار ہے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اختیار کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ فریقوں کو جو دو نہیں‘ دو سے زیادہ ہیں‘ اب مستقبل کے لائحہ عمل پر توجہ دینی چاہیے۔ جو بیت گیا‘ سو بیت گیا۔گزرا ہوا وقت واپس نہیں آ سکتا۔ جو پانی بہہ جاتے ہیں‘ لوٹ کر نہیں آتے۔ ماضی سے کوئی نہیں لڑ سکتا۔ شاعری نہیں یہ زندگی ہے‘ اس کی گتھیاں حسرتوں سے سلجھائی نہیں جا سکتیں۔ مستقبل سنوارنے کے جویا اور عدل کے آرزومند شاعر کی طرح فریاد کناں نہیں رہ سکتے کہ ؎
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ماضی میں زندہ رہتے ہیں۔ خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں۔ حضرت ابوطالب نے اسلام قبول کر لیا تھا یا نہیں کیا تھا۔ ارے بھائی‘ قبول کر لیا تھا تو وہ بہشتِ بریں کی وادیوں میں شاد ہوں گے۔فرض کیجئے نہیں کیا تھا تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ آپ اپنی جان کیوں گھلاتے ہیں؟دانا وہ ہے‘ جو اپنے آج میں جیتا اور آنے والے کل کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے۔ ججوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔ اس سے کیا حاصل؟ ساری توجہ آنے والے کل پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ اس طرزِعمل سے خرابی کے سوا کیا حاصل ہو گا؟
فرد یا معاشرہ‘ جب ہیجان کا شکار ہو جاتے ہیں تو واحد ترجیح ان کی یہ رہ جاتی ہے کہ کسی طرح بھی دل کا بوجھ ہلکا کر لیا جائے۔ زندگی کے مختلف اور متنوع تقاضوں کو وہ نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اعتدال رخصت ہوتا اور پاگل پن اس کی جگہ لیتا ہے۔ زندگی ایک نکتے کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ اس بیمار کی طرح وصل کی تمنا میں‘ حیات کے تمام دوسرے عوامل و عناصر‘ جس کے لیے بے معنی ہو جاتے ہیں ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
پاکستان کا واحد مسئلہ پاناما لیکس نہیں ہے‘ ہرگز نہیں ہے۔ ایک سوال ہے‘ بہت دنوں سے ناچیز جو پوچھ رہا ہے۔ کوئی اس کا جواب نہیں دیتا۔ فرض کیجئے‘ فیصلہ شریف خاندان کے خلاف صادر ہو جائے تو کیا وہ اولین مقصد حاصل ہو جائے گا‘ قوم کو جو کسی بھی چیز سے زیادہ عزیز ہونا چاہیے۔ اوّل و آخر‘ سب سے پہلے‘ سب سے بڑھ کر ملک کو امن کی ضرورت ہے۔ امن اور استحکام کی۔ سٹیٹ بینک کے ایک سابق چیئرمین کے مطابق ہر روز کراچی‘ لاہور‘ پشاور اور کوئٹہ سے 25 ملین ڈالر ملک سے باہر بھیج دیئے جاتے ہیں۔ آٹھ بلین ڈالر سالانہ۔ کتنے لاکھ ملازمتیں؟ بے یقینی بڑھتی چلی گئی‘ امن کی ردا‘ اگر کچھ اور بھی تار تار ہو گئی تو سرمائے کا فرار بڑھ جائے گا۔ بے روزگاری میں اضافہ ہو گا‘ بھوکوں‘ ننگوں کی تعداد میں‘ علاج اور تعلیم سے مزید محرومی میں ۔ ملک کا مسئلہ دہشت گردی ہے‘ قوم کے اعصاب جس نے برباد کر کے رکھ دیئے ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں ماند ہیں۔ سارے کا سارا سرمایہ‘ لگ بھگ چار ہزار ارب روپے‘ جائیدادوں کے کاروبار میں جھونک دیئے گئے ہیں۔ تعمیرات میں نہیں کہ اس سے تو کم از کم انیس صنعتوں کا پہیہ حرکت میں آتا ہے۔ 9 ہزار سے زیادہ ہائوسنگ سوسائٹیوں میں‘ جن میں اکثر اگر فراڈ نہیں تو حیلہ ساز ہیں۔ تقریباً پورے کا پورا حکمران طبقہ اس میں ملوث ہے۔ اسی لیے زمین کا ریکارڈ کمپیوٹرائز نہیں کیا جاتا۔ لوٹ مار کے مواقع تاکہ ارزاں رہیں۔ پولیس اور پٹوار ہمیشہ سے اس کھیل کا حصہ تھے۔ اب ان کی اور بھی بن آئی ہے۔ مثال کے طور پر کراچی ہے‘ ایک نہیں‘ جہاں کئی غاصب لاچار لوگوں کے خالی قطعات اراضی پہ قابض ہوتے اور مٹی کو سونا بناتے ہیں۔ ملک کے سب سے مہنگے شہر اسلام آباد کا کاروبار چلانے والا ادارہ‘ سی ڈی اے ایک دوسری مثال ہے۔ چالیس چالیس برس سے متاثرین فائلیں اٹھائے پھرتے ہیں۔ حاصل کردہ زمین کے عوض پلاٹوں کی فائلیں۔ 65 مختلف میزوںپر ان کی تصدیق کرانا پڑتی ہے۔ کوئی ایک کلرک بادشاہ یا افسر بھی رشوت وصول کیے بغیر‘ مہر تصدیق ثبت نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اپنی ملکیت کے کاغذات وہ بازار میں بیچ دیتے ہیں۔ 25 ‘ 30 فیصد کے عوض۔ یہ فائلیں زیادہ تر سیاستدان خریدتے ہیں یا ان سے رہ و رسم رکھنے والے۔ اوّل تو بعض افسر ہی ان کے گماشتے ہیں‘ جن میں سے ایک نے پانچ عدد شادیاں کر رکھی ہیں‘ جی ہاں پانچ عدد۔ جوڑ توڑ کے بل پر‘ رشوت ستانی کے ذریعے‘ ایک مافیا کا حصّہ بن کر‘ پھر سے وہ وہی اہم عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ جس پر اتفاق سے ان دنوں معقول شہرت رکھنے والا ایک افسر موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے اربوں کمائے اور ادارے کو کھربوں کا نقصان پہنچایا۔
سی ڈی اے نوسر بازوں کا ایک بازار بن چکا ہے‘ بعض لیبر لیڈر بھی جس کا حصّہ ہیں۔ ایک سی ڈی اے پر ہی کیا موقوف‘ پورے ملک کا حال یہی ہے۔ کوئی سیاسی جماعت نہیں جس نے کبھی اس ادارے پر کوئی رپورٹ مرتب کرنے کی کوشش کی ہو۔ کوئی وائٹ پیپر جاری کیا ہو۔ نو دن سے اسلام آباد کے ایم این اے اسد عمر سے رابطہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں‘کہ دس بارہ ارب روپے سالانہ کے نقصان سے شہر کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اسد عمر کا حال اگر یہ ہے تو باقیوں کا کیا ہو گا۔
سب کے سب اقتدار کے کھیل میں مگن ہیں۔ سب کر رہے ہیں آہ و فغاں‘ سب مزے میں ہیں ؎
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں‘ حکام کے ساتھ
کوئی تھنک ٹینک نہیں‘ جو قوم کی رہنمائی کر سکے۔ کشمیر میں ایک تاریخ ساز جنگ جاری ہے۔ اس کا فیصلہ پاکستان اور کشمیریوں کے حق میں ہوتا ہے یا اس کے خلاف‘ سیاسی جماعتوں کو ہرگز ہرگز اس کی کوئی پروا نہیں۔ بھارت کا تزویراتی حلیف بننے کے بعد‘ پاکستان پر امریکہ شدید دبائو ڈال رہا ہے۔ جوابی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کو فکر ہے‘ عمران خان اور نہ سراج الحق کو۔ خیر‘ انہیں تو اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ دہشت گردی سے کراچی ڈوبتا ہے یا تیر سکے گا‘ بلوچستان بھی‘ قبائلی پٹی بھی‘ جمعیت علمأ اسلام کی طرح‘ جس کے مدارس انتہا پسندوں کی نرسریاں ہیں‘ ابھی کل تک جماعت اسلامی‘ طالبان کے لیے جواز تراش رہی تھی۔ عمران خان نے ان کے لیے پشاور میں دفتر کھولنے کی تجویز دی تھی۔ میاں صاحب محترم‘ ان مولویوں کے ذریعے‘ دہشت گردوں سے بات چیت میں مگن تھے‘ نظریاتی طور پر جو ان کے ماں باپ ہیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار برآمدات سر کے بل آ رہیں۔ کسی لیڈر نے یہ مطالبہ تک نہ کیا کہ تجارت کی وزارت زیادہ اہل اور موزوں آدمی کے سپرد کر دی جائے۔ فوجی کمان میں تبدیلی کے ہنگام‘ برساتی مینڈک ٹرانے لگے ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے پروردہ۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ خود فوجی قیادت بھی اس پر خاموش ہے۔ ایسی گم سم کہ سوشل میڈیا پر چنگاریاں سلگائی جا رہی ہیں۔ انگریزی اخبارات کے بعض بزرجمہرجلتے گھر کی آگ پہ ہاتھ تاپ رہے ہیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ آگ بھڑکنے سے پہلے ہی چنگاریوں کو بجھا دینا چاہیے۔
سیّدنا فاروق اعظمؓ نے کہا تھا : جو ریاست مجرموں پہ رحم کرتی ہے‘ اس کے بے گناہ لوگ بے رحمی سے مرتے رہتے ہیں۔ شریف خاندان قصور وار ہے تو سزا اسے ملنی چاہیے۔ کسی صورت وہ بچ کر نہ جانے پائے۔ عدل کا پرچم بلند ہو گا اور جرائم پیشہ خاندانوں کے حوصلے ٹوٹیں گے۔
ایک سوال مگر اور بھی ہے۔ کیا شریف خاندان ہی تنہا قصوروار ہے‘ کیا پاکستان کے مستقبل کا تمام تر انحصار‘ اس سے چھٹکارا پانے میں ہے؟ایشیا کے نیلسن منڈیلا‘ زرداری صاحب کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ تحریک انصاف کے نوسربازوں کے بارے میں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved