تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-12-2016

ہمارے پکوان

پلائو
اسے کھانوں کا بادشاہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ شادیوں یا دیگر ضیافتی تقریبات ہی میں دستیاب ہوتا ہے۔ اس پر شوربہ یا دہی/ رائتہ ڈال کر بھی کھاتے ہیں۔ کچھ لوگ پلائو اور زردہ ملا کر بھی کھاتے ہیں۔ اُن کا باقاعدہ چالان ہونا چاہیے کہ یہ پلائو کے ساتھ صریحاً زیادتی ہے۔ ایک خصیّ پلائو بھی ہوتا ہے جس میں گوشت کی جگہ سفید چنے ڈالے جاتے ہیں۔ اس کے بعد آتا ہے خیالی پلائو‘ جس کا مہنگائی کی وجہ سے رواج عام ہے کیونکہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی‘ یعنی ایک دھیلا بھی خرچ کئے بغیر یہ ڈش تیار ہو جاتی ہے۔ آنکھیں بند کر کے زیادہ سہولت سے تیار کیا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ گھر کا ہر فرد اپنی پسند کے مطابق تیار کر سکتا ہے‘ لینا ایک نہ دینا دو۔
آلو گوشت
آلو گوشت ہمارے ایک سابق وزیراعلیٰ پنجاب نکئی مرحوم کی یہ اس قدر مرغوب ڈش تھی کہ وہ مبینہ طور پر روزانہ اس سے شوق فرمایا کرتے تھے۔ یہ ڈش تیار کرنے کا بھی ایک خاص طریقہ ہے جبکہ کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں آپ آلوئوں میں صرف ایک بوٹی ڈال سکتے ہیں جو قصاب سے پندرہ بیس روپے میں مل جاتی ہے۔ یہ ڈش تیار ہو جائے تو آلو اور شوربہ تقسیم کر کے استعمال کر لیں اور بوٹی یا تو گھر کے بزرگ فرد کو دے دیں لیکن یہ بھی مناسب نہیں کیونکہ وہ اس سے چبائی جائے گی نہ کھائی جائے گی، اس لیے پرچی سسٹم سے کام لیں‘ گھر کے جس فرد یا بچے کے نام کی پرچی نکل آئے یہ اُس کا حصہ ہے۔ اس کے بعد گلی میں لے جا کر اس کا چھوٹا موٹا جلوس بھی نکالیں کہ اس نے سالم بوٹی کھائی ہے۔ ہفتے میں کم از کم ایک بار تو یہ عیاشی کی جا سکتی ہے۔
دال
یہ کئی قسم کی ہوتی ہے یعنی دال‘ ڈال اور ذال۔ ایک مسور کی دال بھی ہوتی ہے لیکن اُسے کھانے کے لیے ایک خاص مُنہ درکار ہوتا ہے۔ دال گلتی ذرا کم ہی ہے یعنی کسی کسی کی گلتی ہے۔ اسے بانٹنے کے لیے جوتیوں کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ ہر دال میں کالا ضرور ہوتا ہے جبکہ چھلکوں والی ماش کی دال تو ساری کی ساری ہی کالی ہوتی ہے۔ جیل میں قیدیوں کو جو دال ملتی ہے‘ اس قدر پتلی ہوتی ہے کہ پانی ہی پانی ہوتا ہے اور اس پر دال کی صرف تہمت لگائی گئی ہوتی ہے۔ ساری دالوں کو ملا کر پکایا جائے تو وہ چودالہ کہلاتا ہے‘ اس سے آپ چوبارہ بھی بنا سکتے ہیں۔ دال کو بگھار بھی لگایا جاتا ہے جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے ؎
ایک لڑکی بگھارتی تھی دال
دال کہتی تھی سُن کے یہ احوال
جن لڑکیوں کو دال بگھارنا نہ آتی ہو وہ شوخی یا شیخی ضرور بگھارتی ہیں۔ غریب نواز سالن ہے حالانکہ اسے سالن کہنا سالن کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔
کڑھی
اسے پکا کر پہلے باسی کیا جاتا ہے اور پھر اس کے اُبال کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ اسے کھایا جا سکے۔ اس میں پکوڑے بھی ڈالے جاتے ہیں حالانکہ پکوڑوں کا علیحدہ سے کھایا جانا زیادہ افضل ہے۔ پکوڑا فروش انہیں اخبارات کے ان تراشوں میں لپیٹ کر بیچتے ہیں جو پی ٹی آئی والوں نے سپریم کورٹ میں بطور ثبوت پیش کر رکھے ہوتے ہیں۔ پکوڑوں کی توفیق نہ ہو تو ان کی جگہ کڑھی میں آلو ڈال کر بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ اسے دہی اور بیسن سے تیار کیا جاتا ہے۔ دہی چونکہ سو روپے کلو کے قریب پہنچ چکا ہے اس لیے سائنس دان تحقیق کر رہے ہیں کہ دہی کے بغیر کڑھی کیونکر بنائی جا سکتی ہے۔ ہمارے سائنس دان ویسے بھی فارغ ہی رہتے ہیں۔
حلیم
یہ حلیم الطبع لوگوں کی پسندیدہ ڈش ہے۔ اسے کھا کر ویسے بھی آدمی حلیمی اختیار کر جاتا ہے۔ علمائے کرام کے نزدیک لفظ حلیم غلط ہے کیونکہ اصل میں یہ لحیم ہے جو کہ لحم یعنی گوشت سے تیار کی جاتی ہے؛ حالانکہ وہ دالیں ہی دالیں ہوتی ہیں‘ گوشت کا تو بس نام ہی ہوتا ہے۔ اس مہنگائی میں گوشت کے تکلفات سے بچنے کے لیے اس لیے صرف دالیں ہی ملا کر پکائی جا سکتی ہیں۔ خاص طور پر مہمانوں کو ہرگز پتا نہیں چل سکتا کہ اس میں گوشت نہیں ہے کیونکہ وہ بھی زیادہ تر بغیر گوشت کے حلیم ہی کے عادی ہوتے ہیں۔ دالوں کو اچھی طرح گھوٹ دیا جائے تو اس کی شکل بھی حلیم ہی جیسی ہو جاتی ہے جبکہ گھوٹنے پر کچھ زیادہ خرچہ بھی نہیں اٹھتا۔
کھیر
کہتے ہیں کہ کھیر ٹھنڈی کر کے کھانی چاہیے۔ نیز چونکہ یہ ہمیشہ ٹیڑھی ہوتی ہے اس لیے کھانے سے پہلے اسے سیدھا کرنا بھی ضروری ہے۔ اسے تیار کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک چرخہ درکار ہوتا ہے جسے جلا کر اسے تیار کیا جاتا ہے جو اس شعر سے ظاہر ہے ؎
کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا
آیا کُتا کھا گیا‘ تُو بیٹھی ڈھول بجا
گویا ساتھ ساتھ ایک ڈھول بھی ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ کُتے کو کھیر ہضم نہیں ہوتی لیکن چونکہ اُسے اس بات کا علم نہیں ہوتا اس لیے بعد میں پچھتاتا ہے۔ اسے دودھ سے بنایا جاتا ہے لیکن فی زمانہ اسے گنے کے رس سے بھی بنایا جا سکتا ہے۔
حلوہ
یہ صرف عید کے روز کھایا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہہ رکھا ہے ؎
ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد کسے ویسے بھی مسور کی دال کی طرح حلوہ کھانے کے لیے بھی ایسا مُنہ ضروری ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ حلوہ خوردن را روئے باید ۔ چنانچہ جن لوگوں کا مُنہ حلوہ کھانے والا نہیں ہوتا وہ مُنہ میٹھا کرنے کے لیے مثلاً گُڑ کھا سکتے ہیں جو چوری کا ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔ حلوہ اور جلوہ نہ صرف ہم قافیہ ہیں بلکہ ان کا ذائقہ بھی ایک جیسا ہی ہے۔ یہ سُوجی کے علاوہ بھی ہر چیز سے بنایا جا سکتا ہے مثلاً گاجر کا حلوہ‘ کریلے کا حلوہ‘ بینگن کا حلوہ اور بھنڈی کا حلوہ وغیرہ...
زردہ
پلائو کی طرح یہ بھی زیادہ تر شادیوں‘ ضیافتوں ہی میں نصیب ہوتا ہے ورنہ تو پان کے زردے ہی سے گزارہ کر لیا جاتا ہے یعنی ؎
ہم نے منگائی سُرمے دانی
لے آیا ظالم بنارس کا زردہ
یہ چاول میں گھی‘ چینی اور زرد رنگ ڈال کر تیار کیا جاتا ہے‘ رنگ بازی اسی کو کہتے ہیں۔ زردہ زرد رنگ سے ہے جیسے سُرخ رنگ سے سُرخا اور سفید سے سفیدا وغیرہ۔ زردہ کھانے سے رنگ زردی مائل ہو جاتا ہے چنانچہ ہماری اکثریت زردہ خور ہی لگتی ہے۔
پکی پکائی دیگیں
پکی پکائی دیگیں حاصل کرنے کے لیے ہمیں خدمت کا موقع دیں اور ہماری تجربہ کاری سے فائدہ اٹھائیں کیونکہ کئی سال پہلے سپریم کورٹ لے جانے کے لیے چھوٹے میاں صاحب نے ہم سے ہی تیار کروائی تھیں جن کے نتیجہ خیز ہونے کا ایک عالم گواہ ہے جبکہ انہیں اب بھی کسی وقت ضرورت پڑ سکتی ہے۔ خیالی پلائو کی تیار دیگیں بھی دستیاب ہیں‘ پہلے آئو‘ پہلے پائو۔ نقالوں سے ہوشیار۔ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
المشتہر : شاہی دیگ ہائوس لاہور
آج کا مقطع
لے چلو خطۂ اوکاڑہ میں مجھ کو کہ ظفر
مرضِ غم میں وہی خاک ہے اکسیر مجھے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved