تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     12-12-2016

بین الاقوامی سیرت کانفرنس2016ء

اس سال11و12ربیع الاول یعنی میلاد النبی ﷺ کے مبارک ومسعود موقع پر'' وزارتِ مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی‘‘ کے زیرِ اہتمام ''بین الاقوامی سیرت کانفرنس‘‘کا انعقاد کیا جارہا ہے اوراُس کا عنوان ہے:
''بین المذاہب ہم آہنگی :اسلامی تعلیمات اور سیرتِ نبویﷺ کی روشنی میں‘‘۔ اس کے لیے وزارتِ مذہبی امور نے شرکاء کوایک قرطاس عمل فراہم کیا ہے اور اس کا عنوان ہے: ''پُر امن بین المذاہب بقائے باہمی کے قیام میں نصاب سازی کا کردار‘‘اور اِسے اجتماعی مباحثے کے لیے ''آگاہی مواد‘‘کانام دیا گیا ہے ۔
بادیُ النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرطاسِ عمل کسی این جی او یا اُس کے فراہم کردہ محقق نے وزارتِ مذہبی امور کو فراہم کیا ہے۔اِس میں وہ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں،مگر کہہ نہیں پارہے ۔ ہمیں اُن سے ہمدردی ہے کہ مربوط بیانی انداز میں اپنی خواہش کوالفاظ کا جامہ نہیں پہناسکے۔ عنوان کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں بین المذاہب ہم آہنگی کا شِعار واضح کیا جائے ، لیکن آگہی کے لیے جو قرطاسِ عمل دیا گیا ہے ،اُس میں ''بین المذاہب مکالمہ کی اہمیت اور اُس کا دائرۂ کار‘‘ کے عنوان سے وہ یہ تصورتعلیماتِ نبوی کی بجائے کہیں اور سے اخذکرتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ قرطاسِ عمل میں سیرت النبی ﷺ کا ایک بھی حوالہ موجود نہیں ہے ،چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
''ہانس کونگ، جنہیں مذاہبِ عالَم پر ایک مستند حوالہ تصور کیا جاتا ہے ،نے اپنے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قوموں کے درمیان اُس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا ،جب تک کہ مذاہب کے درمیان امن نہ ہواور مذاہب کے درمیان مکالمے کے بغیرامن قائم نہیں ہوسکتا‘‘۔ اس بیان کو بیشتر مذہبی روایات میں قبولیت حاصل ہوئی ،جس کے نتیجے میں اب ہم بین المذاہب مکالمے کی تحریک بڑے پیمانے پر موجود پاتے ہیں۔ اس تحریک کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد بینَ الادیان یا بینَ المذاہب مکالمے کے تمام فریقوںکے درمیان مکمل اتفاقِ رائے کا حصول یا کسی عالمگیر مذہب کی بنیاد رکھنا نہیں ہے ۔ بلکہ دیگر مذاہب کی اس حد تک تفہیم ہے کہ جس سے تمام اہلِ مذاہب معاشرے کی فلاح کے لیے ہم آہنگی ،تکریم ، ربط باہم ،وسعتِ قلبی ،اعتماد اور باہمی تعاون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ اس کا مقصد لوگوں کو کرۂ ارض پر ایک مشترکہ مقصد کے تحت زندگی گزارنے کے لیے متحد کرنا ہے ‘‘۔
گزارش یہ ہے کہ ہمیں بین المذاہب مکالمے کا اصول قرآنِ مجید کی اس آیت سے ملتا ہے: ''(اے رسول!)کہہ دیجیے : اے اہلِ کتاب!آئو ایسے کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں (طور پر مسلّمہ)ہے ،(وہ یہ ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ ہی اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں اور ہم میں سے کوئی دوسرے کو اللہ کے سوا (اپنا)رب نہ بنائے ،پھر اگر وہ (اِس اصول سے)اِعراض کریں ،توکہہ دیجیے :تم گواہ رہو کہ ہم (یقینا )مسلمان ہیں ،(آل عمران:64)‘‘۔ یہاں کلمہ سے آیت میں مذکور اصول مراد ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقِ ثانی مانے یا نہ مانے ، ہم اپنے اصولوں سے انحراف نہیں کریں گے اور نہ ہی اِن پر کوئی مفاہمت یا سودے بازی ہوسکتی ہے ۔مذاہب کی تعلیمات مستور نہیں ہیں ،سب کو معلوم ہیں ۔سب کی عبادت کے طریقے جدا جدا ہیں،قرآن نے مسلَّمات پر اشتراکِ عمل کی دعوت دینے کا ہمیں شِعار دیا ہے۔آج کے دور میں اشتراکِ عمل کی اساس ملکی وعالمی سطح پر امن اور عدل وانصاف کا قیام ہے اور اس کے لیے کسی ریسرچ کی ضرورت نہیں ہے ،اس کا تعلق فرد اور معاشرے کی اپنے جذبِ دروں سے ہے ۔امن وانصاف کے قیام کے لیے حقوق میں مساوات اور سب کا یکساں احترام ضروری ہے ،اپنی آزادی پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کو آزاد رہنے کا حق دینا ہے اور آج کی دنیا میں اِسی شِعارسے انحراف فساد کا سبب ہے ۔
ہانس کی فکر سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انسانیت کے درمیان مذہب واحد وجہِ نزاع ہے ،اگر یہ درست ہے تو حضورِ والا! پہلی اور دوسری عالَمی جنگیں تو ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے درمیان تھیں۔اُن کا مُحرِّک توسیع پسندی ،استعمار کاتسلُّط اور دوسری قوموں کو محکوم اور محتاج بنانا تھا۔امریکہ کی ویتنام کے ساتھ جنگ کا سبب بھی مذہب نہیں تھا ۔ اسی طرح شمالی اور جنوبی کوریا اور ماضی میں شمالی اور جنوبی ویتنام ،اور شمالی وجنوبی یمن کے تصادم کا سبب بھی مذہب نہیں تھا ۔سو عالمی سطح پر انسانوں کے درمیان آویزش کے مِن جُملہ اسباب میں سے ایک سبب کسی حد تک تومذہب کو مانا جاسکتا ہے ،مگر یہ واحد سبب ہرگزنہیں ۔ہاں! یہ ضرور ہے کہ انڈونیشیا سے مشرقی تیمور کی علیحدگی اور سوڈان کی تقسیم کی اقوامِ متحدہ نے جو حمایت کی ، اُس کا سبب بہرحال مذہب ہی تھا۔ورنہ اقوامِ متحدہ یا برتر اقوام اسی اصول پر فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی تحریکِ آزادی کی حمایت کے لیے کسی طور پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ 
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ Harmonyکی اصطلاح مغرب سے آئی ،اس کے معنی ہیں:''نغمہ ،زمزمہ، آواز‘‘۔آکسفورڈ ڈکشنری میں اس کے معنی ہیں:''مختلف سازوں یا سُروں کو ملا کر ایک صوتی تاثّر پیدا کرنا یا ایک گانا گانا‘‘۔اردو میں اس کا ترجمہ'' ہم آہنگی‘‘ کیا جاتا ہے ،پس ذہنی ہم آہنگی کے معنی ہوں گے:مختلف مذاہب کے لوگوں کا ایک دوسرے کیساتھ مل کر ایک ذہنی ساخت میں ڈھل جانا۔ یہ ایک خوبصورت خواب تو ہوسکتا ہے،لیکن اس کی تعبیر پانا مشکل ہے اوراس کانتیجہ وحدتِ اَدیان کے سوا کچھ نہیں کہ اہلِ مذاہب واَدیان مذہبی اصول واَقدار کا ایک مشترکہ فارمولا تیار کرلیں ۔ قرطاسِ عمل مرتّب کرنے والے کے لاشعور میں بھی یہ بات راسخ تھی کہ اِس کاوش کا منطقی نتیجہ یہی ہے ،لیکن یہ ایسی خواہش ہے جسے دل ودماغ میں بسایا تو جاسکتا ہے ،ہمارے ماحول میں اس کا اظہار نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ وہ اِس طَعن سے اپنا دامن بچانے کے لیے لکھتے ہیں:
''اِس کام کا مقصد بینَ الادیان یا بینَ المذاہب مکالمے کے فریقوں میں مکمل اتفاقِ رائے کا حصول یا کسی عالمگیر مذہب کی بنیاد رکھنا نہیں ہے ،بلکہ اِس کا مقصد مذاہب کی ہمدردانہ تفہیم کے نتیجے میں ہم آہنگی ،تکریم ،ربطِ باہم ، وسعتِ قلبی ،اعتماد اور باہمی تعاون کے ساتھ زندگی گزارنا ہے ‘‘۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اصل متن کہیں سے انگریزی میں نازل ہوا ہے اور اُس کا ترجمہ مہارت کے ساتھ نہیں کیا گیا ، نہ ہی کمپوزنگ کی اَغلاط کو درست کیا گیا ہے ،بلکہ جیساسرکاری کاموں میں ہوتا ہے ،عجلت میں یہ کام انجام دیا گیاہے ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر فریق کا موقف صحیح طور پر سامنے آجائے ، اس لیے اُسے مربوط اور آسان بنانے کی ممکن حد تک سعی کرتا ہوں۔
لہٰذا ہمیں حقیقت پسندانہ روِش اختیار کرتے ہوئے Harmonyیا ہم آہنگی کی تخیّلاتی وفلسفیانہ بحث میں پڑنے کی بجائے سیدھے اور سادے انداز میں ''جیو اور جینے دو‘‘کے اصول کو اپنانا چاہیے ،جسے انگریزی میں Live & let liveسے تعبیر کیا جاتا ہے، یہی ہماری ضرورت بھی ہے۔مکالمے کا مقصد یہ ہے کہ اہلِ مذاہب اپنا موقف بیان کرنے کے لیے جبر وطاقت کے شعار کو خیر باد کہیں اور دلیل واستدلال کے شِعار کواختیار کریں،اِسی کو Convincingیا قائل کرنا کہتے ہیں۔مذہبی تنوّع ہمارے معاشرے میں پہلے سے موجود ہے ۔اسلام کے علاوہ ہندو ،مسیحی ،سکھ اورپارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان میں موجود ہیں ۔ہمارے معاشرے میں مسلمانوں کے درمیان بین المسالک یا دیگر مذاہب کے ساتھ عوامی سطح پر تصادم کی کوئی فضا نہیں ہے ۔البتہ بعض مسلّح گروہ ہیں جو منصوبہ بندی کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں ،بعض کی ڈوریاں باہر سے ہلائی جاتی ہیں، بعض اسلام دشمن اور پاکستان دشمن قوتیں کبھی نسلی اور لسانی حوالے سے اور کبھی مذہبی حوالے سے قتل وغارت کراتی ہیں ۔ان کو کھوج لگاکر تلاش کرناہمارے انٹیلی جنس اداروں کا کام ہے ،ان کا قلع قمع کرنا اور ان کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ریاستی اداروں کا کام ہے ۔ان کی پشت پناہی اور ان کو خفیہ کمین گاہیں فراہم کرنا دینی و ملّی جرم ہے ،جو کوئی بھی اِس میں ملوث ہو،اُس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے ۔
تعلیم کی طبقاتی تقسیم ایک قومی مسئلہ ہے ،اس کے لیے صرف مدارس کو ہدفِ طعن بنانا غیر منصفانہ روش ہے ۔ترقی پذیر ممالک میں اسکول گریجویشن کی سطح تک لازمی تعلیم اور اس کے لیے یکساں نصاب مرتب کرنا بھی ریاست کی ذمے داری ہے ۔تعلیمی معیار کو بلند کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سول حکمرانوں ،سول وفوجی اسٹیبلشمنٹ اور تمام بالادست طبقات کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم پائیں ، سب کا نصاب اورنظامِ امتحان ایک ہی ہو ۔بیرونِ ملک تعلیمی اداروں سے الحاق پر پابندی لگائی جائے ،لیکن پاکستان میںیہ کبھی نہیں ہوگا ،موجودہ صورتِ حال میں اس کی توقع عبث ہے۔ ہاں!آگے چل کر کوئی انقلابی صورتِ حال پیدا ہوجائے ،تو اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے۔ ہم نے فوجی حکمرانی کے کئی ادواربھی دیکھے ہیں، لیکن اُن میں کوئی غیر معمولی تو کیا ،معمولی تبدیلی بھی نہیں آئی۔ جب تک اشرافیہ کے لیے الگ تعلیمی نظام ہوگا اور تعلیم صنعت و تجارت بنی رہے گی،توکسی جوہری تبدیلی کی توقع عبث ہے۔
نصاب میں تحمل وبرداشت ،رواداری ،احترامِ انسانیت کے مضامین شامل کرنا اچھی بات ہے ،لیکن طالبِ علم کو یہ اَقدار اپنے گِردوپیش میں نظر نہ آئیں ،تو عملی تعبیر کے بغیر الفاظ بے معنی اور بے توقیر ہوجاتے ہیں ۔ہم روز سرِ شام میڈیا پربے ہنگم شوروشغب دیکھتے ہیں ، کیا اینکر پرسنز اور مکالمے کے شرکاء سب جاہل ہیں ،جو قوم کو بدکلامی اور بد تہذیبی سکھاتے ہیں ،یہ تو تعلیم یافتہ لوگ ہیں اور اپنی دانست میں عقلِ کُل ہیں ۔سپریم کورٹ سے باہر نکل کر ہر سیاسی فریق اپنی فتح اور فریقِ مخالف کی شکست کا اعلان کرتا ہے ، اِس سے قوم کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ،اپنا اپنا حق اور اپنا اپنا میزان ہے ،اِن میں سیاسی رہنما اور ماہرینِ آئین وقانون سب شامل ہیں ، کیا یہ سب مدارس سے پڑھ کر آئے ہیں ،انہیں تو مدارس کی ہوا بھی نہیں لگی۔ حسرت موہانی نے کہا ہے ؎
خِرَد کا نام جنوں پڑ گیا ، جنوں کا خِرَد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved