کسی زمانے میں ریڈیو پاکستان سے ایک پروگرام نشر ہوا کرتا تھا جس کا عنوان، اُس دور کے لحاظ سے، خاصا دھماکے دار تھا۔ ریڈیو کے اسپیکر پر ''آئیڈیل کی تلاش‘‘ کے الفاظ گونجتے ہی جواں سال لڑکیاں خیالوں کی دنیا میں کھو جایا کرتی تھیں۔ یہ تین الفاظ اُنہیں تادیر طرح طرح کی خوش فہمیوں میں غلطاں و پیچاں رکھتے تھے یعنی وہ دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ہوکر اپنی خوش فہمیوں سے تھوڑی سی مسرّت کشید کرلیا کرتی تھیں۔
اب آئیڈیل کی تلاش یا تو دم توڑ چکی ہے یا پھر اِس تلاش میں وہ چارم نہیں رہا۔ جس میں ہم زندگی بسر کرنے کے نام پر اپنے دن شمار کر رہے ہیں وہ زمانہ آئیڈیل سے بڑھ کر آئیڈیاز کا ہے۔ لوگ قدم قدم پر نیا آئیڈیا، وکھری ٹائپ کا ''ششکا‘‘ چاہتے ہیں!
''ششکا‘‘ الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی چینلز کی نئی اور تیزی سے مقبولیت پاتی ہوئی اصطلاح ہے۔ کسی خبر میں کوئی بڑی غلطی سرزد ہو جائے تو ''بَھنڈ‘‘ کہلاتی ہے۔ اِسی طور خبر کو ''اپ گریڈ‘‘ کرنے کے لیے اُس میں شامل کی جانے والی ہر چیز ''ششکا‘‘ کہلاتی ہے۔ اب ٹی وی کے لیے خبر بناتے وقت سب ایڈیٹر کو ''زیبِ داستاں‘‘ کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مرزا رجب علی بیگ سرورؔ کے زمانے کی مقفّٰی و مسجّٰی عبارت آرائی رواج پارہی ہے۔ خبر رفتہ رفتہ ردیف و قافیہ سے مزیّن انشائیے کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ اور ایک لکھنے پر کیا موقوف ہے، اب تو ہر عمل ششکوں کا متقاضی ہے۔ لوگ جرم بھی کرتے ہیں تو ششکوں کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ جرم کی زد میں آنے والے صرف گریہ کناں نہ ہوں، معاملے سے تھوڑا بہت لطف بھی کشید کریں!
ایک زمانہ تھا کہ ہر چیز اپنی جگہ پر تھی۔ غصہ اُسی وقت آتا تھا جب اُس کا آنا برحق ہوتا تھا۔ محبت اگرچہ کسی سے بھی ہوسکتی تھی مگر ہوتی اُسی سے تھی جو بہت حد تک اُس کا حقدار ہوتا تھا، معیار پر پورا اترتا تھا۔ شائستگی اور آداب کا معاملہ کچھ شرفاء تک محدود نہ تھا، زمانے بھر کے دھتکارے ہوئے اور طرح طرح کے عیوب سے ''مزیّن‘‘ اور رذیل سمجھے جانے والے بھی اپنی حدود سے آشنا تھے۔ غیرت اور بے غیرتی ... دونوں ہی خواص کا مظاہرہ اُس وقت کیا جاتا تھا جب ایسا کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی یا گنجائش دکھائی دیتی تھی۔ اچھے کاموں کا تو خیر ذکر ہی کیا، بُرے کام بھی لوگ دیکھ بھال کر کرتے تھے کہ کہیں کوئی غیر متعلق شخص لپیٹ میں نہ آ جائے! زمانے کی نظروں سے گرے ہوئے انسان بھی محض ششکوں کے چکر میں کسی کے لیے بلائے جان ثابت ہونے کی کوشش کرتے ہوئے تھوڑا بہت خوفِ خدا ضرور محسوس کرتے تھے۔
کل ایک خبر پڑھی تو گزرے ہوئے زمانوں پر نوحہ کناں رہنا محض درست ہی محسوس نہیں ہوا بلکہ اِس روش پر کچھ ناز بھی کرنے کو جی چاہا۔ خبر یہ ہے کہ پولیس نے دو ایسے جیب کترے گرفتار کیے ہیں جو صرف نمازِ جنازہ کے موقع پر اپنے ''فن‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں! یہ دونوں دراصل دس رکنی گروہ کا حصہ ہیں۔ قوم کے یہ ''سپوت‘‘ نمازِ جنازہ میں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، دل میں غم اور آنکھ میں آنسو بھر کر مرنے والے کے قریبی رشتہ داروں سے فرداً فرداً گلے ملتے ہیں اور جی بھرکے اشک بہاکر پُرسہ دینے کے ساتھ ساتھ اُن کا مال لے اڑتے ہیں!
نمازِ جنازہ اور تدفین صرف متعلقہ میّت کا معاملہ نہیں۔ آخری سفر میں کچھ دور ساتھ چل کر ہم میّت ہی کا کام آسان کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اپنے لیے بھی تھوڑی بہت عبرت کا سامان کرتے ہیں۔ ایسے لمحات میں کہ جب ذرا سی دیر کے لیے اِس دنیا سے تعلق منقطع سا ہوگیا ہوتا ہے، ہر طرح کی شرم اور غیرت کو بالائے طاق رکھ کر ہاتھ کی صفائی اور انگلیوں کا ہنر دکھانے کو ''انتہائے شجاعت‘‘ نہ کہیے تو پھر کیا کہیے! جن کے دل پر بوجھ ہو اُن کی جیب کو ہلکا کرنا! شاباش ہے اِن ''شیروں‘‘ کو۔ اس نوعیت کی بے حِسی اور بے ضمیری دکھانے کے لیے تو شیر کا جگر، بلکہ جگرا چاہیے!
اللہ ہی جانے ابھی اور کیا کیا دیکھنا اور سننا مقدر میں لکھا ہے؟ ذرا اندازہ تو لگائیے کہ ہم، آپ اب کون سے درجے کی ''رفعتوں‘‘ کے حامل ہیں، کس درجے کی مذلّت ہمارا نصیب ہوکر رہ گئی ہے کہ روئے زمین پر انسان کے آخری لمحات کو بھی آلودہ کرنے سے باز نہیں رہا جارہا۔
ایک زمانے سے ہم بھی سنتے آئے ہیں اور آپ نے بھی ضرور سن رکھا ہوگا کہ ع
سکندر جب گیا دنیا سے، دونوں ہاتھ خالی تھے
یہ مصرع لوگوں کو کچھ نہ کچھ سوچنے پر ضرور مجبور کرتا ہے یعنی یہ کہ روئے زمین پر ہمیں جو چند روزہ حیات ملی ہے اِس کے حوالے سے کچھ سوچیں، دوسروں کے انجام سے عبرت پکڑیں۔
ہم میّت میں کیوں جاتے ہیں یعنی نمازِ جنازہ اور تدفین میں شریک ہونے کی غایت کیا ہے؟ یقیناً یہی کہ اِس دنیا کو سب کچھ سمجھ لینے کی ذہنیت کو ذہن سے جھٹک دیں، اپنے وجود کو تھوڑی بہت معنویت سے ہم کنار کرنے کے بارے میں کچھ سنجیدہ ہوں۔ قبرستان میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ ہمیں اتنا تو یاد دلا ہی دیتا ہے کہ ؎
جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا
دو گز کفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہوگا
ہم تو جب بھی اللہ کی امانت اللہ کے حوالے کرکے قبرستان سے باہر آئے ہیں، تھوڑی سی افسردگی اور سنجیدگی ہی ساتھ لائے ہیں۔ کبھی کبھی قبرستان سے باہر آتے وقت مرنے والے کو یاد کرکے اُتنے آنسو نہیں بہہ رہے ہوتے جتنے لوگوں کا عمومی رویّہ دیکھ کر بہہ رہے ہوتے ہیں! حد یہ ہے کہ جس وقت میّت کو قبر میں لِٹایا جارہا ہوتا ہے ٹھیک اُس وقت بھی لوگ ہنسی مذاق اور دل بستگی سے باز نہیں رہتے اور انتہائی غیر متعلق باتیں کرکے اللہ کے غضب کو آواز دے رہے ہوتے ہیں۔ قبرستان کا حق ہے کہ اُس کی حدود میں بے جا تبسّم سے بھی گریز کیا جائے اور اپنے انجام کو یاد کرکے تھوڑی بہت تو خشیّت محسوس کی جائے، مگر ... ایسا لگتا ہے کہ دلوں پر مہر لگ چکی ہے!
شاید کچھ کمی رہ گئی ہے جسے یہ وکھری ٹائپ کے جیب کترے دور کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ عبرت پکڑنے کی طرف مائل ہی نہیں ہو رہا۔ دلوں پر مہر لگ چکی ہو یا معاملہ مہر لگائے جانے تک پہنچ چکا ہو تو لوگ موت جیسی حقیقت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ نمازِ جنازہ میں شریک ہونے والوں کی جیبیں کاٹ کر یہ جیب کترے شاید یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اپنا انجام مت بھولو یعنی ایک دن زندگی کی جیب بھی اِسی صورت کٹ جائے گی اور خالی ہاتھ جانا پڑے گا!
زمانہ نفسا نفسی کا ہے۔ سب کو اپنی پڑی ہے۔ اب کون کسی کے لیے روتا ہے؟ لوگ اپنے پیاروں کو بھی کچھ دیر میں بھول جاتے ہیں۔ معاملہ جب یہ ہو تو غیروں کے لیے کون آنسو بہائے؟ یہی سبب ہے کہ لوگ رسمی کارروائی کے طور پر نمازِ جنازہ و تدفین میں شریک تو ہو جاتے ہیں مگر ع
آنکھوں میں اشک بھی بڑی مشکل سے آئے ہیں
والی پریشان کن کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے میں یہ انوکھے، طرح دار جیب کترے شاید لوگوں کی مشکل آسان کرنے نکلے ہیں یعنی اگر مرنے والے کے نام پر دو اشک بہانا ممکن نہ رہا ہو تو اپنا مال لُٹ جانے پر ہی چند آنسو بہا لیے جائیں! لوگ جب بہتے ہوئے اشک دیکھیں گے تو تھوڑا بہت اثر ضرور قبول کریں گے اور بھرم بھی رہ جائے گا یعنی کسی کو معلوم بھی نہیں ہو پائے گا کہ آنسو میّت کے کھاتے میں بہائے گئے ہیں یا جیب کا جنازہ اٹھ جانے پر!
مسجد سے نمازیوں کی چپلیں اور جوتے چرانا تو خیر اب عام بات ہے۔ لاکھ استدعا کرنے پر بھی یہ قبیح حرکت کرنے والوں کے کانوں پر جُوں تک تک نہیں رینگتی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ دل اللہ کے خوف سے اس حد تک خالی ہوچکے ہیں کہ بہت سے کم ظرف مسجد الحرام کے صحن میں، اللہ کے گھر کے عین مقابل بھی جیب کاٹنے سے مجتنب نہیں رہتے! جرم کا احساس تک مٹ جائے تو ایسے ہی تماشے ہوا کرتے ہیں۔