دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی طاقتور ایجنسی CIA کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں پاکستان کی آئی ایس آئی '' کو کلیرنس سرٹیفکیٹ ‘‘ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''سی آئی اے میں اپنے چارج کے دوران میں نے ہر طرح سے کوشش کی تھی کہ پاکستان کی جانب سے کسی بھی ذریعے سے افغانستان میں تخریبی سرگرمیوں اور دہشت گردوں کی مدد کرنے کا کوئی سراغ مل سکے لیکن میں اپنی اس کوشش میں ناکام رہا اور مجھے اب یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان کی آئی ایس آئی افغانستان میں کسی بھی قسم کی مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث نہیں رہی‘‘۔۔۔۔اور امریکہ کے سابق وزیر دفاع کا امریکی یونیورسٹی میں دیا جانے والاوہ لیکچر بھی سامنے رکھنا ہو گا '' انڈیا افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرا رہا ہے ۔ افغانستان اور پاکستان کے پاس پر امن بقائے باہمی اور دونوں ملکوں کے کروڑوں عوام کی بہتری کیلئے آج ایک ہی رستہ بچتا ہے کہ وہ کسی بھی بیرونی دبائو یا لالچ کے بغیر آپس میں سٹریٹیجک ڈائیلاگ کیلئے فریم ورک تیار کرتے ہوئے اپنے شارٹ ، میڈیم اور طویل مدتی تمام اختلافات کو دور کریں۔ اگر دونوں ملک چاہیں تو چند ماہ کے اندر اندر اپنے اپنے حصے میں دہشت گردی پر بہت حد تک قابو پاسکتے ہیں اور اس کیلئے دونوں مسلم ہمسایہ ممالک کو نیک نیتی سے مشترکہ طور پر اپنی سرحدوں کے آر پار دہشت گردوں کی آمدو رفت اور ان کے کسی بھی قسم کے ٹھکانوں کو بہر طور ختم کرنا ہو گا۔ دونوں ملکوں کو یہ دو ٹوک فیصلہ بھی کرنا ہے کہ بارڈر مینجمنٹ اس طرح کی جائے کہ کوئی بھی ایک دوسرے کی حدود میں ڈرگ مافیا اور دہشت گرد کی سرکوبی کرتے ہوئے انہیں پنپنے کی اجا زت نہیں دے گا ۔ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی اور بیرونی مداخلت ختم ہو جاتی ہے تو پھر بیرونی سرمایہ
کاری کیلئے دونوں ملک دنیا بھر میں پر کشش بن جائیں گے اور گوادر بندرگاہ کے فعال ہونے کے بعد تو افغانستان کیلئے بہت سی سہولتیں اس کا راستہ دیکھ رہی ہیں۔ اس کیلئے سب سے پہلے کرنا یہ ہو گا آپس کی سرحدوں پرFencing سے اتفاق کرتے ہوئے دہشت گردوں کی مشترکہ طور پر سرکوبی کرنی ہو گی۔۔۔اگر افغانستان کی قیا دت کسی بیرونی مداخلت کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے نہیں روکتی تو پھر اس کا صاف مطلب ہو گا کہ وہ افغان عوام اور افغانستان کی نہیں بلکہ کسی شیطانی اوربد طینت قوت کی آلہ کار بنی ہوئی ہے ۔ پاکستان میں رکے ہوئے افغان مہاجرین کی حتمی واپسی کیلئے دسمبر2017ء کی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے۔۔۔کیا افغانستان چاہے گا کہ اس کے لاکھوں کی تعداد میں واپس آنے والے ان مہاجرین کیلئے تعلیم ، رہائش، صحت اور روزگار کی بجائے آگ اور بارود کا سمندر منہ پھیلائے انہیں نگلنے کیلئے تیار کھڑا ہو۔ ان کیلئے اسے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے ورنہ یہی لوگ داعش اور اس کی طرح دوسری جنگجو تنظیموں کے پاس پناہ لینے پر مجبور ہو جائیں گے اور یہی وہ وجہ ہے جس کے پیش نظر امریکہ کئی سالوں سے ان مہاجرین کو واپس جانے سے روکے ہوئے ہے ۔ کوئی بھی وقت ضائع کئے بغیر دونوں ملکوں کو دو طرفہ تعلقات میں گرم جوشی اور ایک دوسرے کے دشمن کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ اسی میں دونوں کی نجات ہے۔ پیسے کے بھیس میں دوست دکھائی دینے والا بھارت افغانستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے اس کے اندر لسانی، مذہبی
اور علا قائی نفرتیں پھیلانے میں مصروف عمل ہے ۔‘‘
افغانستان کی سیا سی، سما جی اور فوجی تبدیلیوں پر گہری نظر اور مطالعہ رکھنے والے افغان صحافی موسیٰ خان جلال زئی جن کی مختلف موضوعات پر اب تک 35 سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں Politics of religion and violence in Afghanistan, Dying to kill us جیسی مشہور کتابیں بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سی کتابیں امریکی کانگریس کی لائبریری کی بھی زینت ہیں۔ کوئی دس بارہ سال ہوئے لاہور کے الحمرا ہال میں ان کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران ان سے ایک تفصیلی ملاقات رہی جس سے ہمارے درمیان دوستی کا ایک سلسلہ شروع ہو ا ۔ اب بھی پاکستا ن کے بعض انگریزی اخبارات میں ان کے مضامین دیکھنے کا اکثر اتفاق ہوتا رہتا ہے اور حال ہی میں ان کا Afghanistan teeters on the brink کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں موسیٰ خان جلال زئی نے بھارت کے شیطانی منصوبوںکا انکشاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دنیا بھر کے تمام امن پسند اور دہشت گردی کے عفریت کو دفن کرنے کی خواہش رکھنے والے ممالک کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو بھارتی جمہوریت کی امن پسندی کے کھوکھلے نعروں اور دعووں کے سراب میں پھنسی ہوئی ہیں۔دنیا کے ہر آزاد فرد کو یہ جاننے کا پورا حق ہے کہ چھ ماہ پہلے تک امریکہ، چین، پاکستان اور افغانستان کی مشاورت سے طالبان کے ساتھ افغانستان میں متوقع معاہدے کو کس نے اور کیوں نا کام بنایا۔ وہ کون ہے جس نے ملا عمر کی موت کی خبر لیک کی اور پھر ایران سے بلوچستان کے راستے افغانستان جاتے ہوئے ملا منصور کو ڈرون حملے میں ہلاک کرایا؟امن کی ان کوششوں کو ناکام بنانے والا بھارت کے سوا اور کون ہو سکتا ہے تاکہ اُسے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے اندر دہشت گردی کرانے میں آسانی رہے اور اب کوئی شک ہی نہیں رہا کہ وہ یہ سب کچھ امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں کر رہا کیونکہ مولوی فضل اﷲ کا گروپ امریکی، ایساف اور نیٹو افواج کے سائے تلے ہی پھل پھول رہا ہے اور یہیں سے داعش بھی جنم لے رہی ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو بھارت کی یہ گھنائونی حرکات دہشت گردی کی ہی ایک قسم ہے جو ایساف، نیٹو، برطانوی اور امریکی قوموں کیلئے ایک وارننگ کی حیثیت رکھتی ہیں جن کے سینکڑوں فوجی افغانستان میں ''قیام امن‘‘ کی کوششوں کے دوران اب تک ہلاک ہو چکے ہیں ۔ اگر افغانستان میں درپردہ لسانی اور مذہبی عفریت کے کھیل تک پہنچا جائے تو کچھ بڑی طاقتیں افغانستان میں Ethnic Discrimination کے نام سے باہمی جنگ و جدل کیلئے وارلارڈز کو کروڑوں ڈالر تقسیم کر رہی ہیں اور حیران کن طور پر بھارت اس میں پپش پیش ہے اور یہ بات کسی مفروضے پر نہیں بلکہ موسیٰ خان جلال زئی نے دوستم کے حوالے سے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اگر اپنے اس ناپاک منصوبے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر اقوام عالم کو داعش کے ایک نئے اور طاقتور عفریت کی بربریت کا سامنا کرنے کیلئے ا بھی سے تیار رہنا ہو گا اور اس کاثبوت یہ ہے کہ داعش کی یورپ میں دہشت گردی کا ایک ہلکا سا مظاہرہ ابھی حال ہی میں فرانس، بلجیم، امریکہ اور جرمنی میں دیکھا جا چکا ہے جس میں افغانستان سے داعش کیلئے بھرتی کئے گئے لوگ ملوث پائے گئے ہیں۔۔۔برطانیہ امریکہ سمیت دنیا بھر کا میڈیا اس حقیقت سے بے خبر تو نہیں ہو سکتا کہ مشرقی او رشمالی افغانستان میں داعش کس طرح اپنے پائوں پھیلا رہی ہے ا و ر جنوبی افغانستان میں طالبان کے مراکز مضبوط ہو رہے ہیں۔
کیا امریکہ اور یورپی یونین جان بوجھ کر افغانستان کو داعش کی پناہ گاہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ افغانستان میں اگر امن نہیں ہو گا لسانی، علا قائی اور مذہبی تفرقہ بازی خون سے بھرنا شروع ہو گئی تو پھر ہر صوبے میں وار لارڈ کا راج ہو گا کسی حکومت کا نہیں۔ 1980ء سے پہلے تک افغانستان کے نو جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی روس کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مفت تعلیم کے ساتھ مذہب سے بیزاری کی برین واشنگ کی جاتی تھی اب وہی سبق بھارت نے افغان طلبا و طالبات کو اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوںمیں دینا شروع کر دیا ہے ۔۔۔کیا اشرف غنی اور عبد اﷲ عبد اﷲ افغانستان کی نئی نسل کو ایک اﷲ کی بجائے 70 سے زائد بھگوانوں اور کالی ماتا، گائو ماتاکے پجاری بنانا چاہتے ہیں۔۔۔افغانوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ان کا اصل دوست وہی ہے جس نے ان کی مصیبت میں مدد کی اور جن کیساتھ ان کے خونی اور مذہبی رشتے ہیں۔