تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-12-2016

دھندمیں روشنی

اس سوال کا جواب سبھی کو معلوم ہے‘ بولتا کوئی نہیں۔ دھند خوف زدہ کرتی ہے اور دبیز دھند اور بھی زیادہ!
گوجرانوالہ میں گزرتا وقت شاد کرتا ہے۔ ایبٹ آباد اور میرپور بھی اتنے ہی محبوب شہر ہیں مگر وہ تو راہ میں پڑا ہے۔ رفتہ‘ رفتہ اتنے بہت سے دوست مل گئے کہ شاید ہی کہیں اور ہوں۔ خوش دل‘ خوش مزاج۔ غم پالتے نہیں اور جو سر اٹھائے‘ اسے کھانے کی خوشبو میں ڈبو دیتے ہیں ع
ایں دفترِ بے معنی غرِق مئے ناب اولیٰ
اب کی بار ایک درد بھی ہم رکاب تھا اور وہ ہولناک دھند بھی‘ آغازِ سر ماہی سے دہلی سے لے کر جہلم تک جو چھائونی ڈال دیتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دلّی والے‘ سنگاپور اور امریکہ کی مدد سے‘ حل تلاش کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ جہاں تک لاہور والوں کا تعلق ہے‘ وہ ابھی سیمنٹ اور سریے کے جنگل اگا رہے ہیں۔ ان سے فرصت پائیں ۔ سارے جہان میں پھیلے کاروباروں سے اپنے خزانے معمور کر چکیں تو خلق خدا کے بارے میں سوچیں۔ ابھی تو بادشاہت کا غرور ہے اور ''ھل من مزید‘‘ کی وہ تمنا جو دریا کو سراب اور سراب کو دریا بناتی ہے۔ بے شک آدم زاد کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے...اور قبر کس کو یاد ہے؟
اسامہ کی موت کا غم ہرا ہے اور بہت دن ہرا رہے گا۔بر وقت لاہور کا قصد کیا ہوتا تو چناب کا پل پار کرنے کے بعد دائیں ہاتھ مڑ کر اس گائوں تک جاتا‘ پروفیسر سلیم منصور خالد جس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ انگریز شاعر کی ورڈز ورتھ جنم بھومی سے کم نہیں۔ وہ چشمے اور سبزہ زار جو ابدالآباد تک باقی رہنے والے نغموں میں جھلملاتے رہیں گے۔
حسن نثار نے پوچھا تھا : سفر سے تم اکتاتے نہیں؟ سفر سے کیسی اکتاہٹ؟ نئے دیار‘ نئے لوگ‘ نئی حیات۔ زندگی‘ اپنے تنوع ہی میں تو جلوہ فرما ہوتی اور نت نئے مناظر سے گھونگھٹ اٹھاتی ہے۔کھیت‘ کھلیان‘ جنگل اور صحر... ندیاں‘ چشمے اور دریا...کوہسار اور ان کی ترائیاں ؎
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشتِ انساں پر
کسی بھی شہر میں جائوں‘ غریبِ شہر نہیں
دریائے جہلم کا پل پار کیا تو دبیز دھند نے آ لیا۔ عرفان شیخ کو فون کیا کہ کیا فلاں ریستوران دس بجے کے بعد بھی کھلا ہو گا۔ بات بات پر ہنسنے والے آدمی نے قہقہہ لگایا اور کہا : حضور! سامنے کا گھر دکھائی نہیں دیتا‘ آپ ہوٹل کا پوچھتے ہیں۔ گھبرا کر اسلم شیخ کو فون کیا کہ ہوٹل کا ایک کمرہ کھول رکھیے ۔ شیخ صاحب کے دوست انہیں ''بھولا‘‘ کہتے ہیں۔ سیدھا سادہ‘ صاف ستھرا آدمی۔ باورچی خانے والوں سے کہا کہ کھانے کا ایک ذرا سا بندوبست کر رکھیں۔ کہا : دو گھنٹے سے پہلے آپ پہنچ نہیں سکتے۔ باورچی اس وقت تک سدھار چکے ہوں گے۔ عرض کیا : اس افتاد میں گرم کھانے کی کس کو فکر ہے۔ پیٹ کا دوزخ بھرنا ہے۔
دائیں بائیں کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ دھند کہیں چھدری ہوتی تو درختوں کی قطاریں‘ دیو زادوں کی طرح سر جھکائے‘ ششد اور پریشان‘ گاہے گریاں سی محسوس ہوتیں۔
تاریکی اور خوف‘ جڑواں بہن بھائی ہیں۔ حدنظر تک سفید سیاہی۔ اب کیا کیجئے؟تب خیال آیا کہ ایک جہان‘ وسیع و عریض ایک کائنات‘ خیالات کی بھی ہوتی ہے۔آنکھوں کے دریچے بند کرو‘ سینے کا در بازکرو۔
وہ شہنشاہ پرنس حمورابی کا تخت بچھا ہے۔ پتھروں پر جس نے فرمان کھودنے کا حکم دیا تھا : زندگی جزا و سزا میں ہوتی ہے۔ چھ ہزار برس بیت چکے۔ ہرچند کہ تاریخ‘ اس کے باب میں خاموش ہے۔ اس کے اقوال مگر زندہ ہیں۔ گونجتے پتھروں سے ابھر کر یاد دلاتے رہتے ہیں کہ مسندِ اقتدار کو اگر کوئی عادل زینت بخشے تو زندگی سرفراز اور سرخرو ہونے لگتی ہے۔
خیال بھٹکتا ہے اور بھٹکتا ہی چلا جاتا ہے۔ افکار کی دنیا میں‘ خیالات کے انفس و آفاق میں‘ کوئی ماضی ہوتا ہے‘ حال نہ مستقبل۔ سب زمانے گھل مل جاتے ہیں۔ ساری یادیں گلے ملتی ہیں۔ سب مردان خود آگاہ ایک چمن میں ظہور کرتے ہیں۔
یہ عباسیوں کے زوال کا عہد ہے‘ جس کے جدّ امجد منصورکو دجلہ اور فرات کی سرزمینوں کو سیراب کرنے کا ایک نادر نسخہ سوجھا تھا۔ دونوں دریائوں کے بیچ کھالے کھدوا دیئے جائیں تو پانیوں اور کھیتوں کو دوام مل جائے گا۔ مگر اب یہ قحط کا زمانہ ہے۔ مکھیوں اور مچھروں کی طرح خلق مرتی ہے۔ ایسے میں لوگوں نے دیکھا کہ ایک کنیز بازار میں سے اچھلتی چلی جاتی ہے‘ شوخ قدم‘ شوخ چشم۔پوچھا گیا : مفلسوں اور محتاجوں پہ تم خندہ زنی کرتی ہو۔
صدیاں گزر چکی تھیں‘ غزالی نے‘ یگانٔہِ عصر امام محمد بن احمد الغزالی نے جب احوال بیان کیا۔ کڑے لہجے میں کنیز بولی: مجھے کیا؟میرے آقا کے گودام اناج سے بھرے ہیں۔ مولوی سے غزالی فقیر ہوا کہ دائم اب جگمگاتا رہے گا۔ زہرہ اور مشتری‘ چاند اور سورج اور کہکشائوں کے درمیان‘ وہ ایک روشن ستارہ ہے اور سب سے زیادہ تاباں۔ آفتاب و مہتاب ایک دن سمیٹ دیئے جائیں گے۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے ‘ ریگ زارہو جائیں گے۔ صوفی مگر جیتا رہے گا۔ اس نے لکھّا : کنیز کو اپنے آقا پر یقین تھا۔ اپنے رب پر ہمیں کیوں نہیں؟ کیوں نہیں ہے آخر؟
فرمایا : اسے یاد کرو‘ وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ کہا : موت سے پہلے ہی مر جائو ؎
فردائے قیامت تک جینا حصّہ ہے‘ اسی فرزانے کا
جس نے کہ سلیقہ سیکھ لیا‘ جینے کے لیے مر جانے کا
زندگی کی نمود‘ شوکت و رفعت‘ آدمی کے شادمانی و بالیدگی باطن سے نمودار ہوتی ہے‘ باہر نہیں۔ باہر دھند ہو یا چلچلاتی دھوپ‘ ریگستان یا برف زار‘ داخل آسودہ ہو تو برف زار میں پھول کھلتے ہیں۔ تپتے صحرائوں میں پرندے چہچہاتے ہیں۔ خواجہ غلام فرید کو‘ روہی میں چہارسو رنگین پیرہن دکھائی دیتے۔شاعروں نے تاکستانوںسے مصرعے کشید کیے۔ چولستان کے درویش نے ریت کے ذرّوں کو موتی بنا دیا ؎
جے یار فرید قبول کرے‘ سردار وی توں‘ سلطان وی توں
نہ تاں کہتر‘ کمتر‘ احقر‘ ادنیٰ‘ لاشے‘ لا مکان وی توں
کہر کی ماری شاہراہ پہ کبھی کبھی کہیں کہیں‘ چراغاں سا ہو جاتا ہے۔ یکایک‘ اچانک درخشاں۔ یہ وہ روشنی ہے‘ چودہ سو برس پہلے جو حجاز کے صحرا میں طلوع ہوئی تھی۔جب تک گردش لیل و نہار قائم ہے‘ جگمگاتی رہے گی۔ فرید کی کوک پھر سنائی دیتی ہے:
میں اتھ مٹھڑی نت جان بلب
ڈھولا اُتھ وسدے وچ ملک عرب
توڑیں دھوڑے دھکڑے کھاندی ہاں
تیڈے ناں تے مفت وکاندی آں
تیڈی باندیاں دی میں‘ باندی آں
تیرے در دے کتیاں نال ادب
میں یہاں‘ دردوں کا مارا‘ جاں بلب۔ میرا محبوب دور وہاں ملکِ عرب میں آباد ہے۔ اگرچہ عشق کی راہ میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہوں۔ اس کے نام پر بے مول بکتا ہوں۔ تیرے غلاموں کا میں غلام۔ تیرے دروازے پر پڑے کتوں کا بھی ادب ملحوظ۔
گوجرانوالہ میں وہی مباحثہ ہے۔ عدالت کیا شش و پنج کا شکار ہو گئی؟ اندیشوں میں سرگرداں و حیران؟ نئے چیف جسٹس عدالت کا حصّہ ہوں گے یا نہیں؟ فوج کا نیا سربراہ اپنے پیش رووں کی راہ پر چلے گا یا اس نے کوئی نئی شاہراہ تراشنے کا ارادہ کیا ہے؟ آئی ایس آئی کا پاسبان کس سے پیمان رکھتا ہے؟سنایہ بھی ہے وہ ایک سپاہی زادہ ہے‘ سرتاپا خود بھی سپاہی۔ ارے نہیں‘ کوئی پکارتاہے‘ وہ تو بالکل ہی دھیما سا آدمی ہے۔ چپ چاپ‘ گم سم۔ پھر تیسری آواز سنائی دیتی ہے۔ نہیں‘ نہیں تم نہیں جانتے‘ دہشت گردوں کے خلاف اس نے جنگ لڑی ہے‘ اب کیوں وہ اپنی خو بدلنے لگا؟ آدمی کا ماضی ہی اس کا مستقبل ہوتا ہے۔ سوال : کب تک شریف لوگ ہم پر مسلّط رہیں گے؟ جواب : جب تک تم انہیں شریف جانتے ہو۔سوال : جنون و جبر کے جبڑوں میں گوجرانوالہ شہر کب تک سسکتا رہے گا؟ جواب : اصول جب تک رشتہ داری‘ ذات برادری اور مفاد پرستی کے قدموں تلے پامال ہوں گے۔ بوڑھا خرانٹ سیاست دان اسلام آباد پہنچا۔ اپنی برادری کے دو وزیر ساتھ لیے۔ محل میں پہنچا اور شہر اپنے نام لکھوا لایا۔
اب ایک مہیب سناٹا ہے۔فضا میں ایک سوال نہ ٹلنے والی دھند کی طرح ٹھہر گیا ہے۔ ہمیشہ کی بادشاہی اگر اللہ کی ہے تو خودپسند‘ خودسر آقا ہم پر کیوں مسلط ہو جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب سبھی کو معلوم ہے‘ بولتا کوئی نہیں۔ دھند خوف زدہ کرتی ہے اور دبیز دھند اور بھی زیادہ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved