تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     14-12-2016

قطری شہزادے پر اتنا غصہ کیوں؟

کسی مصیبت میں پھنسے آدمی کے لیے گوجرانوالہ کے ایک بڑے پولیس افسر وقاص نذیر صاحب کو فون کیا۔ اگر کسی افسر سے جان پہچان نہ ہو تو پہلے ایک ٹیکسٹ کر کے اجازت مانگ لیتا ہوںکہ کال کر لوں؟ وقاص صاحب کی مہربانی کہ انہوں نے ٹیکسٹ کے جواب میں خود کال کر لی۔ گفتگو سے لگا وہ اچھے اور مہذب پولیس افسر ہیں۔ میں نے ان سے درخواست کی ایک سائل ہیں، ان کی بات سن لیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ نچلے لیول پر ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ انہوں نے جواب دیا، جی ان سے مل لیتا ہوں، قانون کے مطابق کام ہوگا۔ میں کسی کو غیر قانونی کام نہیں کہتا اور نہ ہی کوئی میرے کہنے پرکرتا ہے۔ میں تو جائزکام بھی کہنے سے ڈرتا ہوں کہ اگلا یہ نہ کہہ دے کہ آپ صحافی ہونے کی وجہ سے کام کہہ رہے ہیں یا دبائو ڈال رہے ہیں ۔ اس مزاج کی وجہ سے نقصان بھی اٹھائے ہیں لیکن کبھی پچھتاوا نہیں ہوا۔ بہت سے دوست اور رشتہ دار ناراض ہوئے اورکچھ مایوس۔ 
خیر میں بات کرنا چاہتا ہوں اس قانون کی جس کا حوالہ اپنے پیغام میں وقاص نذیر صاحب نے بھیجا۔ انہیں یہی کہنا چاہیے تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ انہوں نے تسلی سے بات سن لی۔ کام ہو یا نہ ہو، اگر افسر عزت اور آرام سے بات سن لے تو بھی بڑا فرق پڑتا ہے۔ تکلیف میں مبتلا شخص کا آدھا دکھ غائب ہو جاتا ہے۔ تاہم وہی سوال میرے ذہن میں ابھرا کہ جس قانون کا حوالہ وقاص نذیر صاحب نے دیا، آیا وہ سب کے لیے ہوتا ہے یا جو قانون کا جالا توڑ سکے اس کے لیے یہ قانون نہیں ہوتا؟ جس مصیبت میں گرفتار بندے کے لیے میں نے فون کیا تھا اس پر تو قانون اپلائی ہوگا اور ہونا چاہیے، لیکن اس ملک کے وزیر اعظم اور پارلیمنٹیرین جو قانون بناتے ہیں، ان پر یہ قانون اپلائی کیوں نہیں ہوتا؟ 
جی ہاں، آپ نے درست سمجھا، ہمارے ملک میں بڑے لوگوں کے لیے کوئی قانون نہیں۔ میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا، جب پاناما سکینڈل پر پبلک اکائونٹس کمیٹی نے نیب، ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی اور ایف بی آر کو بلایا اور پوچھا کہ بتائیں آپ نے اب تک پاناما سکینڈل پرکیا کارروائی کی ہے؟ تو اس سے پہلے کہ وہ جوابات دیتے، قومی اسمبلی کے سابق سیکرٹری ستر سالہ کرامت نیازی، جنہیں نیا کنٹریکٹ دے کر سیکرٹری لاء لگایا گیا ہے، نے ہاتھ کھڑا کیا کہ اس سے پہلے کہ کمیٹی دوسرے لوگوں کو سنے، پہلے انہیں سنا جائے کیونکہ وہ لاء سیکرٹری ہیں۔ چنانچہ پی اے سی کے ممبران ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ شیخ رشید نے رولا ڈالا کہ اس کنٹریکٹ یافتہ ریٹائرڈ بوڑھے افسر کو نہ سنا جائے کیونکہ سب کو پتا ہے کہ طوطا کیا توپ چلائے گا۔ 
خیر، نیازی صاحب موصوف بولے اور حکم جاری کیا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی جس کے چیئرمین اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ہیں، انہیں پاناما کیس پرکسی بھی ادارے سے بریفنگ لینے کا کوئی حق نہیں۔ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے یہ سماعت فوراً روک دی جائے۔ میرا قہقہہ نکلا تو ساتھ بیٹھا صحافی دوست بولا، یار کیوں مرواتے ہو۔ میں نے کہا جواز سنیں ریٹائرڈ زکوٹا جن کا۔ یہ پارلیمنٹ ہے جس کے بنائے ہوئے قانون کی وجہ سے یہ ستر سال کی عمر میںکنٹریکٹ پر سیکرٹری لاء لگے ہیں اور قانون کی وزارت بھی اسی کے بل بوتے پر وجود میں آئی، اب پارلیمنٹیرینزکو حکم دے رہے ہیں۔ وزارت قانون کی موجد (پارلیمنٹ) کو کہا جا رہا ہے، ان کی وزارت کے قوانین پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرینز سے زیادہ طاقتور ہیں۔ بھینس گئی پانی میں اور مرگئی۔ پارلیمنٹ کی خود مختاری ایک لحمے میں ختم۔۔۔! کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ سیکرٹری قانون کو اجلاس سے باہر نکال دیتا کہ آپ کو جرأت کیسے ہوئی کہ تم بتائو پارلیمنٹ کو پاناما کیس کی سماعت کا اختیار نہیں ہے؟
اس کے بعد ایف آئی اے کی باری آئی۔ ڈی جی ایف آئی اے عملیش صاحب کا سب سے بڑا اور اکلوتا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دھرنے کے دنوں میں ایک اچھے پولیس افسر محمد علی نیکوکارا کے خلاف انکوائری کر کے ان کی برطرفی کی سفارش کی تھی۔ الزام یہ تھا کہ نیکوکارا نے بچوں اور عورتوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ نیکوکارا کو برطرف کرانے کے اس نیک کام میں سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری بھی شامل تھے جو اس انکوائری کمیٹی کے ممبر تھے۔ انہوں نے بھی چوہدری نثار علی خان کی انا کی تسکین کے لیے محمد علی نیکوکارا کی برطرفی کی سفارش کر دی تھی۔ 
جی آپ نے درست پہچانا، اعزاز چوہدری وہی ہیں جنہوں نے روٹس ملینیم کے فیصل مشتاق کو دس کنال کا کمرشل پلاٹ، جو اگر آکشن ہوتا تو اربوں روپے میں بکتا، سی ڈی اے سے مفت لے کر آگے بھی مفت میں دے دیا۔ فیصل مشتاق اربوں روپے کا پلاٹ لے کر اس پر سکول بنائے گا اور ہر ماہ اسلام آباد کے بچوں سے دو کروڑ روپے فیس کمائے گا اور ڈیل کے تحت اس دوکروڑ روپے میں سے تین لاکھ روپے اعزاز چوہدری کی بیگم کی این جی او کو دے گا۔ وہ فرماتے ہیں کہ سب قانون کے تحت کیا گیا ہے۔ 
بات ہو رہی تھی ڈی جی ایف آئی اے کی۔ موصوف سیکرٹری لاء سے ایک ہاتھ آگے جاتے ہوئے بولے، جناب! ہمارا کیا لینا دینا۔ ایف آئی اے توکسی ایم این اے، سینیٹر یا صوبائی اسمبلی کے ممبر تک کو نہیں پکڑ سکتی، یہاں تو وزیراعظم کے بچوں کی بات ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا، قانون انہیں اجازت نہیں دیتا کہ وہ بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈال سکیں۔ اب چھکا مارنے کی باری نیب کی تھی۔ نیب نے بھی یہی کہا کہ جناب ان کا پاناما سکینڈل سے کیا لینا دینا۔ یہ ایک اخباری خبر ہے، اسے بھلا کیونکر سنجیدگی سے لیا جائے۔ ویسے بھی یہ ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ 
ہم سب انگلیاں دانتوں میں دبائے یہ سب سن رہے تھے۔ کیا یہ وہی نیب نہیں جس نے بینظیر بھٹو اور زرداری کے سوئس بینکوں میں خفیہ اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے مقدمات فالو کیے اور سزا دلوائی تھی۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں تو سیف الرحمن کو تیس کروڑ روپے آئی بی کے خفیہ فنڈ سے دیے گئے تھے کیونکہ موصوف فرماتے تھے کہ انہوں نے عالمی فرموں، وکیلوں اور جاسوسوں کو ادائیگیاں کرنی ہیں تاکہ بینظیر بھٹو اور زرداری کے خفیہ کھاتوں تک پہنچا جاسکے۔ داد دیں سیف الرحمن کو کہ وہ ان خفیہ دستاویزات تک پہنچ بھی گئے اور ساراکچا چٹھا نکال بھی لائے تھے۔
سیف الرحمن کے بعد پیپلز پارٹی کے جانثار واجد شمس الحسن کو داد دینا بنتی ہے کہ انہوں نے لندن میں ہائی کمشنر کی تعیناتی کا احسان اس طرح چکایا کہ جیمز بانڈ انداز میں وہ جینوا پہنچے، سر پر کالا ہیٹ رکھے، منہ میں کیوبن سگار دبائے، برستی بارش میں اس کیس کی تمام دستاویزات کے باکس چراتے ہوئے پکڑے گئے۔کیمرے کی آنکھ نے یہ سب محفوظ کر لیا۔ تاہم ہمارے لندن کے دوست مرتضی علی شاہ کی بنائی ہوئی اس جیمز بانڈ ٹائپ فلم میں کمی صرف ایک خوبصورت مخلوق کی رہ گئی جو ان کے ساتھ نہ تھی، جب جنیوا سے چرائے گئے یہ سب ثبوت ضائع کیے جا رہے تھے۔ اب وہی نیب کہہ رہا تھا کہ جناب کوئی قانون انہیں اجازت نہیں دیتا کہ وہ پاناما پر کارروائی کرے۔ 
سیکرٹری لائ، ایف آئی اے اورنیب کے بعد یہ طوطا مینا کی کہانی ایف بی آر، ایس ای سی پی اور سٹیٹ بینک کے افسران نے بھی کمیٹی کے سامنے دہرائی۔ سب نے فرمایا کہ قانون اجازت نہیں دیتا۔ گویا بڑے لوگ چاہیں تو پاکستان کو لوٹ کر دنیا کے کسی کونے میں لے جائیں، ہم کچھ نہیںکر سکتے۔ 
اب عدالت بھی ایک طرح سے ہاتھ کھڑے کرچکی کہ جناب پاناما کا جن ان کے بس سے باہر ہے، لہٰذا عمران خان اور نواز شریف کے وکیل آپس میں طے کر کے عدالت کو بتا دیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ ویسے کتنے خوش نصیب ہیں عمران خان اور نواز شریف جن کے وکیلوں کو یہ رعایت ملی۔ یقیناً یہ رعایت بھی قانون کے تحت ہی ملی ہوگی۔ 
اور سن لیں۔ بھارت اور قطر کے درمیان چند معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ ان معاہدوں میں قطر نے بھارت کو پیشکش ہے کہ کچھ برس بعد قطر میں فٹ بال کا جو عالمی کپ ہونے والا ہے، بھارت چاہے تو وہاں اپنی مین پاور بھیج سکتا ہے، بھاری کنٹریکٹ لے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کو پیشکشں کی گئی ہے کہ وہ قطر پورٹ پر بھی سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ ان معاہدوں میں یہ بھی طے پایا ہے کہ دونوں ممالک انفراسٹرکچر، سپیشل اکنامک زون، سول ایوی ایشن، انرجی، پیٹروکیمکل، صحت، فارماسیوٹیکل، انفارمیشن ٹیکنالوجی، تعلیم، ٹورازم اور زراعت میں بھی مل کر کام کریں گے۔ تین دسمبر کو وزیراعظم مودی اور شیخ عبداللہ بن ثانی کے درمیان جو معاہدے ہوئے ان کے مطابق بھارت اور قطر میں داخل ہونے کے لیے سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ ہولڈرزکو ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ بھی معاشی ترقی کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ 
اور ہم نے قطر سے کیا حاصل کیا؟ ایک شاہی خط، چند رسیدیں اور مہنگی ایل این جی کے سودے! اور اس ایک خط کے بدلے قطریوں کو شکار کے پرمٹ اور بھکر میں کھلی چھٹی کہ جس کے کھیت میں چاہیں گھس جائیں۔ بھکر کے غریب کسان احتجاج کریں یا بھوکے مریں، کون سنتا ہے۔ ویسے مجھے آپ لوگوں سے ایک پوچھنی ہے۔ یہ پورا ملک قطری شہزادوں سے کیوں ناراض ہے؟ بھارتی وزیراعظم مودی کو اپنے بھارتی شہریوں کے لیے قطر میں 2022ء میں فٹ بال ورلڈ کپ کی تیاریوں کے موقع پر ہزاروں نوکریاں درکار تھیں اور ہمارے شاہی خاندان کو ایک خط۔۔۔۔!
صدیوں پرانی الف لیلیٰ کی کہانیوں کے رحم دل اور سخی عرب بادشاہ تو سب کو نوازتے چلے آئے ہیں۔ جس نے بھی اپنا خالی کشکول آگے کر کے جو مانگا، اسے وہ مل گیا۔ پھر بے چارے رحم دل قطری شہزادوں پر اتنا غصہ کیوں۔۔۔آخر کیوں۔۔۔؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved