تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     14-12-2016

قبرص میں تین روز

بحیرۂ روم میں قبرص (Cyprus) ایک بڑا جزیرہ ہے جس کی تین چوتھائی آبادی یونانی زبان بولتی ہے اور ایک چوتھائی ترکی (جو شمالی قبرص میں رہتی ہے۔) بچپن سے اس جزیرے کے قصے کہانیاں سنتا آیا تھا مگر پہلی بار جانے کا موقع 18نومبرکو ملا۔ فیصل ساتھ نہ جاتا تو یہ خواب اب بھی پورا نہ ہوتا۔ ہفتہ اور اتوار کی سرکاری چھٹی کے دو دن کام آئے۔ لندن میں کوئی کام اتنے ضروری نہ تھے کہ آڑے آتے۔ میں اپنے سفر کے پروگرام سفر سے کئی کئی ماہ پہلے بناتا ہوں توکچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ خریدا ہوا ٹکٹ استعمال ہوگا یا ضائع ہو جائے گا؟ میں نے آنے والے سال میں کئے جانے والے ہوائی سفر کے ٹکٹ خریدنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ بسم اللہ مارچ کے پہلے ہفتہ میں پاکستان کے سفر کے پروگرام سے کی ہے۔ نئے سال کے پہلے دو ماہ ابھی خالی پڑے ہیں۔ وہ بھی اگلے چند ہفتوں میں ہوائی ٹکٹ کی شکل اختیار کر لیںگے۔ یقیناً کئی ایسے مقامات پر جانا چاہیے جہاں کام اتنا ضروری ہو کہ وہ سرد موسم اور برفباری پر غالب آجائے یا وہاں دھوپ ہو اور بہتر ہوگا کہ سمندر بھی ہو۔ مگر قبرص میں کوئی کام نہ تھا۔ مقصد صرف سیرو سیاحت تھا اور وہ مقامی میزبان Panayiotis Sphikas نے جسے ہم پیار سے Panos کہتے ہیں، بخوبی پورا کر دیا۔ برطانیہ سے آئے ہوئے باپ بیٹے کی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لگتا ہے کہ میں قبرص میں اپنے میزبان اور لندن میں ڈوریاں ہلانے والے خرم عزیز اور اُن کی منہ بولی اماں Mila کا شکریہ کبھی اپنی زبان سے ادا نہ کر سکوں گا۔ صرف دل ہی دل میں محسوس کروںگا اور میزبان کو دُعائیں دوںگا جو وہ اپنے کانوں سے تو نہ سن سکے گا مگر اُس کے دل کو ضرور پتا چل جائے گا کہ میں کتنا احسان مند ہوں۔
لندن سے قبرص کی پرواز ساڑھے چار گھنٹے لمبی تھی۔ یہ جزیرہ ترکی کے اتنا قریب ہے(غالباً صرف30 میل دُور) کہ میں ساحل سمندر سے ترکی کے پہاڑوں کا دھندلا سا عکس دیکھ سکتا تھا۔ جغرافیائی اعتبار سے قبرص کا محل وقوع اس کی تاریخ اور تجارت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا۔ یہ جزیرہ یورپ، مشرق وُسطیٰ اور افریقہ کے چوراہے پر ہے۔ سرکاری معلومات (جن کو میں ہمیشہ شک و شبہ کی نظروں سے دیکھتا ہوں) کے مطابق اس ملک کی کل آبادی صرف آٹھ لاکھ پانچ ہزار نو سو ہے۔ ہمارے ایک اوسط درجہ کے شہر کے برابر۔ تجارت، جہاز رانی اور سیاحت کی وجہ سے قبرص کے لوگوں کا معیار زندگی سپین، اٹلی اور یونان (جنوبی یورپ کے مقابلتاً کم امیر ممالک) کے برابر ہے۔ سارا جزیرہ خوشحالی، سکون، امن و امان، اطمینان، اچھی حکمرانی اور عوام کی خوش و خرم اور محفوظ زندگی کا تاثر دیتا ہے۔ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ان سات بڑی خوبیوں سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔
گزشتہ ہزاروں برسوں میں قبرص پر یکے بعد دیگرے بہت سی غیر ملکی طاقتوں نے قبضہ کیے رکھا۔ باز نطینی،Assyrian،مصر، Venice، ایران، روم، سلطنتِ عثمانیہ اورآخر میں انگریزوںکا تسلط جو 1876ء میں شروع ہوا اور 1960ء تک جاری رہا۔ بازنطینی اور عثمانی سلطنت کے قبضہ کی کل مدت بالترتیب آٹھ اور تین صدیاں بنتی ہے۔ بارہویں صدی میں انگلستان کے بادشاہ رچرڈ کے ذہن میں صلیبی جنگ کا جنون سمایا تو اُس نے یروشلم پر حملہ کرنے کے لئے ضروری سمجھا کہ قبرص کوBase Camp بنادیا جائے۔ اس منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے اُس نے1191ء میں قبرص کو فتح کر لیا اور Limassol کے شہر میں قلعہ تعمیر کیا۔ فیصل اور میں نے اپنے میزبانوں کے ساتھ اُس کے سائے میں بیٹھ کر شام کا کھانا کھایا۔ اس شہر والوں نے تیز روشنیوں سے قلعے کی دیواروں کو منورکر رکھا تھا جبکہ ہمارے ذہنوںکو 1192ء میں رُونما ہونے والے واقعات کو طویل عرصہ پہلے پڑھی تاریخ کی بازگشت روشن کر رہی تھی۔ مغربی تاریخ نویس بار بار دُہراتے ہیں کہ رچرڈ کی فوج چند گھنٹے اور مارچ کرتی تو وہ یقیناً یروشلم پر قبضہ کرلیتی جو ایک پکے پھل کی طرح صلیبی فوج کی جھولی میںگرنے کے لئے تیار تھا، مگر برُا ہو بھوک اور پیاس کا جس نے رچرڈ کی فوج کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ مزید برآں رچرڈ کی فوج فلسطین میں لمبے لمبے مارچ کر کے کافی تھک بھی چکی تھی۔ یہ تھی وہ مجبوری جس کی وجہ سے رچرڈ کوپسپا ہونا پڑا۔ صرف پسپائی نہیں بلکہ اُسے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ اُن شرائط پر صلح کرنا پڑی جو ہرگز باعث فخر نہ تھیں اور نہ شیر دل کہلانے والے بادشاہ کے نام اور شہرت سے مناسبت رکھتی تھیں۔ ایک شرط یہ بھی تھی کہ (جذبۂ خیر سگالی کے اظہار کے لئے) رچرڈ اپنی بہن کی شادی سلطان صلاح الدین کے بھائی کے ساتھ کرنے کا پابند ہوگا۔ جب یہ معاہدہ ہوا تو اتفاقاً ان دنوں بھی نومبرکا مہینہ تھا ( 824 سال پہلے کا۔)
مشرق وسطیٰ کے ہر ملک کی طرح قبرص کے لوگ بھی مہمان نواز ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کا فن جانتے ہیں۔ چھوٹا سا جزیرہ (کل رقبہ 3578 مربع میل) ہونے کی وجہ سے ہم جس طرف بھی جاتے(اور تین دنوں کے اندر ہم تقریباً ہر طر ف گئے) ہمیں سمندری لہریں نظر آئیں۔ ساحل کا مطلب تھا چائے اورکافی اور دُوسرے مشروبات (ہماری شرع میں حرام) پینے کی بے پناہ سہولت۔ اگر پینے پلانے کا چاروں طرف یہ عالم ہو تو دُوسرے نمبر پر کھانے کی دُکانیں اور ریستوران آتے ہیں۔ میں نے اہل قبرص کے غرورکو سمندری ریت میں رگیدتے ہوئے یہ مان لینے پر تیارکر لیا کہ وہ چاہے جو جتن کر لیںکھانے کی دُکانوں کی بہتات کے معاملہ میں لاہورکا مقابلہ نہ کریں تو بہتر ہوگا چونکہ اُن کی شکست یقینی ہے۔ اہل قبرص نے اتنی آسانی سے ہتھیار نہ ڈالے۔ وہ میری توجہ اپنی زبان (یونانی) کے ایک لفظ (Exnos) کی طرف دلاتے تھے جس کا مطلب ہے نہ صرف اجنبی بلکہ مہمان بھی۔
آثار قدیمہ کے ماہرین نے قبرص کی قدیم بستیوں (اب غیر آباد)کی کھدائی کی تو اُنہیں تین سے چار ہزار سال قبلِ مسیح (3000-4000 B.C.) کے Neolithic تہذیب کے کھنڈرات بھی ملے۔ دور حاضر میں قبرص کی بدنصیبی کا یہ عالم ہے کہ وہ مذہبی اور لسانی بنیادوں پر دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ قبرص برطانوی راج سے آزاد ہوا تو وہاں Enosis نام کی ایک تحریک چل پڑی جس کا مقصد قبرص کو قانونی اور آئینی اعتبار سے یونان کا حصہ بنانا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال ترک نسل کی مسلمان اقلیت کو ہرگز قابل قبول نہ تھی۔ 1974ء میں قبرص کی فوج نے (جو نیشنل گارڈ کہلاتی ہے) نے آئینی اور جمہوری حکومت (Archbishop Mcarios اس کے سربراہ تھے)کا تختہ اُلٹ دیا تو ترکی نے قبرص کے شمال مشرق میں اپنی فوجیں اُتار دیں اور جزیرہ کے ایک تہائی علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ وہ دن اور آج کا دن۔۔۔۔ 42 سال گزر گئے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک غار میں دو شیر اور ایک میان میں دو تلواریںسما نہیں سکتیں مگر ایک جزیرے میںدو خود مختار حکومتیں اور ریاستیں قائم و دائم ہیں۔ صلح کے مذاکرات بڑے شد و مد سے جاری ہیں مگر اُلجھے ہوئے مسئلہ کو سلجھانا (کشمیر کی طرح) آسان کام نہیں ہوتا۔ میری طرح کے، قبرص کے ہزاروں نہیں لاکھوں خیر خواہ ہوںگے جن کی نیک تمنائیں اہل قبرص کے ساتھ ہیں۔
قبرص کے دارالحکومت نکوسیا (Nicosia )کے وسط میں شہر کے قدیم حصہ کی پیدل سیر کرتے ہوئے ہم جب عین مرکزی حصہ میں پہنچے تو وہاں ایک عجیب منظر دیکھا۔ ریت کی بوریوں کا انبار اور خار دار تاروں کی بنی ہوئی سرحد۔ پتا چلا کہ یہی دونوں ریاستوں کے درمیان حد فاصل ہے۔ ہم اپنے پاسپورٹ دکھا کر شہر کے اُس حصہ میں داخل ہو ئے جس پر ترک جمہوریہ قبرص کا پرچم لہرا رہا تھا۔ Larnaca میں (جو ہمارا تین دنوں کے لئے مسکن تھا) میں ایئر پورٹ کے قریب نمکین پانی کی ایک بڑی جھیل دیکھی جو دو باتوں کے لئے قابل دید ہے۔ مرغابی نسل کے سرخ چونچوں اور سرخ پروں والے خوبصورت آبی پرندوں Flamingoe کی بڑی تعداد میں موجود گی اور جھیل کے کنارے ایک ایسی مسجد جس کو غیر معمولی طور پر مقدس تسلیم کیا جاتا ہے۔ خصوصیت یہ ہے کہ اس میں روحانی درجہ رکھنے والی ایک عرب خاتون ''اُمّ حرم‘‘ کا مزار ہے جو 649ء میں قبرص پر امیر معاویہ کے حملے کے بعد تشریف لائی تھیں۔ ظاہر ہے کہ فیصل اور میں ایسی مسجد کی زیارت اور وہاں اپنے کروڑوں اہل وطن کی خیر کے لئے دُعا مانگنے گئے جس کے بارے میں قبرص کے مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے بعد اس مسجدکا (تقدس کے اعتبار سے) چوتھا درجہ ہے۔ ترکی بحریہ کے جہاز جب بھی اس مسجد کے قریبی ساحل سے گزرتے ہیں تو وہ احتراماً اپنے بادبان آدھی بلندی پر کر دیتے ہیںاور توپوںکی سلامی دیتے ہیں۔ اس مسجد کا حسن انتظام باعث رشک تھا۔ افسوس کہ ہم اس میں اتنا وقت نہ گزار سکے جتنا کہ دل چاہتا تھا۔ خدا کرے کہ اس کی کشش ہمیں اگلے سال پھر وہاں لے جائے اور پھر ہر سال اس کی زیارت کی برکت سے فیض یاب کرتی رہے۔
قبرص اُن تاریخی عمارات سے بھرا پرا ہے جو اقوام متحدہ کے ادارے UNESCO) (نے انسانوںکی عالمی تہذیب کا سرمایہ قرار دے دی ہیں (لاہور میں مغلیہ دُور کے حماموں اور مسجد وزیر خان کی طرح۔) ان میں Larnaca میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک قریبی دوستSaint Lazarus کی یاد میں بنایا گیا کم از کم ہزار سال پرُانا گرجا گھر بھی شامل ہے۔ اس قدر خوبصورت عمارت کہ لگتا تھا انسانوں نہیں بلکہ فرشتوں نے تعمیر کی ہے۔ ایک جوان اور ایک بوڑھا برطانوی سیاح وہاں دیر تک بیٹھے رہے۔ ہم نے قرآنی آیات کی تلاوت کی۔ گرجا گھر کو مناسب چندہ دیا تو موم بتیاں روشن کرنے کا اخلاقی حق ملا۔ صدق دل سے ہم نے اپنے اہل خانہ اور اپنے اہل وطن کے لئے دعا مانگی۔ تین دنوں کے بعد برطانیہ واپسی ہوئی تو تیز برفانی ہوا ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ مگر وہ قبرص میں قیام کے دوران ہمارے دل میں پیدا ہونے والی حرارت کو کم نہ کر سکی۔ یہی وُہ روحانی حرارت ہے جس کی اقبال نے دعا مانگی تھی۔ اُن کی دعا قبول ہوئی جبکہ کالم نگار کے ہاتھ بدستور اُٹھے ہوئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved