خوشامد ویسے تو ہر جگہ دکھائی دے جاتی ہے تاہم آرٹ اور کلچر سے متعلق اداروں میں یہ بوجوہ عروج پر ہوتی ہے کیونکہ آرٹ اور کلچر کے ادارے جو کچھ بناتے ہیں اُس کے معیار بنتے وقت اندازہ کم ہی ہوتا ہے، لہٰذا اِن اداروں کی کاوش کو، اگر وہ بدترین بھی ہو تو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثال اس کی یوں ہے کہ کسی فلم کا مصنف کوئی منظر لکھ کر لاتا ہے، اب اگر وہ مصنف معروف ہے اور اس کی کئی فلمیں ہٹ ہو چکی ہیں تو اس منظر کی تعریف میں سٹوڈیو میں موجود چیلے چانٹے زمین آسمان ایک کر دیں گے، لیکن اگر اس منظر کا مصنف کوئی نیا ہے تو اس کی مدح سرائی کرنے سے ہر کوئی گریز کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس منظر کی صحیح وقعت کا اندازہ اس وقت ہو گا جب وہ فلم ریلیز ہو گی اور دیکھا جائے گا کہ فلم دیکھنے والوں کی رائے کیا تھی یا فلموں کے مبصرین نے اس منظر کو قابلِ توجہ سمجھا یا نہیں۔
اسی طرح فلمی ہدایت کاروں کے اردگرد بھی اسی طرح کے لوگ کافی تعداد میں جمع ہوتے ہیں، جو خوشامد کرنے پر ہر دم تیار رہتے ہیں اور ہدایت کار بے چارے کی تخلیقی صلاحیتوں کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔ اگر کسی ہدایت کار کی کوئی فلم ہٹ ہو جائے تو یہ خوشامدی اس کو آئندہ کوئی اچھی فلم بنانے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ وہ کتنا بھی غیر معیاری کام کرے یہ لوگ اس قدر داد کے ڈونگرے برساتے ہیں کہ وہ سمجھتا ہے اس سے واقعتاً کوئی اچھا کام سرزد ہو گیا ہے۔
میوزک ڈائریکٹروں کو بھی اِسی صورت حال کا سامنا رہتا ہے۔ گانے کے ہٹ ہونے سے پہلے تو کسی کو پتا نہیں ہوتا، اگر آپ مجموعی شماریات پر نظر ڈالیں تو کوئی ہزار گانوں میں ایک آدھ ایسا ہوتا ہے جو سپر ہٹ ہوتا ہے، مگر جب کبھی جہاں بھی کوئی گانا ریکارڈ ہو اس کے فوراً بعد آپ سازندوں کی گفتگو ریکارڈ کر کے دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہی گانا جو ریکارڈ ہوا ہے، سب ریکارڈ توڑ دے گا۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ جن میوزک ڈائریکٹروں نے پوری کی پوری فلم کے گانے سپر ہٹ دیے، اُن کو گانوں کی ریکارڈنگ کے وقت زیادہ داد نہیں ملی تھی کیونکہ یہ لوگ خوشامد پر توجہ نہیں دیتے تھے، لہٰذا خوشامدی لوگ خاموش رہتے یا مناسب بات کرنے ہی میں عافیت سمجھتے۔ یہ مثال میں نے فلمی صنعت کی دی ہے جہاں کوئی افسر اور ماتحت نہیں ہوتا۔
آرٹ اور کلچر کے جن اداروں میں افسر اور ماتحت ہوتے ہیں وہاں خوشامد کے ایسے ایسے انداز سامنے آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ میرا تعلق چونکہ ریڈیو سے براہِ راست رہا ہے اس لیے زیادہ مثالیں اسی ادارے کی پیش کروں گا۔ ویسے خوشامد کا کلچر ٹیلی وژن کے ادارے میں بھی اسی طرح پھلتا پھولتا رہا ہے۔ ریڈیو میں خوشامد کا کلچر شروع سے موجود تھا۔ اگر کوئی افسر ہو اور شاعر بھی ہو تو اس کو ریڈیو پر ہونے والے مشاعرے میں دیگر بڑے بڑے شاعروں کی نسبت داد اتنی زیادہ ملتی تھی کہ لوگ بعد ازاں اس داد کا مذاق بنا لیا کرتے تھے۔ زیڈ اے بخاری ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور شاعر بھی تھے۔ اُن کو جب اسی طرح مشاعرے میں بے حد داد ملی تو کسی دل جلے نے یہ فرضی قصہ بنا لیا کہ جس سٹوڈیو میں رات مشاعرہ ہوا صبح جب وہاں بچھی چادر کو عملے کے افراد نے کھینچا تو ایک چادر میں سے ایک صاحب ''سبحان اللہ بخاری صاحب‘‘ کہتے ہوئے برآمد ہوئے۔ گویا وہ صاحب رات کو مشاعرے میں چونکہ سبحان اللہ بخاری صاحب کہتے کہتے وہیں سو گئے تھے، لہٰذا جب چادر کھینچ کر جگایا گیا تو زبان پر''سبحان اللہ بخاری صاحب‘‘ ہی تھا۔ اگرچہ یہ فرضی قصہ تھا مگر اس کلچر کی نشاندہی کرتا ہے جو اس زمانے میں موجود تھا اور ہو سکتا ہے اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہو۔ ریڈیو میں خوشامدی ماتحت ہمیشہ افسر کے اردگرد ہی رہتے تھے اور افسر بھی اُن کو کوئی خاص کام کرنے کو نہیں دیتے تھے کیونکہ بطور مصاحب اُن کی ضرورت ہوتی تھی۔
یہ خوشامدی لوگ اس قدر چوکنا اور چوکس ہو کر افسر کے پاس بیٹھتے تھے کہ خدا کی پناہ! ایک روز اسی طرح ہمارے سٹیشن ڈائریکٹر کے کمرے میں اُن کے قریب ترین کرسی پر اُن کے خاص خوشامدی بیٹھے تھے۔ سٹیشن ڈائریکٹر کے منہ سے ٹیلی کا لفظ نکلا اور اُس خوشامدی نے فوراً ٹیلی فون کا ریسیور اُٹھا کر ڈائریکٹر صاحب کی طرف بڑھا دیا۔ سٹیشن ڈائریکٹر صاحب بدمزہ ہو کر بولے، میں تو ٹیلی وژن آن کرنے کا کہہ رہا تھا۔ اتنے میں ایک دوسرا خوشامدی جو ٹی وی سیٹ کے قریب بیٹھا تھا اس نے فوراً ٹی وی سیٹ آن کر دیا۔ اس پر بڑے خوشامدی نے چھوٹے خوشامدی کو ایسی زہر آلود آنکھوں سے دیکھا کہ اسے کھا جائے گا۔
''سبحان اللہ بخاری صاحب‘‘ والا واقعہ تو طنز کے طور پر بنایا گیا تھا مگر یہ ٹیلی والا بالکل آنکھوں دیکھا سچا واقعہ ہے۔ ہمارے ہاں آرٹ اور کلچر کے ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم بڑے ادارے ہیں۔ اِن تینوں اداروں کی کارکردگی اگر آپ دیکھیں تو یہ مسلسل تنزلی کا شکار ہیں۔ دیگر عوامل بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ تنزلی ہو رہی ہے مگر خوشامد کا کلچر بھی اس تنزلی کی ایک اہم وجہ ہے۔
ہمارے کئی دانشور اس کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں پورے معاشرے ہی میں میرٹ کو نظر انداز کرنے کی جو رسم چل پڑی تھی اس نے خوشامد کے پودے کو ایک تناور درخت بنا دیا ہے۔ کہتے ہیں جن معاشروں میں میرٹ کی بجائے ذاتی پسند یا نا پسند اور سفارش غالب آ جائیں وہاں خوشامد کے لئے بہت جگہ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں حکمران جس طرح میرٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہیں تو دکھائی نہیں دیتا کہ ہمارے ہاں سے خوشامد کا کلچر کم ہو جائے گا۔ یہ ختم تو کبھی نہیں ہو سکتا۔ خوشامد انسان کی کمزوری ہے مگر خوشامد اگر ایک حد میں رہے تو معاشرہ برداشت کر پاتا ہے وگرنہ اس سے محض تباہی ہوتی ہے۔
اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو اپنے اردگرد دیکھ لیں۔ ہمارے ہاں جو عام لوگ فوج کو پسند کرتے ہیں اس کی دیگر کئی وجوہ کے ساتھ ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس ادارے میں میرٹ کا خیال رکھا جاتا ہے، لہٰذا خوشامد اپنی حدود میں رہتی ہے اور فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ ہماری سیاسی جماعتیں جب تک میرٹ کی قدر نہیں کریں گی اور خوشامد کے کلچر کا شکار ہی رہیں گی، ان جماعتوں کی ہمارے عوام کبھی قدر نہیں کریں گے۔