تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     15-12-2016

قافلہ کہیں پھر نہ لٹ جائے

ارد گرد کی تبدیلیوں کو سرسری نہیں بلکہ انتہائی عمیق نظروں سے دیکھنے کی کوشش کریںتو آپ کو ہر قدم کے نیچے ایک نئی راہ گذر کا خوف لاحق ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ میرے جیسے کروڑوں پاکستانیوں کو ملک کے طاقتور حلقوں کی جانب سے لمحوں میں ایک سے ایک نئی تبدیلی کی سمجھ نہ آ رہی ہو اور وہ ان تبدیلیوں کو ایک معمول کی کارروائی سمجھ کر نظر انداز کر دیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے وہی انجام ہو گا جو اس قسم کے کبوتر کا ہوا کرتا ہے ۔اب عقل و شعور کی ہلکی سی رمق رکھنے والوں کو رتی بھر شک نہیں رہنا چاہئے کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ اپنے تھینک ٹینکس کے تیار کئے گئے 2020-25 ء کے منصوبے پر عمل کرنے کیلئے میدان اور گھوڑے تیار کر چکا ہے۔جنرل راحیل شریف جو اب ریٹائر ہو کر گھر بیٹھ چکے ہیں ان کے بارے میں سابق صدر آصف علی زرداری کا کہا ہوا فقرہ اپنے اندر کئی معنی رکھتا تھا کہ ''آپ نے تو تین سال کے بعد چلے جانا ہے ہم نے اور ہماری اولادوں نے ہمیشہ کیلئے رہنا ہے‘‘ اب زرداری بھی ہیں اور ان کی نسل سے تعلق رکھنے والے بلاول بھٹو زرداری بھی ہیں لیکن جنرل راحیل تاریخ کا حصہ بن کر گھر بیٹھ چکے ہیں۔ تاریخ انہیں کس نام سے یاد کرے گی اور ان کے بارے میں کس قسم کی رائے کا اظہار کیا جائے گا اس کے بارے میں آنے والا وقت بہت کچھ بتائے گا۔ بے رحم ہوتی ہے کیونکہ اس کے اوراق پر اطلاعاتی اداروں کے اثرات یا بات کا بتنگڑ اور کچھ کو کچھ بنا ڈالنے کی گنجائش بہت ہی کم ہوتی ہے۔ ڈان لیکس کی مثال پرویزرشید کی صورت میں ہمارے سمیت ان کے بھی سامنے ہے ۔
جس طرح امریکہ ، برطانیہ سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مغربی ممالک کی وساطت سے سی آئی اے اور ایم ّآئی سکس نے خود رو جھاڑیوں کی طرح پاکستان میںاین جی او اور عجیب عجیب ناموں سے پلڈاٹ جیسے جال بچھا رکھے ہیں اسی طرح تینوں مسلح افواج سے ریٹائر ہونے والے جوانوں اور افسران کو پاکستان کے دفاع اور نظریئے کی حفاظت کیلئے خم ٹھونک کر بغیر کسی ڈر اور خوف کے میدان عمل میں اسی طرح اترنا ہو گا جیسے انسانی حقوق کے نا پر عاصمہ جہانگیر اپنی این جی او کے ذریعے اور سیفما جیسے ادارے پاکستان اور بھارت کے درمیان لکیر مٹانے کیلئے کسی قسم کی جھجک یا شرم کے بغیر نظریہ پاکستان کو روندتے پھرتے ہیں۔ 
آج پاکستان کا ایف سے ی تک ہر ادارہ حکمران خاندان کے تابع ہو چکاہے برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن جس مقصد کیلئے پاکستان آیا تھا وہ مکمل ہو چکا ہے۔ افواج پاکستان سے کسی بھی رینک سے ریٹائر ہونے والوں کو پنشن‘ دوسری سہولیات اور مراعات قوم کے اس پیسے سے ادا کی جا رہی ہیں‘ جو ٹیکس کی صورت میں وہ ہر روز ادا کر تی ہے اور یہ قوم آج اپنی بقا کی جنگ ان کے ساتھ مل کر لڑنا چاہتی ہے۔تمام ریٹائر فوجی افسران اساتذہ اور وکلاء سمیت جوان اور نو جوان نسل کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے تعلیمی اداروںکے تمام نوجوانوں کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی اور انہیں ایک لمحے کیلئے بھی نہیں بھولنا ہو گا کہ انہیں حاصل آج اور کل کے تمام عہدے اورمراعات صرف اور صرف پاکستان کے دم سے ہیں پاکستان کے وجود سے ہیں‘ پاکستان کی وحدت اور یک جہتی سے ہیں‘ جس کے خلاف افغانستان، بھارت ، برطانیہ اور امریکہ ایک ہو چکے ہیں۔ قبل اس کے کہ سانپ بل سے نکل کر آپ کے گھر کے اندرداخل ہو جائے اسے کچلنے کی کوشش کریں اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے پہلے ایک لمحے کیلئے برما، شام، عراق، لیبیا، یمن اور فلسطین کے در بدر دھکے کھانے والے مسلمانوں کی حالت زار کی جانب ضرور نظر ڈال لیں کیونکہ ''اِب کے مار والا‘‘ وقت اب گزر چکا بہت مار کھا لی‘ بہت سر جھکا لیا اب ایک ساتھ ہو کر اٹھنا ہو گا۔ قوم کے ہر فرد کو جان لینا چاہئے کہ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں۔۔۔موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ اگر ایسا نہ کیا تو'' تھر ڈ پلان‘‘ ہمارا سب کچھ بہا لے جائے گا جن کا پاکستان کے علا وہ اور کچھ بھی نہیں کہیں بھی نہیں‘ جن کے دنیا بھر میں محلات نہیں، فارم ہائوسز نہیں ، آسمان چھوتے پلازے نہیں‘ بڑے بڑے شاپنگ مال اور آئس لینڈ کے ہیگ کاگ جیسے سپر مارکیٹ جیسے Chain نہیں، جن کی اٹلی اور نیوزی لینڈ میں سٹیل ملیں نہیں‘ جس کا اوڑھنا بچھوڑنا صرف اور صرف پاکستان ہی ہے۔ پاکستان ہی میں ہے چاہے وہ ڈھائی سے پانچ مرلے یا دس مرلے سے ایک کنال کے گھر کی شکل میںہے یا دو سے پانچ کنال کے بنگلے کی شکل میں۔ چاہے وہ کسی دکان کی صورت میں ہے یا کسی شاپنگ پلازہ کی صورت میں چاہے یہ پاکستانی پانچ ایکڑ کا مالک ہے یا پانچ سو ایکڑ کا۔
مجھے اپنے سامنے چلتے پھرتے انجان سے سایوں کو دیکھتے ہوئے نہ جانے کیوں خوف سا محسوس ہو نے لگا ہے نہ جانے میری چھٹی حس مجھے کیوں بار بار جھنجوڑ تے ہوئے کبھی مجھے 1947ء کی کٹی پھٹی لاشیں بکھری ہوئی دکھا رہی ہے تو کہیں 1965ء سے کارگل تک میدان جنگ بکھرا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کہیں چونڈہ سیکٹر کے ٹینکوں کے طوفان کے سامنے گوشت پوست کے جسموں پر لپٹا ہوا گولہ بارود امڈتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کہیں2004ء سے اب تک القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کا مقابلہ کرتے ہوئے 
ہزاروں فوجیوںاور شہریوں کے لامتناہی جنازے نظر آ رہے ہیں کہیں ہندوستان کے مسلم دشمنوں کے ہاتھوں لٹی پٹی عصمتیں ماتم کناں ہیں تو کہیں برچھیوں پر ٹنگی ہوئی چند ماہ کی روحیں وحشت اور بر بریت کی داستانیں رقم کناں ہیں تو پھر وہ کون لوگ ہیں وہ ایسے سائے کون سے ہیں جو مجھے کہے جا رہے ہیں کہ دیکھو ہم میں اور ان میں کوئی فرق مت سمجھو کیونکہ وہ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں ان کا بھی وہی رب ہے جو ہمارا رب ہے؟۔میں ان کی بات پر کیسے یقین کر لوں کہ وہ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں کیونکہ بھارت کے اندر دیکھنے کی سکت رکھنے والی ہر آنکھ دیکھ رہی ہے کہ گائے کا گوشت کھانے کا صرف شک ہونے پر مسلمان لڑکوں اور عورتوں کو کوڑوں سے پیٹا جا رہا ہے۔ ان کی کھالیں اتاری جا رہی ہیں انہیں گلی میں بندھی ہوئی گائے کا پیشاب ا ور گوبر سب کے سامنے پلایا اور کھلایا جا رہا ہے۔اور میں ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے کیسے یقین کر لوں کیسے تسلیم کر لوں کیسے ایمان لے آئوں کہ میرا اور نرنیدر مودی کا ایک ہی رب ہے اگر میں ایسا کرتا ہوں تو بہت دور کی بات ہے۔ سوچتا بھی ہوں تو میرا ایمان مکمل نہیں ہو تا میرے مسلمان ہونے کا سوال ہی نہیں رہتا۔The day this faith dies then there will no longer remain any difference between us and Hindu.۔۔۔۔لوگو جاگتے رہنا قافلہ کہیں ایک بار پھر نہ لٹ جائے !! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved