تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     16-12-2016

پاک و ہند میں کالی دولت

وزیراعظم جناب نوازشریف نے پاناما لیکس پر قومی اسمبلی میں دو وضاحتی تقریریں کی تھیں ‘ جن میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے ان الزامات کا جواب دیا گیا ۔وزیراعظم نے اپنے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیل بتاتے ہوئے‘ اپنے آپ کو ان تمام الزامات سے بر ی الذمہ قرار دیا اور بتایا کہ بیرون ملک جو سرمایہ ان سے منسوب کیا جا رہا ہے‘ درحقیقت وہ ان کے دو بیٹوں کا ہے۔انہوں نے اس الزام کا بھی جواب دیا کہ ان کے خاندان کی بیرون ملک رکھی ہوئی وہ دولت جس کے الزامات لگائے جا رہے ہیں‘ وہ درحقیقت کس طرح بیرون ملک گئی تھی؟ یہ ان کی وہ سٹیل مل تھی جو بھٹو صاحب کے دور حکومت میںقومیائی گئی تھی ۔ اس سٹیل مل کو فروخت کر کے جو سرمایہ کاری کی گئی‘ اس سے کمایا گیا سرمایہ ‘سعودی عرب میں سٹیل مل لگا نے پر صرف کیا گیا۔ اس کے بعد یہ مل کئی سالوں کے بعد فروخت کر کے‘ وصول شدہ رقم برطانیہ بھیج دی گئی‘ جہاں سے بچوں نے جائیدادیں خریدیں۔ وزیراعظم نے تربت میں تقریر کرتے ہوئے فخر سے اعلان کیا کہ ان کی ذات پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اپوزیشن ان سے محض ایک ہی سوال کر رہی ہے کہ حکمران خاندان اس بات کا جواب دے کہ یہ سرمایہ‘ برطانیہ کس طرح گیا؟ سوال کا ابھی تک جواب سامنے نہیں آیا۔وزیراعظم کی جن دو تقریروں کا حوالہ دیا جا رہا ہے‘ ان کے وکیل نے یہ بات کہہ کر اپنی طرف سے جھگڑا ختم کر دیا کہ وزیراعظم کی دونوں تقریروں میں سیاسی باتیں کی گئی تھیں۔ اس طرح گویا وکیل موصوف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سیاسی باتیں‘ غیر سنجیدہ ہوتی ہیں‘انہیں سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔ تو پھر کیاوزیراعظم کی تقریریں جھوٹ پر مبنی تھیں؟وزیراعظم کے وکیل کا تو یہی مقصد تھا ۔ 
کچھ اسی طرح کی صورت حال بھارت میں بھی دیکھی جا رہی ہے۔ ہمارے حکمران خاندان کے دوست‘ وزیراعظم نریندر مودی پر بھی اسی طرح کے الزامات ہیں۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ''بھارت کا پیسہ چوری کر کے‘سوئس بنکوں میں جمع کیا گیا ہے۔اگر انہیں اقتدار ملا تووہ اقتدار میں آنے کے100 دن بعد‘ یہ پیسہ واپس لا کر‘ ہر شہری کے بنک اکائونٹ میں 15 لاکھ روپے جمع کرا دیں گے اور اگر سو دن کے اندر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو انہیں بیچ چوراہے پھانسی دے دی جائے‘‘۔مگر جب نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ وہ سوئس بنکوں میں رکھا کالا دھن واپس نہیں لا سکتے تو ان کے لیڈر‘ امیت شاہ نے کہا '' وہ تو ایک جملہ تھا‘‘۔مگر جب انہوں نے دیکھا کہ جملہ ہی ان کے لئے ایک محاورے کا مترادف بن چکا ہے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ کروڑ پتیوں کا سوئس بنکوں میں رکھا پیسہ نکالنے کے لئے عوام کے لائو لشکر کو سڑکوں پر اتا ر دیا جائے ۔انہوں نے اس مہم کے پہلے ہی دن اعلان کر دیا کہ حالات ‘ دو تین دنو ں کے اندر ہی پوری طرح پٹری پر آجائیں گے مگر جب حالات بے قابو ہوتے دکھائی دئیے تو انہوں نے آنسو بہاتے ہوئے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ میری جان کو خطرہ ہے۔ مودی نے غریب عوام اور عام ہندوستانیوں کوجنہیں سڑکوں پر اتارا‘ ان سے پچاس دن کے لئے صبر کرنے اور پھراپنی مدد آپ کرنے کی اپیل کی۔اب جبکہ پچاس دن پورے ہونے میں چند روز باقی رہ گئے ہیں تو اپنی مہم کی ناکامی کو چھپانے کے لئے انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہے مگر جب دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ ناکام ہوتی دکھائی دی تو ملک دشمنوں سے دو ہزار روپے کے نوٹ نکلوائے اور یہ کہہ کر کہ کالے دھن کے خلاف یہی ایک جنگ ہے لیکن جب قطاروںمیں بھی کوئی خاص آدمی نظر نہیں آیا تو عام لوگوں کی قطاروں میں اموات کا سلسلہ بڑھنے لگے اور غریب‘ کسان اور مزدور کی کمر ٹوٹنے لگی تو مودی صاحب نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ سارا معاملہ جلد حل ہو جائے گا اور پوری ایکسر سائز کے دوران ‘ مودی جی نے کبھی نہیں بتایا کہ سوئس بنکوں سے پیسہ کب آئے گا؟ اور کیش لیس ہونے سے کس طرح پونجی پتیوں کو ٹریلین ڈالر کیش کا فائدہ ہو گا؟تقریباً چارپانچ لاکھ کروڑ کے نوٹوںمیں سے اب تک بارہ سو چوالیس لاکھ کروڑ مالیت کے نوٹ بنکوں میں جمع ہو چکے ہیں۔ اگلے13 دنوں میں امید ہے کہ باقی بچے ہوئے نوٹ بھی جمع ہو جائیں گے اور جو نوٹ اب تک جمع ہو چکے ہیں‘ ان کی اہم وجہ یہ ہے کہ ابھی تک بڑے پیمانے پر بڑے کاروباری پانچ سو ہزار کے نوٹ استعمال کر رہے ہیں اور بند ہونے کا باوجود‘ اطلاعات کے مطابق ان کی یہ پریکٹس جاری ہے اور 30دسمبر کو جیسے ہی جب یہ نوٹ بند ہو جائیں گے ‘اس کے بعد ہی مودی حکومت کا اصل امتحان شروع ہو گا۔ اور پھر جو کچھ ہو گا اس کا اندازہ نہ ہمیں ہے اور نہ عوام کو۔ تاہم اس کے اثرات ابھی سے سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ ''انڈین ایکسپریس‘‘ کے مطابق عوام میں ابھی سے مایوسی پھیلنے لگی ہے۔ ملک کی معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔اس طرح سابق وزیراعظم‘من موہن سنگھ کی پیش گوئی درست ثابت ہو رہی ہے۔ ایک اور اخباری رپورٹ کے مطابق‘ مودی حکومت اپنے ہی 30 ہزار کروڑ روپے گنوا چکی ہے۔ ابھی تک ملک کوجن حالات کا سامنا ہے‘ انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ آنے والے دن بھی اچھے نہیں۔ ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیںاسی روپے لیٹر تک جانے والی ہیں۔اور اوپیک ممالک تیل کی پیداوار کم کر کے قیمتوں میں اضافہ کرنے والے ہیں۔
مودی حکومت اپنے دعوئوں میں بری طرح پٹ رہی ہے۔ کیونکہ وہ اس بات کو سمجھ گئی ہے کہ اس ملک میں مکمل اپوزیشن نہیں ہے اوراس کا سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک‘ مودی برملا اظہار کر چکے ہیں۔'' یہاں کسی کو کوئی کو راستہ نہیں دیتا۔مجھے گرا کے سنبھل سکوتو چلو‘‘۔اسی لئے وہ عوامی مسائل پر بات نہ کر کے عوام کے درمیان نئے نئے موضوعات پھینک رہے ہیں۔ پہلے سرجیکل سٹرائیک کی بات کی اور پندر ہ دن گزرے تو نوٹ بدلی کا شوشہ چھوڑ دیا۔نجیب کی بات آئی۔ پھر کنہیا اور پھر روہت دمولا کی بات آئی اور ان ایشوز کو دفنا دیا گیا جن کا تعلق ملک کے ڈھانچے سے ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا''تیرے خط آج لطیفے کی طرح لگتے ہیں۔ خوب ہنستا ہوں جہاں لفظ وفا کا آتا ہے‘‘۔ جب بی جے پی والے عوام سے وفا کی بات کرتے ہیں تو خوب ہنسی آتی ہے کیونکہ جب ترنگے کی توہین ہو رہی تھی تو ملک کے آئین کومنو سمرتی سے بدلنے کی وکالت ہو رہی تھی۔ اس وقت آخر یہ لوگ کہاں تھے؟ بہر حال ملک کو آنے والے دنوں میں کیسے کیسے نتائج بھگتنا پڑیں گے؟ اس کا اندازہ آپ ہی کو نہیں تو پھر عام آدمی کس کیفیت میں ہو گا؟ کیونکہ ان پر حالات نے واضح کر دیا ہے کہ ای ویلیٹ محفوظ نہیں ہے۔ اور ان معاملوں کو نمٹانے کے لئے بنائی گئی عدالت میں چار برس سے کوئی جج نہیں ہے اور مودی پر اٹھارہ لاکھ کروڑ کی بد عنوانی کا الزام لگ رہا ہے۔ اب تو ہیکروں نے بھی ہڑبونگ مچانے کی دھمکی دے دی ہے۔ مودی ‘اپنے محدوو علم و ذہانت کے ساتھ قومی خزانے پر جو تجربہ کر رہے ہیں‘ وہ بری طرح سے ناکام ہوتا دکھائی د یتا ہے۔بیرون ملک میں محفوظ کی گئی ناجائز دولت پر پاکستانی حکمرانوں کے سر بھی چکرا رہے ہیں اور بھارتی لیڈروں کے بھی۔نا تو کسی کی سمجھ میں یہ آرہا ہے کہ خفیہ دولت کیسے نکلوائی جائے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved