تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     16-12-2016

مالیاتی پالیسی کا ناقدانہ جائزہ

بنک دولت پاکستان نے اپنے معیشت کے تیسرے سہ ماہی جائزہ برائے 2015-16ء میں واضح طور پر مالیاتی خسارے پر قابو پانے اور قرضوں میں کمی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ حکومت نے محصولات میں اضافے کے ذریعے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی جو کوششیں کی ہیں ان کی تعریف کرتے ہوئے جائزے میں اس امر کی طرف زور دیا گیا ہے کہ اخراجات کا بہتر انتظام و انصرام اور استعمال ہونا چاہئے۔اس کے ساتھ ساتھ وسائل میں اضافے کی طرف توجہ اس اندازمیں دی جائے کہ معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہونہ کہ غیر مناسب محصولات سے معیشت کو بحرانی کیفیت کا شکار رکھا جائے۔جائزے میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔اس کا ذکر تو کم و بیش ہر روز کیا جاتاہے۔سرکاری و غیر سرکاری حلقے اس بات کو تسلیم کرتے ہیںکہ معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ کے بغیر مالیاتی محاذ پر کوئی قابلِ ذکر بہتری نہیں آسکتی ۔معاشی ترقی کا دارومدار سرمایہ کاری پر ہے جس 
کا فقدان ہے۔ جب موجود صنعتیں ہی بند ہو رہی ہیں تو نئی سرمایہ کاری کہاں سے ہو گی۔صنعتکار اور کاروباری حضرات نہ صرف نظام محصولات کا شکوہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں بلکہ وہ ہر شعبے میں حکومتی بے حسی سے نالاں ہیں۔نہ توانائی کا مسئلہ حل ہوا اور نہ ہی بنیادی اصلاحات کا وعدہ پورا کیا گیا۔جون 2013ء سے لے کر اب تک ٹیکس ایمنسٹی کی چار سکیمیںناکامی کا منہ دیکھ چکی ہیں۔
صدر محترم اور اسحاق ڈار کے بقول تو ہم ترقی کی آخری منزلیں چھو رہے ہیں مگر عوام الناس ،ماہرین اور کاروباری طبقہ ہر گز خوش نہیں ہیں۔سیاسی جماعتیں تو معیشت پر بات کرنے کی بجائے پاناما اور کئی دوسرے معاملات میں مصروف ہیں۔اگر معاشی ترقی کے متفقہ لائحہ عمل پر توجہ نہ دی گئی توآنے والے دنوں میں پاکستان سیاسی لحاظ سے اور بھی کمزور ہو جائے گا۔معاشی طور پر پسماندہ ممالک عالمی سیاست میں کمزور فریق ہی رہتے ہیں ۔پاکستان امریکی امداد اور دوسری بیرونی امداد سے زیر بار رہنے تک ایک کمزور ریاست ہی رہے گا ۔اس کا ایک اور بڑا نقصان اندرونی سیاست میں بھی ہے ۔لوگ بے روزگار اور تنگ دست ہوں تو وہ سیاسی عمل سے بے زار رہتے ہیں اور بدعنوانی (پاناما یا ایسے دوسرے معامالات )کو اپنا بڑا مسئلہ نہیں گردانتے۔وہ سڑکوں پر نکل کر بدعنوانی کے خاتمے کے خلاف برسر پیکار ہو نے کی بجائے اپنی روزی روٹی کے چکر میں ہی رہتے ہیں۔
بنک دولت پاکستان کے حالیہ جائزہ میں بھی اعدادوشمار کے علاوہ کچھ نہیں۔ایف بی آر نہ تو ریفنڈ دے رہا ہے اور نہ ہی مناسب طور پر محصولات وصول کر رہا ہے۔دس لاکھ لوگوں نے گوشوارے جمع کرائے تو ایف بی آر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھاجب کہ 195ملین کی آبادی میں جہاں ساٹھ ملین کی افرادی قوت ہو تو کم از کم دو کروڑ گوشوارے آنے چاہئیں۔ پچھلے سال تین ٹریلین سے ذرا زائد کا ٹیکس اکٹھا کرنے پر چار سو ارب کے ریفنڈز نہیں دیے گئے تھے اور تاحال واجب الادا ہیں، وزیر خزانہ موصوف اور ان کی ٹیم نے ایسے شادیانے بجائے جیسے کوہ ہمالیہ فتح کر لیا ہو۔پاکستان کا ٹیکس ہدف دس ٹریلین 
سے کم نہیں ۔اس کا ذکر ان کالموں میں بارہا کیا گیا ہے اور اس کے حصول کے لیے پورا روڈمیپ بھی فراہم کیا گیا ۔مگر وزارت خزانہ اورایف بی آر کے نام نہاد ماہرین پر کوئی اثر نہیںہوتا۔ وہ نظام کو پیچیدہ رکھنا چاہتے ہیں۔پیچیدگی اور غیر یقینی بد عنوانی کا بھی بڑا ذریعہ ہے ۔ایک سادہ ،غیر پیچیدہ، متوازن اور کم شرح کا ٹیکس نظام وسائل میں بے پناہ اضافہ کر سکتا ہے اور مالیاتی خسارے کو مالیاتی سر پلس میں بدل سکتا ہے۔ اندرونی اور بیرونی قرضوں سے نجات دلوانے کے علاوہ معیشت میں ترقی اور شرح نمو میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ایسا ٹیکس نظام ناجائز دھن کو ختم کر سکتا ہے اور عوام کی خوشحالی کا ضامن ہو سکتا ہے ۔تاجر طبقہ اور صنعت کار اس کا لئے راضی ہیں مگر بیرونی طاقتوں اور اداروں کی خواہشات پر چلنے والے اور ان کے احکامات کے آگے سر جھکانے والے حکمران تیار ہیں ۔یہی ہمارا المیہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved