تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     16-12-2016

سُرخیاں ‘ متن اور ریکارڈ کی درستی

اقتدار کا واحد راستہ عوام کی خدمت ہے۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اقتدار کا واحد راستہ عوام کی خدمت ہے‘‘ ' اور ‘ عوام کی خدمت کا مطلب آپ خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں‘ وضاحت کی ضرورت نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ''کیچڑ اُچھالنے والے صرف تفریح فراہم کر سکتے ہیں‘‘ اس میں کچھ قصور کیچڑ کا بھی ہے جسے یہ لوگ ہر وقت اچھالتے رہتے ہیں‘ اس کا بھی کوئی بندوبست ہونا چاہیے‘ اور جہاں تک تفریح فراہم کرنے کا تعلق ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے اور خاکسار بھی پارلیمنٹ میں کچھ اور سپریم کورٹ میں کچھ بیان دے کر عوام کو تفریح فراہم کرنے کی ہی کوشش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وژن سے محروم لوگ سڑکوں کی تعمیر میں پوشیدہ امکانات کو نہیں دیکھ سکتے‘‘حالانکہ انہی امکانات سے تو عوامی خدمت کا ہُن برستا ہے اور نا اہل لوگ اسے سمجھتے ہی نہیں ہیں جبکہ جتنا بڑا پراجیکٹ ہو‘ اس میں عوامی خدمت کے امکانات اُتنے ہی بڑے ہوتے ہیں‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز ہو شاب شاہراہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ہر سطح پر منصوبوں میں شفافیت کے کلچر کو فروغ دیا۔شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ہر سطح پر منصوبوں میں شفافیت کو فروغ دیا‘‘کیونکہ اگر اتنی شفافیت نہ ہوتی تو اس قدر میگا سکینڈلز کیسے سامنے آ سکتے تھے اور وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ میٹرو بس اور اورنج لائن جیسے تمام بڑے منصوبوں میں شفافیت کی انتہا کر دی گئی ہے جو کہ ضرورت سے بہت زیادہ ہے اور اسے کم سے کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام کو ایک ہی چھت تلے سہولتیں میسر آئیں گی‘‘ البتہ جو لوگ چھت کے بغیر ہیں انہیں جلد از جلد چھت کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ سہولتیں ان تک پہنچ سکیں۔ کیونکہ ہمارا کام لوگوں کی چھتیں ڈالنا نہیں نہ ہی ہم کوئی راج مستری واقع ہوئے ہیں کہ ہم تو ایک ہی کام جانتے ہیں جو شروع سے لے کر اب تک پوری تندہی سے کرتے چلے آ رہے ہیں اور ماشاء اللہ جس کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ڈیفڈ کے سربراہ سے ملاقات کر رہے تھے۔
وزیر اعظم کے ایوان میں جھوٹ
بولنے پر افسوس ہوا۔خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''وزیر اعظم کے ایوان میں جُھوٹ بولنے پر افسوس ہوا‘‘۔کیونکہ موجودہ حالات میں صرف اظہارِ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ مذمت تو کی نہیں جا سکتی کہ آخر کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''میری تقریر کے بعد عمران خاں کو موقع دینا چاہیے تھا‘‘ اور اس کا مطلب حکومت کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عمران خاں کے ساتھ تعاون بھی ہو سکتا ہے جبکہ ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی کے کیس ابھی تک درمیان ہی میں لٹک رہے ہیںاور حکومت اپنے وعدے منحرف ہوتی نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''قومیں بھول سے نہیں‘جُھوٹ سے تباہ ہوتی ہیں‘‘ حالانکہ ہم دونوں پارٹیاں مل کر یہ کام پہلے ہی نہایت خشوع و خضوع سے سرانجام دے رہی ہیں اور جُھوٹ بولنے کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہے اور اگرچہ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اُمید کی جا سکتی ہے کہ وزیر اعظم آئندہ جھوٹ بولنے سے پرہیز کریں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی سے خطاب کر رہے تھے۔
ہماری بھارت میں کوئی بے عزتی نہیں ہوئی‘
ہمیں پورا پروٹوکول دیا گیا۔سرتاج عزیز
مُشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا کہ ''ہماری بھارت میں کوئی بے عزتی نہیں ہوئی اور ہمیں پورا پروٹوکول دیا گیا‘‘ جبکہ بے عزتی صرف محسوس کرنے نہ کرنے کی چیز ہے۔ اگر آپ محسوس کریں کہ نہیں ہوئی تو وہ نہیں ہو گی‘ لوگ بے شک محسوس کرتے رہیں کیونکہ ہم بے عزتیاں محسوس کرنے کے لیے اقتدار میں نہیں آئے۔ اور جہاں تک پروٹوکول کا تعلق ہے تو ہمیں ہوٹل کے کمرے سے اس لیے باہر نہیں نکلنے دیا گیا تاکہ ہماری سکیورٹی متاثر نہ ہو اور ہمیں امرتسر بھی اس لیے نہیں جانے دیا گیا کہ کہیں سکھ ہم پر حملہ نہ کر دیں جو حکومت پر بھی بُھوترے ہوئے ہیں‘ ہمیں کیا سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر کوئی پابندی نہیں تھی''ماسوائے ہوٹل سے باہر نکلنے کے‘ اگرچہ صحافیوں کو کانفرنس میں نہیں آنے دیا گیا تھا جس کی وجہ بھی سکیورٹی پرابلم تھی کیونکہ بھارت میں حکومت کے پیش نظر سب سے بڑا مسئلہ ہماری سکیورٹی تھی جس کی مودی صاحب نے خاص تاکید کر رکھی تھی۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
بلاول کیا تاریخ دیں گے‘ انہیں تو اپنی تاریخ 
کا ہی پتا نہیں۔ مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''بلاول کیا تاریخ دیں گے اُنہیں تو اپنی تاریخ کا ہی پتا نہیں‘‘ جبکہ ہماری اپنی تاریخ تو ہر حکومت کے ساتھ تعاون ہے‘ وہ فوجی ہو یا سویلین کیونکہ حکومت ہی آپ کی ضروریات کا خیال رکھ سکتی ہے اور اگر ضروریات پوری نہ ہوں تو سیاست کرنے کا فائدہ ہی کیا ہے جو کہ صرف گناہ بے لذّت ہی کے برابر ہے جبکہ آدمی گناہ بھی کرے اور لذت بھی نہ اُٹھائے‘ اس سے بڑا کفرانِ نعمت اور کیا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خاں پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے‘‘ جبکہ وہی وقت حصول رزق کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کہ آخر خدا نے پیٹ کس لیے انسان کے ساتھ لگا رکھا ہے اور اصول بھی یہی ہے کہ پہلے پیٹ پوجا اور پھر کام دوجا۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف مشکل سے نکل چکے ہیں‘‘ اور نئی مشکل میں پھنسنے والے ہیں کیونکہ ہونی ہو کر ہی رہتی ہے۔ آپ اگلے روز سکھر میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
پاناما کیس میں سُرخرو ہونا وزیر اعظم 
کی خواہش ہے۔ مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''پاناما کیس میں سُرخرو ہونا وزیر اعظم کی خواہش ہے‘‘ اگرچہ بقول شخصے ‘ خواہشیں گھوڑے نہیں ہوتیں کہ ان پر جب جی چاہے سواری کر لی جائے‘ مزید برآں بری ہو جانا تو ہر ملزم کی خواہش ہوتی ہے ماسوائے اس کے کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو تاہم دلیر وہی ہوتا ہے جو ان حالات میں بھی سُرخرو ہونے کی خواہش رکھتا ہو‘ لیکن ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اور چونکہ وزیر اعظم غور و خوض کرنے کے سخت عادی ہیں اس لیے ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ خواہش کافی سوچ سمجھ کر ہی کی ہو گی جبکہ ہمارے ہاں خواہش کرنے پر کوئی پابندی بھی نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
ریکارڈ کی درستی
مُحبی ڈاکٹر تحسین فراقی نے بتایا ہے کہ آپ نے اپنے کالم''ہمارے پرندے‘‘ میں کھد بد کو ہُد ہُد کا ہم قافیہ قرار دیا تھا جو کہ درست نہیں ہے کہ یہ لفظ کُھد بُد کی بجائے کَھد بَد ہے جس سے کَھد بدی اور کَھد بداہٹ وغیرہ نکلے ہیں۔ اگرچہ ہم شاعری سمیت لفظوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہی رہتے ہیں تاہم‘ غلط‘ غلط اور صحیح‘ صحیح ہی ہوتا ہے اس لیے ہم ان کے شکر گزار بھی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں جائے اُستاد ہمیشہ خالی رہتی ہے‘ بہرحال ؎
جہاں جہاں مرے عیبوں کی آندھیاں ہیں‘ ظفرؔ
وہیں میں لے کے چراغِ ہُنر بھی آتا ہوں
آج کا مطلع
دیکھتے دیکھتے ویراں ہوئے منظر کتنے
اُڑ گئے بامِ تمنا سے کبوتر کتنے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved