اس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ تو بار بار میری نظر ٹی وی سکرین کی طرف جاتی ہے‘ جس پر پاکستان اور آسٹریلیا کا ٹیسٹ میچ دکھایا جا رہا ہے۔ سامنے آسٹریلیا کا سکور لکھا ہوا ہے ''آسٹریلیا-420‘‘۔ خیر یہ سکور تو کسی وقت بھی بدل سکتا ہے۔ لیکن برصغیر کے دونوں بڑے ملکوں‘ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم ایک ہی مشکل میں پھنسے ہیں۔ وہاں کانگرس کے نائب صدر راہول گاندھی کے مختصر سیاسی سفر میں یہ لمحہ بہت نازک ہے۔ گیند راہول کے پاس ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ وہ اون گول کرتے ہیں یا ہوشربا سپر گول؟ موجودہ صورتحال میں آپ راہول گاندھی کو نریندر مودی کا عمران خان سمجھ لیجئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس وزیراعظم نریندر مودی کی کرپشن کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ لیکن انہیں پارلیمنٹ میں بولنے نہیں دیا جا رہا۔ یہی بات وزیراعظم مودی کے بارے میں بھی کہی جا رہی ہے کہ کانگرس کافی عرصہ پہلے سے مودی کو لوک سبھا میں نہیں بولنے دے رہی۔ تنگ آ کر وہ خود عوامی جلسوں پر نکل کھڑے ہوئے ہیں اور براہ راست اپنی حکومت کی کارکردگی پر عوام کو اعتماد میں لے رہے ہیں۔ دونوں فریق ایک ہی حکمت عملی کے تحت ‘ پارلیمنٹ میںدوسرے کی زبان بندی کر کے‘ تقریر کا شوق باہر پورا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ مودی صاحب بھی عوامی جلسوں سے خطاب کر کے اپنا غصہ ٹھنڈا کر رہے ہیں ‘ جو ٹھنڈا ہونے میں نہیں آ رہا۔ یہی حال راہول گاندھی کا ہے۔ وہ یہ گلہ کرتے پائے جا رہے ہیں کہ سپیکر اور مودی کے ساتھی ‘انہیں پارلیمنٹ میں بات نہیں کرنے دے رہے۔ ادھر مودی صاحب کا بھی یہی رونا ہے کہ کانگرس کے چرب زبان سپیکر‘ انہیں ایوان میں بات نہیں کرنے دیتے۔ دونوں ہی اپنے اپنے جلسے کر کے‘ غصہ ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔ چند روز کے بعد یو پی اور پنجاب میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ دونوں کی نظریں یوپی پر ہیں‘ جس کی لوک سبھا میں نمائندگی‘ حریف پارٹی سے زیادہ ہو جائے‘ تو پارٹی پوزیشن بہتر ہو جاتی ہے۔ مودی صاحب کو زیادہ خطرہ نہیں۔ کیونکہ انہیں قابل ذکر اکثریت حاصل ہے۔ لیکن اگر یوپی سے زیادہ نشستیں کانگرس لے جاتی ہے(جس کا امکان بہت کم ہے) تو راہول ‘ بی جے پی کی حکومت کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
لطیفہ یہ ہے کہ نہ تو حکمران پارٹی کا سربراہ پارلیمنٹ میں بول پا رہا ہے اور نہ ہی اپوزیشن لیڈر لوک سبھا میں بات کر سکتا ہے۔ پاکستان میں عمران خان کی پارٹی کے تیزطرار مقرروں کا سامنا کرتا ہوئے‘ حکومتی پارٹی کے لیڈربوکھلائے بوکھلائے دکھائی دیتے ہیں۔ کل ہی جو معرکہ ہوا‘ اس میں ن لیگ کا چھکا مار بلے باز‘ خواجہ سعد رفیق بڑھ چڑھ کر اپوزیشن پر چڑھائی کر رہا تھا۔ لیکن ایک ہی دن میں اس پر تھکن حاوی آ گئی اور کل ہم نے دیکھا کہ وہ شیریں مزاری سے بھی ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگ رہے تھے اور اپوزیشن لیڈروں کو بھی خوش اخلاقی سے دعوتیں دے رہے تھے کہ آئو! مل جل کر کام کریں۔ مگر ساتھ ہی دبے لفظوں میں وہ یہ التجا بھی کر رہے تھے کہ ان کے لیڈر پر الزام تراشیاں بند کی جائیں۔ تحریک انصاف والے بھی اتنے بھولے نہیں کہ وہ ‘ وزیراعظم کی خلاصی کر دیں۔ کوئی یہ وعدہ کرنے کو تیار نہیں تھا کہ وزیراعظم پر تندوتیز حملوں میں کمی لائیں۔ نریندر مودی کو شکایت ہے کہ اپوزیشن انہیں بات نہیں کرنے دیتی۔ ادھر وزیراعظم نوازشریف نے بھی اپنی پوزیشن‘ کم و بیش مودی جیسی بنا رکھی ہے۔ انہوں نے ابہام کے دور میں دو لکھی ہوئی تقریریں خیروعافیت سے پڑھ دیں۔ لیکن ان تقریروں میں بیشتر نکات ایسے ہیں‘ جن کی بنیاد پر اپوزیشن تابڑتوڑ حملے کرنے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ ان تقریروں پر عمران خان کے وکیلوں نے بڑھ چڑھ کر دلائل دیئے۔ ان کا جواب دینا مشکل ہو رہا ہے‘ تو مودی کی طرح نوازشریف بھی عوام کی طرف رخ کر گئے ہیں اور اب عام جلسوں میں دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ کل ایک جلسے میں تو انہوں نے شیر جیسے حوصلے سے کام لیتے ہوئے اپوزیشن کو للکار دیا کہ ''ہمارا کوئی کرپشن سکینڈل نہیں۔ اگر کسی کو علم ہے‘ تو وہ میدان میں آئے۔‘‘ لیکن جس وقت وزیراعظم مخالفین کو چیلنج دے رہے تھے کہ ان کے خلاف کوئی کرپشن سکینڈل نہیں تو عین اسی دن سینٹ یعنی ایوان بالا میںتحریک استحقاق پاس کی جا رہی تھی ‘ جس کے حق میں اپوزیشن نے بھاری اکثریت میں ووٹ دے کر یہ بل پاس کرا لیا ۔ اس سے پہلے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف بھی تحریک استحقاق جمع
کرائی گئی تھی۔ لیکن اس وقت کی حکمران جماعت کی بھاری اکثریت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ کیا حزب اختلاف کے پاس‘ تحریک استحقاق لانا ہی واحد راستہ تھا؟ ایک سیاسی تجزیہ کار نے حالیہ تحریک استحقاق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا‘ اس طرح کی تحریکیں ‘ حکومتی جماعت کی بھاری پارلیمانی اکثریت کی وجہ سے‘ پہلے یا بعدمیں ووٹنگ کے دوران مسترد ہو جاتی ہیں۔ بھارت میں بھی موجودہ وزیراعظم اور سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن دونوں‘ حکمران جماعتوں کی اکثریت کی بنا پر ناکام ہو گئیں۔لیکن جمہوری نظام میں کئی دوسرے راستے دستیاب ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف نے تحریک التوا کا چانس لے کر دیکھا تھا۔ لیکن جب اسے پیش کرنے کی نوبت آئی‘ تو ایوان میں شورشرابہ شروع ہو گیا۔ بھاری اکثریت یہی کام کرتی ہے۔کمال یہ ہے کہ پاکستان میں حکمران جماعت‘ بھاری اکثریت کا خم ٹھونک کر فائدہ اٹھا رہی ہے۔ وہ جب چاہتی ہے اپنے بے ہنگم ہجوم کو میدان عمل میں اتار کے‘ اپوزیشن کو ہراساں کر سکتی ہے۔ اپوزیشن چاہے‘ تو بار بار کی ہزیمت سے تنگ آکر‘ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہے۔ وزیراعظم کو موجودہ حالات میں ایسے حملے سے کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن وہ ایسے حالات میںفیصلہ کن بھاری اکثریت کا پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ کیونکہ جو حکمت عملی وزیراعظم نوازشریف نے اختیار کر رکھی ہے‘ اس کے ماہر استاد وہ خود ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو جیبیں بھرنے کا معقول انتظام کر کے دے رکھا ہے۔ پاکستان کی ہر جماعت کے پرجوش حامی ہمیشہ ''دائو‘‘ لگانے کی پوزیشن میں رہتے ہیں۔ جیسے ہی انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران پارٹی‘ ان کے دبائو میں آ کر مطالبات مان جائے گی‘ وہ یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ بلکہ اکثرشطونگڑے تو وزیراعظم کے مشیروں اور قریبی ساتھیوں کے کان میں پھونکتے رہتے ہیں کہ اگر آپ لوگ وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کی بات کر دیں‘ تو کل ہی وزیراعظم کے ہرکارے آپ کے شہر‘ گائوں یا محلے کے چکر لگانا شروع کر دیں گے۔ بلاتاخیر حکومتی ہرکارے ایک سے ایک اچھی پیش کش لے کر آئیں گے۔ کسی نہ کسی مرحلے پر انسان کا ضمیر اونگھنا شروع کر دیتا ہے اور ہمارے عوامی نمائندے تو جلد ہی اونگھنا شروع کر دیتے ہیں۔اس اونگھنے کی حالت میں وہ اپنی درخواست نکال کر ‘وزیراعظم کو پہنچا دیتے ہیں اور بیشتر''نمائندے‘‘ درخواستوں کو شرف قبولیت ملتے ہی‘ اچانک محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے لیڈر کے ساتھ دھوکہ نہیں کر سکتے۔ ان کا ضمیر جاگ جاتا ہے۔ وفاداری کی وہ علت‘ جو بیرونی آقائوں نے برصغیر پر حکمرانی کے دوران اپنے وفاداروں کوڈال دی تھی۔ اشاروں پر ناچنے کی وہ عادت آج تک نہیں بھلائی جا سکی۔ جیسے ہی کوئی حکمران بین بجاتا ہے‘ سارے سانپ اور سنپولئے سر دھنتے ہوئے‘ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں کہ وفاداری کی نسلی خوبیاں ان کے اندر آج بھی موجود ہیں۔ اگر اس کی موجودہ مثال دیکھنا ہو‘ تو چند سال پہلے جنرل پرویزمشرف کے وفاداروں کو یاد کر کے‘ وزیراعظم کے موجودہ گرم جوش حامیوں کی تصویریں دیکھ لیں۔پرویزمشرف کے گرد کھڑے یا بیٹھے نظر آ جائیںگے ۔وفاداری میں پختہ کار وزیر شاہد خاقان عباسی نے‘ سیاسی مخالفین کو اعتماد میں لے کر سمجھایا کہ '' وزیراعظم کے خلاف تحریک استحقاق نہیں‘ تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔‘‘ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ''اس سے پہلے کبھی وزیراعظم نے اتنا بڑا جھوٹ نہیں بولا۔ اس لئے پہلے تحریک بھی پیش نہیں کی گئی۔‘‘
جس لیڈر کے ساتھ موجودہ اپوزیشن کو واسطہ پڑا ہے‘ اس نے مشکل ترین حالات میں بھی ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے دیوانہ وار عوام کا سامنا کیا۔ ایسے وقت میں جب پیپلزپارٹی مقبولیت کے عروج پر تھی‘ وہ گلیوں اور بازاروںمیں جلوس لے کر نکل کھڑے ہوتے۔ ابتدا میں انہیں پرجوش حامیوں کا ساتھ نہیں ملا۔ لیکن وہ بھی باز نہیں آئے اور پھر میدان میں ثابت قدم رہ کر ڈٹے رہے‘ تو وہ بھی ایک سیاسی قوت میں بدل گئے۔ وقت نے انہیں میدان عمل میں کھڑے رہنے کے طریقے سکھا دیئے۔ لیکن اب عمران خان خم ٹھونک کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں۔ جب نوازشریف‘ طاقتور سیاستدانوں کے مقابل میدان میں اترے‘ تو ان کے حامیوں کی تعداد اور طاقت زیادہ تھی۔ عمران خان بھی ہمت اور حوصلے میں کسی سے کم نہیں۔ وہ اسی طرح ثابت قدم رہ کر میدان میں کھڑے رہے‘ تو کچھ بعید نہیں کہ نوازشریف کی کہانی دوبارہ نہ دہرائی جاسکے۔