موسیٰ صادق نے لکھا: ''15 مارچ کو 11بجے روح القدس نے ڈی پی دھر کے پرائیویٹ سیکرٹری سے بات کی۔ سیکرٹری نے اسے بتایا کہ انہیں10 بجے رات ڈی پی دھر کی رہائش گاہ پر عشائیہ دیا جائے گا۔ عشائیہ کے موقع پر ڈی پی دھر اور مسٹر روح القدس ملحقہ کمرے میں چلے گئے۔ وہاں ایک میز کے اردگرد 22 افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈی پی دھر نے روح القدس سے درخواست کی کہ مشرقی پاکستان اور خاص طور پر ڈھاکہ کی سیاسی اور فوجی صورت حال کے بارے میں ان سب لوگوں کو بریفنگ دے۔ اجلاس کے اختتام پر ڈی پی دھر نے قدس سے درخواست کی کہ بھارتی وزیراعظم کے لئے دیا گیا بنگ بندھو کا پیغام پڑھ کر سنائے‘‘۔
''روح القدس نے 12بجے تک ان سب کو بریفنگ دی۔ یہ بریفنگ اڑھائی گھنٹے جاری رہی اوراس دوران مکمل خاموشی تھی، پھر اس نے بنگ بندھو کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ قدس کا ان مہمانوں سے تعارف نہیں کرایا گیا اور نہ ان مہمانوں کو اس کا نام بتایا گیا۔ تاہم قدس نے محسوس کیا کہ میز کے گرد بیٹھے ہوئے لوگ شاطر بیورو کریٹس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس فوجی افسر ہیں۔ بریفنگ کے اختتام پر روح القدس اور نورالدین احمد کو ڈیفنس کالونی کے گھرمیں لے جایا گیا جہاں انہوں نے رات گزاری۔ صبح 6 بجے فوج کا ایک میجر ڈیفنس کالونی کے گھر آپہنچا۔ اس نے قدس کو بتایا کہ فوجی وین میں ایک بہت اہم شخص (VIP) اس کا منتظر ہے۔ فوجی افسر نے قدس سے معافی مانگی کہ اس کے علی الصبح آنے سے اس کی نیند خراب ہوگئی۔ قدس اس وی آئی پی سے ملنے کے لئے فوجی وین کی طرف بھاگا۔ یہ وی آئی پی، پی این ہکسر تھا جو بھارتی وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری تھا۔ قدس کو ہکسر کے پاس چھوڑ کر وہ فوجی افسر وہاں سے رخصت ہو گیا۔ پی این ہکسر نے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا بنگ بندھو کے نام لکھا ہوا پیغام قدس کے حوالے کیا‘‘۔
''اس خفیہ پیغام میں لکھا تھا: ''ہماری خواہش ہے کہ ڈاکٹر آپ کی اور مشرقی پاکستان میں آپ کی عوامی لیگ فیملی کا مکمل خیال رکھیں‘‘۔ پیغام کی وصولی کے بعد قدس اور پی کے ہکسر وین سے باہر نکل آئے۔ ہکسر نے قدس کے ساتھ پیدل چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ دونوں ڈیفنس کالونی میں دس منٹ تک پیدل چلتے رہے۔ پھر ہکسر نے خاموشی توڑی اور کہا: ''براہ کرم اپنے محبوب لیڈرسے کہہ دیجیے گا کہ وہ جب بھی آزادی کا اعلان کرے گا، بھارت اس کے پیچھے کھڑا ہوگا۔ بھارت بنگلہ دیشی لوگوں کو ہرقسم کی پناہ دے گا۔ اس کی نوزائیدہ حکومت بنگلہ دیش اور بیرون ملک قائم کی جائے گی اور یہ حکومت جلا وطن حکومت ہوگی، بالکل اسی طرح جیسے جنگ عظیم دوم کے دوران فرانس نے لندن میں جلا وطن حکومت قائم کرلی تھی۔ ہتھیاروں کی فراہمی اور تربیت سمندری طوفان کی طرح موجود ہوںگے۔ اس دوران قومی اور بین الاقوامی تعاون بھی حاصل کیا جائے گا۔ آپ اپنے آپ کو کبھی تنہا محسوس نہیں کریں گے۔ بھارت ایک سیفٹی والو اور قابل بھروسہ دوست کی حیثیت سے آپ کے پیچھے کھڑا ہوگا۔ لیکن آپ کو ہر صورت اپنے تمام ارکان پارلیمنٹ کی وفاداری کویقینی بنانا ہوگا۔ آپ اس امر کو یقینی بنائیں کہ آپ کے لیڈر کے ساتھ تمام ارکان پارلیمنٹ اپنی مکمل وفاداری کا اظہار کریں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے لیڈرکے اعلان آزادی کو بھی مکمل وفاداری کے ساتھ تسلیم کریں۔ ہماری لیڈر اور آپ کے لیڈرکو عالمی رہنمائوںکو دکھانا ہوگا اور قائل کرنا ہوگا کہ آپ کے تمام منتخب ارکان نے پاکستانی پارلیمنٹ کے اکثریتی رہنما کی قیادت میں ایک نئی حکومت قائم کرلی ہے‘‘۔
''16 مارچ کو دن کے گیارہ بجے وہ ( قدس اور نور الدین احمد) ہوائی جہاز کے ذریعے دہلی سے کولکتہ روانہ ہوگئے۔ اس سفر کا اہتمام بھارتی حکام نے کیا تھا۔ ڈم ڈم ایئرپورٹ پر انہیں دوکمانڈوز نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔ وہ انہیں اپنی کار میں بھومرا سرحد لے گئے۔ بارڈر سکیورٹی فورس کی وجہ سے وہ براستہ ستخیرہ کھلنا پہنچ گئے۔ وہ کھلنا سے ڈھاکہ کار کے ذریعے گئے اور سیدھا 32 نمبر روڈ پر واقع بنگ بندھو کے گھر جا پہنچے۔ بنگ بندھو نے انہیں گلے سے لگایا۔ وہ گھرکی چھت پر چلے گئے جہاں مجیب نے اندراگاندھی کا پیغام سنا۔ پیغام سنتے ہی وہ جذبات سے مغلوب ہوگیا اور اس نے ان دونوں کو دوبارہ گلے سے لگا لیا۔ وہ بڑی تیزی سے سانس لے رہا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے تین بار ''الحمد للہ‘‘ اور ''اللہ اکبر‘‘ کہا۔ پھر اس نے اپنے ایک بیٹے سے کہا وہ مکان کی چھت پر پانی اور تین جائے نمازلے کر آئے۔ پھر انہوں نے نفل پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے مشن کی کامیابی کے لئے دعا کی۔ شیخ مجیب نے اللہ کے نام پر ان سے عہد لیا کہ جب تک وہ دونوں اور میں (شیخ مجیب) اس دنیا میںزندہ ہیں وہ اندراگاندھی کے اس پیغام کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔ ان تینوں نے موت تک اس عہد کو نبھایا۔ قدس (میرے چچا) نے یہ انٹرویو اس شرط پر دیا تھا کہ ان کی موت کے بعد شائع ہوگا۔ قدس اور نور الدین احمد اب اس فانی دنیا میں نہیں ہیں‘‘۔
یہ پاکستانی فوج کے کسی ترجمان کا بیان ہے نہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کسی حامی کی تحریر‘ بلکہ شیخ مجیب الرحمن کے محرم راز‘ مشرقی پاکستان میں بغاوت کے حقیقی محرکات سے آشنا ایک ذمہ دار شخص کا اعتراف جرم ہے اور اسے صفحہ قرطاس پر حکومت بنگلہ دیش کے سابق سیکرٹری اور جنگی وقائع نگار موسیٰ صادق نے منتقل کیا۔ یہ بھارتی اور بنگلہ دیشی پروپیگنڈے کی نفی اور پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن و عوامی لیگ کی حب الوطنی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد بھی مارچ2010ء میں بنگلہ دیشی نیوز24 ڈاٹ کام کو انٹرویو میں یہ اعتراف کر چکی ہیں کہ ان کے والد نے پاکستان سے علیحدگی کا منصوبہ لندن میں بیٹھ کر بنایا تھا۔
لاکھوں بنگالی عوام کی نسل کشی اور خواتین کی بے حرمتی بھی اسی نوع کا جھوٹ ہے جسے تمام غیر جانبدار دانشوروں‘ تجزیہ نگاروں اور مورخین نے سختی سے مسترد کیا ہے۔ چند برس قبل بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے مستند حوالوں سے یہ راز افشا کیا کہ 1971ء کی جنگ کا ریکارڈ فوری طور پر ضائع کر دیا گیا جس میں 25 مارچ کے ایکشن سے قبل عوامی لیگی غنڈوں کی غیر بنگالیوں کے خلاف بہیمانہ کارروائیوں‘ غیر بنگالی اور محب وطن بنگالی خواتین کی آبرو ریزی اور قتل عام کے شواہد موجود تھے۔ عوامی لیگی غنڈوں‘ مکتی باہنی اور بھارتی فوجیوں کی طرف سے غیر بنگالیوں اور محب وطن بنگالیوں کی نسل کشی، خواتین کی بے حرمتی اور وسیع پیمانے پر تخریبی کارروائیوں کو پاک فوج سے منسوب کیا گیا تاکہ عالمی سطح پر اسے بدنام اور بنگالیوں کی نظر میں مجرم کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کے نمائندے ولیم جے ڈرمنڈ نے بھی 1972ء میں بنگلہ دیش کے دورے کے بعد تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل کے دعوے کو بے ہودہ قرار دیا۔
ممتاز دانشور قطب الدین عزیز(کے کے عزیز) نے اپنی کتاب بلڈاینڈ ٹیٔرز میں لکھا ہے مارچ 1971ء کے پہلے ہفتے میں وزارت اطلاعات و نشریات میں تعینات ایک اعلیٰ افسر نے جو بنگالی تھا، مجھے ہدایت کی کہ میرے خبر رساں ادارے سے مشرقی پاکستان میں باغیوں کے ہاتھوں غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق کوئی خبر جاری نہیں ہونی چاہیے۔ یہی ہدایت ملک کے دیگر خبر رساں اداروں اور میڈیا آئوٹ لیٹس کو دی گئی۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے مد مقابل سیاستدانوں نے بھارت سے گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش میں شریک عوامی لیگی قائدین کے حوالے سے جو طرز عمل 1968-69ء میں اختیار کیا، غدارانِ وطن اور بھارتی پٹھوئوں کو سیاست کے قومی دھارے میں لانے کے لیے فوج‘ عدلیہ ‘ خفیہ ایجنسیوں کی محنت‘ ریاضت اور قانونی تقاضوں کی مٹی پلید کی، وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ پاکستان کے وفاداروں کی حوصلہ شکنی اور غداروں کی ناز برداری کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں سرگرم عمل باغیوں اور دہشت گردوں کے علاوہ شعبہ سیاست‘ صحافت اور تعلیمی اداروں میں ان کے سہولت کاروں کا قلع قمع کرنے کے بجائے بھارت کی چاپلوسی اور ''را‘‘ کی کارروائیوں سے چشم پوشی کو سفارت کاری اور پیس افینس کا نام دیا جاتا ہے اور بنگلہ دیش میں پاکستان سے وفاداری کی سزا بھگتنے والوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی زحمت بھی کوئی گوارا نہیں کرتا۔ وفاداران پاکستان کی پھانسی پر ترکی نے اپنا سفیر واپس بلا لیا مگر حکومت پاکستان نے بھر پور احتجاج سے گریز کیا، مبادا نریندر مودی اور مجیب الرحمن کی صاحبزادی قاتل حسینہ ناراض ہو جائے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرنا تو درکنار، ان پر اصرار‘ جنگ اقتدار جاری ہے ‘ خدا خیر کرے ؎
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے