ابھی نہیں‘ ابھی تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو...
تو اپنی خود نوشت کو اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے‘ خامۂ حق نے تری جبیں
اگر یہ کالم بے سرا لگے تو اس کا ذمہ دار یہ محرّر نہیں۔ ایک پہر پہلے میں گھر سے نکلا تھا۔ تیس منٹ کا فاصلہ سوا دو گھنٹے میں طے ہوا۔ شہباز شریف ایک عظیم لیڈر ہیں۔ اتنے عظیم کہ شیر شاہ سوری‘ اس زمانے میں ہوتے تو ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے‘ کسی خانقاہ میں جا بیٹھتے۔ دو کام مگر وہ نہیں کر سکتے۔ ایک یہ کہ لاہور کی ٹریفک رواں کر دیں۔ دوسرے وہ غلیظ ڈرامے بند کرائیں جن میں ماں‘ بہن اور بیٹی تک کے رشتے کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کیوں نہیں کر سکتے۔ یہ ایک راز ہے‘ جو کسی پر نہیں کھلتا۔
جنرل اعجاز اعوان پہ حیرت ہے کہ کیسا عجیب نکتہ انہوں نے تراشا ہے۔ فرمایا کہ آئی ایس آئی کا سربراہ، فلاں صاحب کا رشتہ دار ہے اور فلاں صاحب وزیر اعظم کے رشتے دار؛ چنانچہ اب اس ادارے پر کبھی حرف نہ آئے گا۔ ؎
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خوں پروانے کا ہو گا
جنرل صاحب جانتے ہیں کہ فوج میں تقرّر اور تبادلے کس طرح ہوتے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ اور دوسرے جنرلوں کا انتخاب‘ چیف آف آرمی سٹاف نے کیا ہے۔ کیا‘ ان کی مراد وزیر اعظم کی خوشنودی تھی؟ یہ رسم فوج میں کب تھی؟ محض گمان پر فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اندیشوں پر آرا قائم نہیں کی جاتیں؛ چہ جائیکہ کہ حکم ہی لگا دیا جائے۔ جنرل صاحب جانتے ہیں کہ ایک طے شدہ نظام کے تحت فوج کام کرتی ہے۔ کاکول میں ایک کیپٹن‘ دس نومنتخب افسروں کا نگران ہوتا ہے۔ کسی پلٹن سے متعلق نوجوان پر تحریری طور پر، اگر وہ اعتراض کر دے۔ یہی لکھ بھیجے کہ اپنے فرائض میں دلچسپی کا مظاہرہ وہ نہیں کرتا تو اسے گھر جانا پڑتا ہے۔
پرسوں کراچی کے سفر میں سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری سے طویل تبادلہئِ خیال کا موقع ملا۔ ایک دلچسپ بات انہوں نے بتائی۔ کہا کہ ان کے دیہاتی حلقہ انتخاب سے‘ سو طرح کی فرمائشیں موصول ہوتی ہیں۔ آج تک مگر کسی نے یہ نہ کہا کہ ان کے فرزند کو فوج میں بھرتی کرا دیا جائے۔ کہا: ایک بار کسی بڑے میاں نے اپنے داماد کے تبادلے کی سفارش کی۔ اسے بتایا گیا کہ الٹا نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔ کچھ دیر میں‘ اس کا فون آیا: کہیں‘ آپ نے فون تو نہیںکر دیا ۔ برخوردار سے میں نے مشورہ کیا ہے۔ وہ پریشان ہے۔ کہتا ہے‘ براہِ کرم وزیر صاحب کو روک دیجئے۔
رشتہ داری کی بھی خوب رہی۔ ربع صدی پہلے‘ جس بھلے خاندان میں فوجی افسر بیاہا گیا‘ ایک زمانے کے بعد اس خاندان کے ایک دوسرے گھرانے کے فرزند کی شادی‘ حکمران خاندان میں ہو گئی۔ اب وہ آدمی‘ حکمرانوں کا قریبی رشتہ دار کیسے ہو گیا‘ جبکہ براہ راست اس کا ہرگز کوئی تعلق ان سے نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک اپنی ریاضت اور کارکردگی سے وہ پہنچا۔ چلیے، فرض کر لیجئے کہ ایسا وہ اہل نہیں... تو عسکری قیادت سے پوچھا جائے کہ ایک کے بعد دوسری سیڑھی وہ کیسے عبور کرتا گیا؟ تاآنکہ دہشت گردی کا سامنا کرنے کے اعتبار سے ملک کی اہم ترین کور کا سربراہ ہو گیا۔
بیک وقت کراچی کے کور کمانڈر اور سندھ رینجرز کے سربراہ کا تبادلہ ہوا تو یہ سوال بہت سے ذہنوں میں اٹھا کہ اب اس شہر کا کیا ہو گا‘ پاکستانی معیشت کی جو شہ رگ ہے جس کے مستقبل پر ملک کے مستقبل کا انحصار ہے۔ تین عشروں تک‘ الطاف حسین‘ جہاں آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہے۔ دہشت گرد بھارتی خفیہ تنظیم ''را‘‘ کی مدد سے قتل و غارت کا بازار گرم کئے رکھا۔ کراچی سے ایک دوست نے مجھے لکھا: کھیل ختم ہو گیا۔ اب ہم قاتلوں کے رحم و کرم پہ ہیں۔ عرض کیا: چند دن انتظار کیجئے۔ نئے لوگوں کا جب تک تقرر نہیں ہوتا‘ کوئی تاثر اور تبصرہ قبل از وقت ہو گا۔
دو تین دن کے اندر ہی منظر واضح ہو گیا۔ کراچی کے کور کمانڈر کو آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل اور سندھ رینجرز کے سربراہ کو چیف آف جنرل سٹاف بنا دیا گیا‘ تاکہ کراچی پر وہ نگراں رہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ایک بے تکان جنگ سندھ رینجرز کے سابق لیڈر نے لڑی ہے۔ اس طرح کہ سحر و شام کا امتیاز ختم ہو گیا۔ جمعرات کو کراچی میں‘ کور کمانڈر کی ذمہ داریاں منتقل کرنے کی رسمی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ پروانوں کی طرح لوگ اس پہ گر رہے تھے۔ نام اس کا لیا جائے تو وہ معترض ہوتا ہے کہ ایک فرد کی نہیں‘ یہ پوری ٹیم کی کمائی ہے۔ یہی بات رخصت ہونے والے کور کمانڈر نے اپنے خطاب میں کی۔ قدرے جذباتی لہجے میں: کامیابیوں کا حصول کبھی ممکن نہ ہوتا‘ پاک بھارت سرحدوں تک پھیلے جوان اور افسر، ایک آہنگ کے ساتھ اگر بروئے کار نہ آتے۔ ''یہ ایک عجیب فوج ہے‘‘ انہوں نے کہا: ایک آواز پر وہ جان ہتھیلی پر لے کر نکلتے ہیں۔ سیاچن کے برف زاروں‘ وزیرستان کے کوہستانوں سے لے کر‘ سندھ کے صحرائوں تک، انہوں نے اشارہ کیا ؎
سو جائو عزیزو کہ فصیلوں پہ ہر اک سمت
ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں
ایک شہید کا ذکر کیا۔ گولی اس کے ماتھے پر لگی تھی۔ ہسپتال میں تھا۔ کہا: خاموش‘ میں اس کے بڑے بھائی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ اس نے کہا: جنرل صاحب! آپ مجھے مبارک باد کیوں نہیں دیتے۔ پھر اپنے چھوٹے بھائی کا ہاتھ اس نے میرے ہاتھ میں دیا: جنرل صاحب! کمسن ہے‘ اپنے پاس اسے رکھ لیجئے۔ اگر فوج میں بھرتی ہو سکے تو ایک دن‘ وہی ڈیوٹی اسے دیجئے گا‘ جسے نبھاتے ہوئے اس کا بڑا بھائی جان ہار گیا ؎
ہم چٹانیں ہیں‘ کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
پھر ایک، شہید کی ماں کی ایسی ہی روداد کہی‘ حتیٰ کہ جنرل کا لہجہ بھیگنے لگا۔ پلٹ کر میں نے دیکھا‘ کچھ آنکھوں میں موتی تیر رہے تھے۔ سیاست پر تین حرف کہ اقتدار کے کھیل میں‘ سویلین شریک ہوں یا عساکر‘ چھینٹے اڑتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ طاقت گمراہ کرتی ہے اور زیادہ طاقت‘ مزید گمراہ۔ جنرل پرویز مشرف کے آخری دور میں وہ دن اس قوم نے دیکھے ہیں کہ وردی کی محبت تمام ہو گئی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ فوجی قیادت نے اس سے سبق سیکھا۔ خود کو دفاع اور خارجہ پالیسی کے ان پہلوئوں تک اس نے محدود کر لیا‘ قومی سلامتی سے‘ جن کا تعلق ہے۔ جنرل کیانی کی تراشی ہوئی اسی راہ پر چلتے ہوئے‘ جنرل راحیل شریف ہیرو بن کر ابھرے‘ حتیٰ کہ ملک کے طول و عرض میں‘ ان کی تصاویر جگمگاتی رہیں۔
بتدریج بلوغت کا کچھ سفر‘ اس قوم نے طے کیا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا...اور یا للعجب‘ 90 دن میں ناقابل یقین سرعت کے ساتھ سوات کا آپریشن مکمل اور آبادی کی واپسی کے بعد... ملالہ پر گولیاں برسیں تو ایک بڑی تعداد نے اسے ڈرامہ کہا۔ ایک زمانہ تھا کہ جمعیت علمائے اسلام ہی نہیں‘ حیلے بہانے سے‘ جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف اور نون لیگ بھی طالبان کی تائید کیا کرتیں۔ حتیٰ کہ پشاور آرمی سکول میں پھول سے بچوں کے قتل عام کا دن آ پہنچا۔ ان بچوں کے معصوم لہو نے قوم کو راہ دکھائی۔ اب تک بھی وگرنہ شاید وہ بھٹک رہی ہوتی۔
ڈی جی رینجرز سندھ کو چیف آف جنرل سٹاف کا عہدہ سونپنے پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ یہ کہ نسبتاً وہ جونیئر ہیں۔ نسبتاً تو جنرل قمر جاوید باجوہ بھی پیچھے تھے۔ انیسویں صدی کے وسط میں امریکہ کی خانہ جنگی یاد آئی۔ ابراہم لنکن نے کہا تھا: تمغے والے نہیں‘ مجھے وہ جنرل چاہیے جو جنگ جیت کر دے۔ باقی تاریخ ہے۔
مجموعی طور پر نئی فوجی قیادت پر فیصلہ صادر کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ امریکہ اور بھارت نواز‘ بعض اخبارات میں لکھنے والوں کا تہیہ یہ ہے کہ ہر حال میں وہ فوج کی مذمت کریں گے۔ بدقسمتی سے سول حکومت کی سرپرستی بھی انہی اداروں کو حاصل ہے۔ اسی طرح بعض تُلے رہتے ہیں کہ ہر حال میں عسکری قیادت کے ہر اقدام کی حمایت کریں۔ ابھی نہیں‘ ابھی تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔ ثانوی مناصب پر بعض لوگ جگمگاتے ہیں‘ مگر بالاتر عہدوں پر‘ جہاں خود انہیں فیصلے کرنا ہوتے ہیں‘ وہ ماند پڑ جاتے ہیں یا من مانی کرنے لگتے ہیں۔
ابھی نہیں‘ ابھی تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو...
تو اپنی خودنوشت کو اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے‘ خامۂ حق نے تری جبیں