ہندوستان سے امریکہ کا ایک بڑا تصادم جلد ہو گا۔ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ‘ گو دونوں ہی سیاسی لحاظ سے قدامت پسند ہیں مگر انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے گھر کی نوکریاں گھر میں رکھنے کا جو وعدہ بار بار کیا تھا‘ وہ اپنے جی ڈی پی کی 25 فیصد اشیا سازی ملک میں رکھنے کے مودی نعرے سے لگا نہیں کھاتا۔ ہو سکتا ہے کہ اس دوران اسے روس سے بتدریج دور ہٹنے کی پالیسی بھی مہنگی پڑے۔
امریکہ کی کوشش تھی کہ جو لڑاکا طیارے خود امریکی ملٹری کو اب قابل قبول نہیں رہے‘ وہ ہندوستان اور دوسرے ملکوں کے سر منڈھ دے؛ چنانچہ اوباما حکومت کی تائید سے لاک ہیڈ مارٹن اور بوئنگ نے‘ جو ایف سولہ بناتی رہی ہیں‘ مودی حکومت کو کچھ تجاویز بھی پیش کیں مگر بھارتی حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ان پر کام شروع نہیں ہوا۔ اگر فائٹنگ فالکن اورF/A-18 Hornet Super کی فیکٹریاں ہندوستان میں لگ گئیں تو روس کی جانب اس کا جھکاؤ کم ہو جائے گا۔ وہ پہلے ہی روسی ساخت کے فضائی بیڑے کی تجدید کر رہا ہے۔
دونوں معاملات میں متحارب کمپنیاں تجاویز کے مطابق بھارت میں لڑاکا ہوائی جہاز بنائیں گی۔ لاک ہیڈ کی تجویز ہے کہ وہ ٹیکسس میں اپنی پیداوار بند کر دے گا‘ اور ساری فیکٹری بھارت منتقل کر دے گا۔ یوں ہندوستان‘ سنگل انجن امریکی طیارہ بنانے والا واحد ملک ہو گا۔ یہ کمپنی چوبیس ملکوں میں تین ہزار سے زیادہ ہوائی جہاز سالانہ بناتی ہے اور ہندوستان کو ان سب کو فالتو پرزے مہیا کرنے کی اجارہ داری پیش کر رہی ہے۔ دوسری کمپنی‘ جو ڈبل انجن کے ہارنیٹ بناتی ہے‘ اپنی پیداوار محدود کر دے گی۔ ان تجاویز کو اوباما حکومت کی پشت پناہی حاصل رہی ہے‘ جو حالیہ برسوں میں بھارتی ملٹری کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی سعی کر رہی ہے۔ اگست میں نئی دہلی کا دورہ کرنے کے بعد ایئرفورس کی سیکرٹری ڈیبرا لی جیمز نے بھارت سے ایسے سودے کے بارے میں رجائیت کا اظہار کیا تھا اور وزیر دفاع ایشٹن کارٹر اسی ہفتے اسرائیل کوF 35‘ جو اب امریکی فضائیہ کا مرغوب طیارہ ہے‘ کی پہلی کھیپ پہنچانے کے بعد نئی دہلی کے سفر سے واپس آ رہے ہیں‘ اور یہ معاملہ سرِ فہرست ہے مگر شہر شہر قمار خانے اور ہوٹل بنانے والے ارب پتی کاروباری شخصیت کے صدر منتخب ہونے کے بعد یہ سوال کھٹائی میں پڑتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ ملک سے باہر روزگار پیدا کرنے کی بجائے ملک کے اندر کام کرنے کے دائرے میں توسیع کے حامی ہیں‘ اور میکسیکو سے اس تحدید کی تھرتھراہٹیں آنے لگی ہیں۔ اس طرح عالمی تجارتی تنظیم بھی معرضِ خطر میں پڑ گئی ہے۔
ٹرمپ قائم شدہ روزگاروں کی حفاظت اور نئے روزگار بنانے کے معاملے میں سرگرم عمل ہیں۔ ایک دن وہ انڈیانا میں ایک ٹریکٹر فیکٹری میں نمودار ہوئے‘ جہاں ان کی ٹیم نے ایک ہزار ملازمتیں بچائی تھیں۔ اگلے روز انہوں نے ٹیم کے اس بیان کے حمایت کی کہ جو کمپنیاں ملک سے باہر جائیں گی ان کی پیداوار پر ایک نیا ٹیکس (جرمانہ) عائد کیا جائے گا۔ ٹرمپ کے ٹویٹ میں کہا گیا تھا ''نہایت قیمتی غلطی کرنے سے پہلے خبردار رہیے کہ امریکہ کاروبار کے لئے کھلا ہے‘‘۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے ایشیا اور میکسیکو کے ہاتھوں ملازمتوں کے زیاں کی مخالفت کی تھی‘ اور ایشیا سے ان کی مراد‘ چین اور ہندوستان تھے۔ ٹرمپ نے کہا تھا ''ہم دنیا میں روزگاروں کی چوری کے عظیم ترین دور سے گزر رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے ان امریکی کمپنیوں کی مثالیں دی تھیں‘ جو زیادہ منافع کی خاطر اپنے ملازمین کو بے روزگار کرکے بھارت‘ سنگاپور اور میکسیکو سدھار جاتی ہیں ''یہ بد سے بد تر اور بد تر سے بدترین ہونے کو ہے‘‘۔ لاک ہیڈ مارٹن کے حکام نے بتایا کہ ہندوستان میں لڑاکا ہوائی جہازوں کی تیاری سے امریکہ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا؛ البتہ بھارتیوں کے لئے کوئی ایک ہزار نئے روزگار نکلیں گے۔ امریکی ایئرفورس ایف 16 کی جگہ ایف 35 لا رہی ہے اور فورٹ ورتھ میں تقریباً 300 کاریگروں کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے پر‘ خواہ وہ اسی فیکٹری میں رہیں گے‘ خاصا خرچ آئے گا۔ دوسروں کو دوسری ملازمتوں کے لئے درخواست کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ گو وہ یہ مانتے ہیں کہ اس منتقلی میں کچھ نوکریاں‘ ریٹائرمنٹ اور خالی اسامیاں پْر نہ کرنے کی نذر ہو جائیں گی۔
ہندوستان اور پاکستان میں ایف سولہ کے مداحوں اور نقادوں کی کمی نہیں۔ اس کی پیداوار 1987ء میں شروع ہوئی تھی۔ گو وہ زائدالمیعاد ہو چکا ہے مگر مجموعی طور پر اسے اچھا لڑاکا طیارہ مانا جاتا ہے۔ پاک فضائیہ کے بیڑے میں تربیت دینے والے‘ دیکھ بھال کرنے والے‘ راستہ روکنے یا ٹوکنے والے‘ حملہ کرنے والے اور دوسرے جہاز بکثرت ہیں پھر بھی وہ اردن سے ایسے زیر استعمال آٹھ طیارے خرید رہا ہے۔ اس کے پاس 70 عدد ایف سولہ اب بھی موجود ہیں‘ گو ان میں سے زیادہ تر ریٹائر ہونے کے قریب ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ضربِِ عضب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اسے ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے اور اندھیرے میں اڑان کرنے والے ان طیاروں کی ضرورت ہے۔ یہ دراصل کانگرس سے مایوسی کا رد عمل ہے‘ جس نے امریکی طیاروں کی خریداری کے لئے $699 M قرض دینے سے انکار کر دیا ہے۔ خارجہ امور کی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین سینیٹر باب کارکر نے کہا کہ یہ طیارے افغانستان اور ہندوستان کی حکومتوں کے خلاف استعمال ہوں گے۔ اوڑی کے واقعہ کے بعد تو اس کا اندیشہ پایا جاتا رہا ہے۔ پاکستان نے قرض کی درخواست بھی واپس لے لی ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بیان ہے کہ اس سے دونوں ملکوں میں تلخیاں اور بڑھ گئی ہیں۔ یہ سہولتیں اسے چین سے مل رہی ہیں اور اس نے اپنا لڑاکا طیارہ‘ براق‘ بھی بنا لیا ہے۔ جوں جوں میزائل ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے طیاروں کا استعمال کم ہو رہا ہے۔ بابر 2 کی آمد کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
ستر سے زیادہ ملکوں میں امریکی فوجی اڈوں کی تعداد کم و بیش 800 ہے۔ اس کے برعکس روس‘ برطانیہ اور فرانس کے مجموعی طور پر تقریباً 30 بیرونی اڈے ہیں۔ سب سے زیادہ امریکہ فوجی اڈے اور ریڈار کی سہولتیں جرمنی‘ اٹلی جاپان‘ ترکی‘ عراق‘ افغانستان اور فلی پینز اور مشرق وسطیٰ میں واقع ہیں‘ مگر ان ملکوں کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک محدود مدت کے لئے امریکہ کے میزبان ہیں۔ جاپان‘ فلی پینز‘ بحرین اور دوسرے ایشیائی ملکوں کے عوام سے ایک سے زیادہ بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے تسلط سے بیزار ہیں۔ وہ حقِ خود ارادیت اور چین جیسے تعلقات چاہتے ہیں۔ امریکہ سے صرف 62 میل دور وسطی امریکہ کی قوم کیوبا اب بھی کمیونسٹ ہے۔ جنوبی امریکہ کے بیشتر ملک وینزولا کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور باقی امریکی اثر و رسوخ سے آ زاد‘ یہی حال افریقی ملکوں کا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو تقسیم کرکے الیکشن جیتا ہے۔ وہ اپنے ملک پر ایک منحوس سائے کی طرح ہیں۔ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے سے قبل دوسرے ملکوں کے بارے میں اپنے انتہا پسندانہ خیالات نرم کر لئے ہیں مگر چین اور خشکی کے راستے جڑے ہوئے میکسیکو سے متعلق ان کے نظریات جو ں کے توں ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ ان کی پہلی مدت کے دوران امریکہ کا زوال شروع ہو گا۔ دوسری مدت کی نوبت نہیں آئے گی اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا انحطاط جاری رہے گا۔ امریکی ایمپائر کے خاتمے میں وقت لگے گا۔