تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     17-12-2016

سیزیرین آپریشن کی ضرورت

میں اکثر یہ بات نہیں کرتا۔۔۔''میں نے تمہیں کہا تھا نا‘‘، لیکن پاناما گیٹ پر میں نے درحقیقت ایسا کہا تھا۔ گزشتہ اپریل پاناما میں سمندر پارکمپنیوں کی موجودگی کا کیس منظر ِعام پر آیا۔ اس نے ہمارے ٹی وی اسٹوڈیوز میں تھرتھلی سی مچا دی، عمران خان اور پی ٹی آئی کے ٹائیگرز وزیر ِاعظم اور اُن کے اہل ِخانہ کے احتساب کے نعرے بلند کرتے میدان میں آگئے۔ اُن دنوں میں نے لکھا تھا کہ اس تمام ہا ہو کے باوجود اس پہاڑ کو کھود کر اس میں سے نکلے گا کچھ بھی نہیں۔ اس کی وجہ غیب کا علم نہیں، جمود اور غیر فعالیت کی بنیاد پر قائم اس نظام کی حقیقت کا احساس تھا۔ میں اپنے ہی کالم کا حوالہ دیتا ہوں۔۔۔'' دستاویزات تلاش کرنے کی بات کی جائے گی، بہانے گھڑے جائیں گے ، لامتناہی تاخیر ہوگی، اور ا س سے پہلے کہ ہم گھڑی دیکھیں، تاریخوں پر تاریخیں گزرتی جائیں گی، یہاں تک کہ ایک دن ہمیں اچانک پتہ چلے گا کہ اب تو نئے انتخابات سر پر آگئے ہیں۔ اس کا رن پڑتے ہی ہر چیز عوامی یادداشت سے محو ہوجائے گی۔ ‘‘
فی الحال رونما ہونے والے واقعات نے اسی سکرپٹ کو فالو کیا ہے ۔ اس نہج تک پہنچے میں نو ماہ بیت گئے ، ہوا کچھ بھی نہیں۔ تو کیا ''سیزیرین آپریشن ‘‘ناگزیر ہوچکا؟جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطلب تو مزید التوا ہوگا ۔ اب عمران خان نے ایسے کمیشن کے بائیکاٹ کی دھمکی دی ہے۔ اس سے پہلے موصوف کا سب سے بڑا مطالبہ جوڈیشل کمیشن کا قیام تھا۔ اب اُن کا فرمانا ہے کہ سپریم کورٹ کا موجودہ پانچ رکنی بنچ ہی اس کی سماعت جاری رکھے اوراس کیس کو نمٹانے کے لیے یہی بنچ موسم ِسرما کی تعطیلات کے بعد اس کیس کی سماعت کرے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس دوران وہ عوامی جلسے پر جلسہ کرتے رہیں گے ،کہ ''لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ‘‘۔ 
دیکھنا پڑے گا کہ نئے چیف جسٹس صاحب اس مطالبے اور دبائو کے حربے پر کس رد ِعمل کا اظہار کرتے ہیں، تاہم یہ بات ہم سب نے دیکھی ہے کہ فریقین کی پیش کردہ ''شہادت ‘‘ نے بنچ کو متاثر نہیںکیا ۔ جائیداد کی ملکیت، فنڈز کی ترسیل اور دیگر معاملات کی بابت کلائنٹس کے تبدیل ہوتے ہوئے موقف کی وجہ سے دونوں ٹیموں کے وکلا نے کیس کو مزید الجھا دیا ۔ عام طور پر ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری الزام لگانے والے پر ہوتی ہے ، اور اخبارات کے تراشوں کو عدالت جرم کا ثبوت تسلیم نہیں کرتی ۔ اس دوران ہم یہ بات بھول گئے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کا کام جرائم اور غلط کاریوں کی از خود تحقیقات کرنا نہیں ۔ جج حضرات اپنے سامنے پیش کیے گئے ثبوت اور شہادت کو دیکھتے ہیں، فریقین کا موقف سنتے ہیں، گواہوں کی بات سنتے ہیں، ماضی کی مثالوںپر غور کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کی بات سن کر فیصلہ سناتے ہیں۔
افتخار محمد چوہدری کے دور میں منتخب شدہ وزیر ِاعظم ، یوسف رضا گیلانی کو 2012 ء میں توہین ِعدالت کی پاداش میں منصب سے ہٹا دیا گیا۔ قیاس ہے کہ موجودہ بنچ اس راہ پر چلنے سے گریز کرے گا۔ یہ بات قابل ِفہم ہے کہ موجودہ حالات میں ہونے والی سیاسی جنگ میںسپریم کورٹ براہ ِ راست فریق نہیں بنے گی۔ اس کا جو بھی فیصلہ ہوگا، ہارنے والا فریق ''انصاف کے قتل ‘‘ کی دہائی دینا شروع کردے گا۔ ہوسکتا ہے کہ فیصلہ درست اور منصفانہ ہو لیکن اُسے ننگی آنکھوں سے اس میں بے انصافی نظر آجائے گی۔ چنانچہ نئے چیف صاحب بھڑوںکے اس چھتے میں ہاتھ ڈالنا کیوں چاہیں گے ؟وہ بہتر سمجھیں گے کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنا کر خود کو اس سے الگ کرلیں۔ اس کے بعد وہ کمیشن ہی دستاویزات اور گواہوں وغیرہ کو بلاتا رہے گا، لیکن اُسے از خود عدالت کا درجہ حاصل نہ ہوگا اور چونکہ پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم نے وہ تمام دستاویزات پیش کردی ہیں جو ان کے پاس تھیں، چنانچہ اب ان کے پاس کمیشن کے بائیکاٹ کابھی آپشن نہیں رہا۔ اگر وہ یک طرفہ طور پر بائیکاٹ کربھی دیں تو کمیشن اپنا کام جاری رکھے گا کیوں اُس کے پا س''مواد ‘‘ موجود ہوگا۔ 
پی ٹی آئی کا یہی طرز ِعمل وزیر اعظم نواز شریف کی تقویت کا باعث بن رہا ہے ۔ محترم گزشتہ پینتیس برس سے سیاسی اکھاڑے میں ہیں اور انکوائریز اور تحقیقات کو التوا میں ڈالنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔اس میدان میں خان صاحب اُن کے سامنے 'طفل ِمکتب‘ ہیں۔ اس کے علاوہ شریف برادران اقتدار میں ہیں، چنانچہ وہ بیوروکریسی پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ عمران خان کی اب شدیدخواہش ہے کہ سپریم کورٹ ہی کیس کی سماعت جاری رکھے ۔ یوں تو عمران خان اور ان کی جماعت بدعنوانی کے الزام میں موجودہ وزیر ِاعظم کی اقتدار سے رخصتی چاہتے ہیں، لیکن ابھی یہ بات واضح نہیں کہ کیا اُن کے پاس عوامی حمایت بھی ہے یا نہیں۔ اُن کے جذباتی حامیوں کا جذبہ اپنی جگہ لیکن جمہوری نظام میں بندوں کو گنا جاتا ہے، جانچا نہیں جاتا۔ پی ٹی آئی کے ترجمان سے اکثر یہ بیان سننے کوملتا ہے کہ ''تمام قوم وزیر ِاعظم کے استعفے کا مطالبہ کررہی ہے‘‘، لیکن کیا ایسا بیان دینے سے پہلے موصوف نے کوئی پول سروے کرا کر دیکھا ہے ؟یا کیا استعفے کے لیے کوئی ملک گیر عوامی تحریک چل رہی ہے ؟ایسا لگتا ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے اپنی شامیں رنگین کرنے والوں کے علاوہ کسی کو بھی پاناما گیٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ 
یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ بدعنوانی کو اس نظام کا ایک حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ اس حمام میں ہم ہی اکیلے نہیں، زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کی جامہ پوشی کا یہی عالم ہے ۔ دنیا کے اس حصے میں سیاست دانوں سے ایماندار ہونے کی توقع نہیں کی جاتی۔ اس کے علاوہ سرکاری افسران بھی اپنے وسائل سے بڑھ شاہانہ زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں۔ اُنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی جماعتیں بڑی خوشی سے قبول کرلیتی ہیں۔ درحقیقت پاکستان میں انتہائی دولت مند وںنے سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکالا ہے ۔ یہاں ٹیکس چوری، بدعنوانی، ڈرگ سمگلنگ اور دیگر جرائم کی گنگا بہہ رہی ہے اور بہت کم افرا دکے ہاتھ خشک ہیں۔ اسمبلی کی ٹکٹیں خریدنے کے لیے کالا دھن استعمال ہوتا ہے ۔ نواز شریف نے 1980ء کی دہائی میں سیاست میں قدم رکھا تھا۔ وہ اُس وقت بھی ایک دولت مند شخص تھے ، اگرچہ بھٹو دور میں ان کی فیملی صنعت کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ چنانچہ اُن کے بچوں کی طرف سے لندن کے چار فلیٹس کی خریداری لوگوں کے لیے کوئی اچنبھے کی خبر نہیں۔ اس کے علاوہ لوگ کندھے اچکاتے ہوئے کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ''اس میں نئی بات کیا ہے ؟‘‘
سیاست میں تاثر حقیقت سے زیادہ قوی ہوتا ہے ۔ لاکھوں لوگ سوچتے ہیں کہ وہ کم از کم پنجاب میں اچھا کام کررہے ہیں۔ تو کیا اُنہیں اس اسکینڈل سے (اگر وہ واقعی قصوروار ہیں) بچ نکلنا چاہیے؟ ہرگز نہیں۔ کیا وہ بچ نکلیں گے ؟ غالباً۔ خیر یہ بات میں نے پہلے بھی آپ کے گوش گزار کردی تھی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved