میں فیس بک پر جاتا ہوں نہ ایڈیٹرز کو خط لکھتا ہوں اور نہ ہی ایڈیٹرز کی ڈاک پڑھتا ہوں ۔ کچھ دوستوں کی زبانی معلوم ہوا کہ آج فیس بک پر یہ ہنگامہ برپا رہا کہ لائف اچیومنٹ ایوارڈ جو ظفر اقبال کو ملنا چاہئے تھا‘ کشور ناہید کو دیا جا رہا ہے جو عمر کے لحاظ سے کافی جونیئر ہیں۔ فیس بُک پر یار لوگ دل پشوری کرتے ہی رہتے ہیں اور انہیں کھل کھیلنے کے لیے کوئی بہانہ ہی درکار ہوتا ہے سو‘ کچھ میرے حق میں بول رہے ہیں تو کوئی کشور کی طرفداری میں، جیسے اس ایوارڈ کے جج بھی وہی ہوں!
جہاں تک میرا سوال ہے‘ اگر میرا کام میرا ایوارڈ نہیں ہے تو باقی سب کہانیاں ہیں۔ پچھلے برس فہمیدہ ریاض کو یہی ایوارڈ ملا تو برا ماننے کی بجائے میں نے اسے فون کر کے بھی مبارکباد دی اور اپنے کالم میں بھی۔ منقول ہے ک ایک گویا ہر وقت دو میڈل گلے میں ڈالے پھرا کرتا تھا‘ ایک چھوٹا اور ایک بڑا، کسی نے پوچھا تو اس نے بتایا‘ ''یہ چھوٹا میڈل مجھے ایک گانا سُنانے پر ملا تھا‘‘۔ اس سے پوچھا گیا اور یہ بڑے والا؟ تو اس نے جواب دیا: ''یہ مجھے ایک گانا بند کرنے پر ملا تھا‘‘
سو‘عرض کرنے کا مطلب ہے کہ شاعری پر تو مجھے دو تین ایوارڈ پہلے ہی مل چکے ہیں، میں نے اب شاعری چھوڑ رکھی ہے اور جو کبھی کبھار ہو جاتی ہے اس کے بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ جیسے چور چوری تو چھوڑ جاتا ہے‘ ہیرا پھیری نہیں چھوڑتا تو میری حالیہ شاعری کو ہیرا پھیری ہی سمجھنا چاہیے؛ چنانچہ شاعری چھوڑنے پر مجھے کوئی ایوارڈ یا میڈل ضرور ملتنا چاہیے‘ لیکن ابھی نہیں کیونکہ ابھی شاعری مکمل طور پر چھوڑی تو نہیں ہے اور ہیرا پھیری کا ایوارڈ اصولی طور پر بھی الگ سے ملنا چاہیے جیسے اس گویّے کو ملا تھا۔
اگر حاصلِ عمر ایوارڈ کے جج صاحبان واقعی یہ ایوارڈ کشور ناہید کو دینا چاہتے ہیں اور اس شش و پنج میں ہیں کہ ظفر اقبال سینئر ہے‘ اسے چھوڑ کر کشور کو کیسے دیں تو براہِ کرم وہ اِس کشمکش سے نکل آئیں اورکشورکو یہ ایوارڈ ضرور دیں‘ چشم ما روشن دلِ ماشاد۔ کشور کو دس ایوارڈ ملیں تو میں دس بار خوش ہوں گا۔ کشور تو وہ طوطا ہے جس میں میری جان ہے‘ اس طوطے کی ٹیں ٹیں سے جتنا میں خوش ہوتا ہوں اور کون ہوتا ہو گا۔ ویسے بھی‘ ایوارڈ عاشق کو مل جائے یا معشوق کو‘ ایک ہی بات ہے۔
اور جہاں تک جونیئر اور سینئر ہونے کا سوال ہے تو ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ منقول ہے کہ ایک مشاعرے میں جب جوشؔ ملیح آبادی اپنا کلام سُنا چکے تو ایک نوجوان شاعر آ دھمکا‘ مشاعرے کے منتظمین کو جس کی خاطر بے حد مطلوب تھی۔ بہرحال‘ سٹیج سیکرٹری نے ڈرتے ‘ جھجکتے اس شاعر کو دعوتِ کلام دی تو وہ مائیک پر آ کر کہنے لگا‘ جوشؔ صاحب کے بعد پڑھنے میں بڑی ندامت محسوس کر رہا ہوں‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس پر جوش صاحب بولے‘ ''برخوردار‘ اگر تم میرے بعد پیدا ہو سکتے ہو تو میرے بعد غزل کیوں نہیں پڑھ سکتے‘‘۔ سو‘ اگر فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید میرے بعد پیدا ہو سکتی ہیں تو مجھ سے پہلے ایوارڈ بھی کیوں حاصل نہیں کر سکتیں۔ اس لیے یہ جھگڑا ہی فضول ہے اور تقدیم و تاخیر کوئی خاص معنی نہیں رکھتی، بلکہ بعض لوگوں کا خیال تو یہ ہے کہ میرے کلام میں جو اُوٹ پٹانگ شاعری بھی موجود ہے اس کی وجہ سے جو ایوارڈ مجھے اب تک دیے گئے ہیں وہ بھی واپس لے لینا چاہئیں! یعنی لینے کے دینے پڑ جائیں۔
محمد سلیم الرحمن نے جو ایوارڈ لینے سے انکار کیا ہے تو اس کی معقول وجہ موجود ہے کہ اب تو انہیں حاصل عمر ایوارڈ دینے کا وقت تھا اور انہیں اس طرح چھوٹے سے ایوار پر ٹرخایا جا رہا ہے جو نوجوان لکھاریوں کو دیا گیا ہے۔ اکادمی والوں کو چاہیے کہ کسی نہ کسی طرح انہیں ایوارڈ وصول کرنے پرراضی کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ ہی ان کے لیے کوئی بڑا اور شایانِ شان ایوارڈ بھی تجویز کریں کہ یہ تو واقعی ان جیسے سینئر ادیب کے ساتھ ایک مذاق تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے طرحدار شاعر نذیر قیصر کو اس سلسلے میں جو شکایت ہے اسے بھی دور کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ ان کا تعلق اگر اقلیت سے ہے تو یہ بات تو ان کے کیس کو اور بھی مضبوط بناتی ہے۔ اور اب آخر میں یہ تازہ ہیرا پھیری‘ بطور خانہ پُری:
کبھی قرار، کبھی اضطراب میں ہونا
یہی ہے تیرے حساب و کتاب میں ہونا
کبھی کبھی تو حقیقت میں بھی وہ ممکن ہو
جو آئے روز ہی رہتا ہے خواب میں ہونا
جلا گیا ہے بہت سے دیے اُمیدوں کے
یہ کچھ دنوں سے ترا اجتناب میں ہونا
سمجھتا ہوں مجھے اچھا بھی کر گیا آخر
شروع سے مرا حالِ خراب میں ہونا
دراصل ساری چمک سی ہے تیرے ہونٹوں کی
یہ روشنی کا نہیں ماہتاب میں ہونا
ہمارے عیب زمانے پہ کر گیا ظاہر
یہ چند روز ہمارا حجاب میں ہونا
جواز بن گیا آخر ہماری ہستی کا
یہی ہمارا کسی کے حساب میں ہونا
ہزار خشک زمینوں کو کر گیا سیراب
یہ لہر لہر ہمارا سراب میں ہونا
پہنچنے ہی نہیں دیتا کسی نتیجے تک
ظفرؔ ہمارا سوال و جواب میں ہونا
آج کا مطلع
مہربانی نہ عنایت کے لئے دیکھتا ہوں
دیکھ سکنے کی اجازت کے لئے دیکھتا ہوں