امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے بھارت میں اپنے ہم منصب منوہر پاریکر سے ملاقات کے بعد حیران کن انکشاف کیا کہ '' دنیا سن لے، امریکہ بھارت کو اپنا اہم دفاعی شراکت دار قرار دیتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کا ایک دوسرے کا سٹریٹجک پارٹنر بننا تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے‘‘۔ امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونز نے ہمیشہ کی طرح الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ حقانی نیٹ ورک پاکستانی سر زمین استعمال کر رہا ہے۔ امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم اور افغان صدر اشرف غنی کی پاکستان پر الزام تراشی ایسے ہی بیانات سے جڑی ہوئی ہیں۔ مڈل ایسٹ اور عرب دنیا کو ادھیڑنے کے بعد سیاست، معیشت اور فوجی مداخلت کے ذریعے امریکہ نے چین کا راستہ روکنے کے لئے بر اعظم ایشیا کا رخ کر تے ہوئے بھارت کو پاکستان کی قیمت پر اپنے ساتھ ملا لیا کیونکہ چین اور پاکستان کے سی پیک پر یہ دونوں ملک سخت طیش میں ہیں۔ برطانیہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، سنگا پور، تائیوان، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور ملائشیا سمیت مشرق بعید کے ممالک بھی امریکہ کاساتھ دے رہے ہیں؛ چنانچہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا پاکستان پر دبائو بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ سی پیک ختم کر دے ورنہ اسے نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے چین کو یقین دلایا کہ'' فوج سی پیک کی حفاظت کی گارنٹی دیتی ہے‘‘۔
اب ایک طرف امریکہ چین کے گرد گھیرا تنگ کرتا جا رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کی کمر توڑنے کے لئے بھارت اور افغانستان کو آگے کر رہا ہے۔ بھارت نے گوادر اور سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لئے را کے موجودہ چیف راجندرکھنہ کی31 جنوری2017ء کو مدت ملازمت پوری ہونے پر اے کے داسمن کو سپیشل سیکرٹری کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے اس کا چیف تعینات کر دیا ہے جو پاکستان کے بارے میں نریندر مودی کی طرح راشٹریہ سیوک سنگھ سوچ کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ 15 اگست کو بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر نریندر مودی کی لال قلعہ دہلی میں کی جانے والی تقریر میں ہٹ دھرمی کی حد دیکھیے کہ وہ گلگت، بلوچستان اور پاکستانی کشمیر کے لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے لئے اپنے ساتھ رابطہ رکھنے والوں کو یقین دلاتا ہوں کہ صرف نریندر مودی ہی نہیں بلکہ پورا بھارت ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ مودی کی اس تقریر کے بعد اے کے داسمن کو را کا نیا چیف اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ وہ گوادر اور بلوچستان کے امور کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔
مدھیہ پردیش انڈین پولیس سروس کے1981ویں گروپ سے تعلق رکھنے والے داسمن کو بلوچستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک تیارکرنے، چلانے اور اسے پھیلانے کی خصوصی مہارت حاصل ہے۔ وہ اپنی سابق تعیناتیوں کے دوران بلوچ تخریب کاروں، علیحدگی پسندوں اور سیاستدانوں سے قریبی رابطوں میں رہتے ہوئے ان کی سر پرستی کرتا رہا ہے۔ اپنی اسی کارکردگی کی وجہ سے انڈین پولیس سروس میں اسے Baloch Specialist کہا جاتا ہے۔ اس شخص کے پروفائل میں درج ہے کہ اسے کائونٹر ٹیررازم، اسلامک افیئرز، افغانستان اور پاکستان کے معاملات میں استاد کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے علا وہ اسے خفیہ اداروں میں سارک اور یورپ کے ڈیسک پرکام کرنے کا بھی وسیع تجربہ ہے۔ داسمن کی تعیناتی پر خبر رکھنے والوں میں سر گوشیاں شروع ہو رہی ہیں کہ اس تعیناتی کے پیچھے نریندر مودی کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کا ہاتھ ہے، گویا یک نہ شد تین شد کیونکہ مختلف سیمینارز سے خطاب میں اجیت دوول ایک ہی بات پر زور دیتا رہا ہے کہ پاکستان کی تباہی اس کی زندگی کا مقصد ہے۔ لہٰذا پاکستان کی سلامتی کے اداروں کو جان لینا چاہیے کہ نریندر مودی، اجیت دوول اور داسمن کی مثلث پاکستان کی سلامتی کے خلاف اہم پیش رفت کا پتا دے رہی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی گوادر اور سی پیک کے خلاف بھارت کے سٹریٹیجک پارٹنر بن چکے ہیں اور اسے تقدیر کا لکھا ہوا کہہ رہے ہیں!مدھیہ پردیش پولیس سروس سے تعلق رکھنے والے اے کے داسمن فرینکفرٹ (جرمنی) کے بھارتی سفارت خانے میں بحیثیت قونصلر اور پھر فرینکفرٹ میں ہی بطور منسٹر تعینات رہے، اس کے
بعد لندن کے بھارتی ہائی کمیشن میں انٹیلی جنس کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ جنرل مشرف کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے دوران اور اس کے بعد گوادر پورٹ کے تعمیراتی کاموں میں 6 سال کا جو طویل وقفہ آیا اس میں داسمن کاہاتھ بتایا جاتا ہے۔ اب اسی شخص کو را کا نیا چیف متعین کرنے کا یہی مقصد ہے کہ گوادر پورٹ اور سی پیک کی تعمیر روکنے کے لئے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی تحریکوں کو مزید تیز کیا جائے۔ پاکستان حکمرانوں اور دوسرے تمام ذمہ داروں کواب شک میں نہیں رہنا چاہی کہ بھارت، افغانستان، برطانیہ اور امریکہ کا پلان ''ٹارگٹ بلوچستان اور کراچی‘‘ ہے۔
بھارت میں معمول ہے کہ را کے چیف کی تعیناتی دو برس کے لئے کی جاتی ہے اور اگر کسی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنی ہو تو اس کے لئے بھارتی وزیر اعظم کی منظوری لی جاتی ہے، جیسا کہ را کے پہلے چیف کائوکو 1971ء میں بنگلہ دیش بنانے کے اعتراف میں توسیع دی گئی۔ اے کے داسمن کو دو سال کے لئے تعینات کرتے ہوئے نریندر مودی نے یقین دلایا ہے کہ اگر وہ خود کو سونپے گئے مشن (گوادر، بلوچستان، سی پیک) میں کامیاب ہوا تو اسے مزید دو سال کی توسیع دی جائے گی۔گوادر اور سی پیک امریکہ اور بھارت کے لئے زندگی اور موت کا ایسا مسئلہ بن چکے ہیں کہ انہوں نے اسے تیسری عالمی جنگ کا درجہ دے رکھا ہے۔
امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور بھارت گوادر اور سی پیک کے خلاف اس طرح تانے بانے بننے میں مصروف ہیں جیسے اس کی تکمیل سے دنیا کسی بہت بڑی تباہی سے دو چار ہونے جا رہی ہے۔ 7 جولائی 2016ء کو کینن ہائوس بلڈنگ کے کمرہ نمبر121 میں چین پاکستان کے اکنامک اور ڈیفنس تعلقات پر یورپی یونین کے نائب صدر Ryszard Czarneck نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''بلوچ عوام کی رضامندی کے بغیر فوج اور پولیس کی طاقت کے زور پر پاکستان گوادر پورٹ تعمیر کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا پراجیکٹ ہے جس کے ساتھ منسلک ریلوے، تیل اور گیس کی پائپ لائنیں اور سڑکیں چین کے لینڈ لاکڈ صوبے XUAR کے شہر کاشغر کو دنیا بھر سے ملا دیںگی‘‘۔ پاکستان کے خلاف غصے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ سی پیک کی سڑکوں کے لئے فوج گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کے گھروں سے زبردستی بے دخل کر رہی ہے۔ اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے حسین حقانی نے مطالبہ کیا کہ گوادر پورٹ اور سی پیک چونکہ بلوچ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ہے اس لئے فوجی مداخلت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر پاکستان پر عالمی دبائو بڑھایا جانا چاہیے۔
اس پس منظر میں پاکستان کی مقتدر طاقتوں کو افغانستان کے آگ برساتے لہجے، بھارت کی بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں شدت اور امریکہ کی ان دونوں ملکوں کو اپنا سٹریٹیجک پارٹنر بناتے ہوئے چین کے سمندری راستوں کی ناکہ بندی کی تیاریوں کے حوالے سے آنکھیں کھلی اور ذہن بیدار رکھنا ہوگا!