تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     18-12-2016

ملتان کی بلدیاتی سیاست اور مسلم لیگیوں کا دھرنا

پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور اب چار پانچ دن بعد ہونے والے چیئرمینوں اور ناظمین کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی ساری لگام حمزہ شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے اور صورتحال ایک ایسے پنجابی محاورے کے عین مطابق ہے کہ قلم لکھنے اور اخبار چھاپنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا اس محاورے سے درگزر ہی مناسب ہے۔ لاہور میں خواجہ حسان کی چھٹی بارے بڑی قیاس آرائیاں ہیں لیکن اصل معاملہ صرف یہ ہے کہ تخت لاہور میں میاں صاحبان کسی ایسے فرد کی موجودگی برداشت کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں جسے لوگ اس کے نام سے جانتے یا پہچانتے ہوں۔ خواجہ حسان کا اپنا کبھی ایک نام تھا اور میئر لاہور کی حیثیت سے وہ اس نام سے تھوڑی اور شہرت کما سکتا تھا اور میاں صاحبان کو قطعاً قبول نہیں کہ لوگ ان کے نامزد فرد کو اس کے ذاتی نام و نشان سے پہچانیں۔ لہٰذا میاں صاحبان نے فیصلہ کیا کہ خواجہ حسان کو اب مزید بانس پر نہ چڑھایا جائے۔ سو، انہوں نے ایک اور گمنام ٹائپ خادم کو لاہور شہر کی امارت کے لیے نامزد کر دیا۔ رہے نام اللہ کا۔
ملتان میں صورتحال بڑی عجیب ہے۔ ضلع کونسل میں بادشاہت نما جمہوریت کے فیصلوں کے طفیل صورتحال یہ ہے کہ ضلعی نظامت کے امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے ہیں اور مسلم لیگ ن کے پاس کورنگ امیدوار نہیں۔ اگر ہائی کورٹ سے حکم امتناعی وغیرہ کا بندوبست نہیں ہوتا تو مقابلہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں ہوگا۔ پتا نہیں ہوتا بھی ہے یا نہیں، یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ ضلعی نظامت کے معاملے کی تفصیل آئندہ‘ فی الحال تو جو ہوتا رہا ہے اس پر تھوڑی روشنی ہو جائے۔
میاں صاحبان نے پہلے بڑے زور و شور سے اعلان کیا کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے منتخب ارکان کے بھائی‘ بیٹے‘ بیٹیاں‘ بھتیجے، بھانجے وغیرہ شہری و ضلعی حکومتوں میں عہدے حاصل نہیں کر سکیں گے۔ جیسے ہی یہ اعلان ہوا میرا ماتھا اسی وقت ٹھنکا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے، خود مرکز میں وزارت عظمیٰ کے مزے لینے والے، چھوٹے بھائی کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ بخشنے والے‘ سمدھی کو وزیر خزانہ بنانے والے میاں نواز شریف کے اپنے اور سسرالی رشتہ داروں کی ایک خاصی معقول تعداد اقتدار کے مزے لے رہی ہے۔ ان کا بھتیجا حمزہ شہباز ممبر قومی اسمبلی ہے۔ ایک بھانجا عمر سہیل بٹ ایم این اے اور دوسرا خرم سہیل بٹ ایم پی اے ہے، بیگم کا بھتیجا محسن لطیف پی پی147 سے ایم پی اے رہا، بیگم صاحبہ کا ایک اور بھتیجا بلال یٰسین ایم این اے ہے۔ میاں نواز شریف کا ایک اور انتہائی قریبی عزیز عابد شیر علی وفاقی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی ہے۔ دیگر کئی اور عزیز بھی مختلف حیثیتوں میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور ہاں یاد آیا، میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر بھی ایم این اے ہیں، یہ اور بات کہ آج کل انہیں کسی سرکاری دفتر میں بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں؛ تاہم یہ معاملہ چونکہ گھر کا ہے اس لیے اس پر روشنی ڈالنا مناسب نہیں۔ مریم نواز شریف بھی نوجوانوں کو قرضے فراہم کرنے والے سرکاری منصوبے کی سربراہ تھیں؛ تاہم بیچ میں عدالت نے کھنڈت ڈال دی اور فارغ کروا دیا۔
اب بھلا اتنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی فوج ظفر موج کے اقتدار میں شمولیت کے بعد میاں صاحبان اخلاقی طور پر کس ایم این اے یا ایم پی اے کو اپنے رشتہ داروں کو بلدیاتی اداروں میں عہدوں کے حصول سے روک سکتے تھے؟ وہی ہوا جو ہوتا آ رہا ہے، تقریباً ہر تگڑے ایم این اے‘ ایم پی اے اور وزیر مشیر نے اپنے اپنے گھر میں بلدیاتی عہدوں کی تقسیم کیا اور بنیادی جمہوریت کے تصور کو ''پھیتی پھیتی‘‘ کر کے رکھ دیا۔ ملتان میں سب کچھ دوبارہ گھوم پھر کر دس بارہ ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کے گھر میں واپس آ گیا ہے۔
ضلع کونسل کے لیے نامزد چیئرمین (فی الحال کاغذات مسترد ہیں) دیوان محمد عباس جلال پور کے سابق ایم این اے (بوجہ نااہلی سابق ہوئے) دیوان عاشق حسین کے فرزند ارجمند ہیں (باقی سٹوری آئندہ۔) ان کے ساتھ دیگر چار وائس چیئرمینوں میں ایک رانا شہزاد مسلم لیگ نون کی طرف سے شجاع آباد کے ایم پی اے رانا اعجاز نون کا بھائی ہے۔ دوسرا وائس چیئرمین شجاع آباد کے ایم این اے جاوید علی شاہ کا سگا بھائی واجد علی شاہ ہے‘ تیسرا وائس چیئرمین ذوالفقار ڈوگر ملتان کے حلقہ این اے 148 سے جعلی ڈگری پر منتخب ہونے والے ایم این اے غفار ڈوگر کا بھائی جبکہ چوتھا امیدوار سرفراز ملک واحد شخص ہے جو کسی ایم این اے یا ایم پی اے کا رشتہ دار نہیں۔ تاہم وہ ملک سکندر بوسن کا نامزد کردہ امیدوار ہے۔
ملتان شہر میں بھی یہی حال ہے۔ میئر کا امیدوار نوید آرائیں سابق وزیر جیل خانہ جات (نااہل شدہ) چوہدری وحید آرائیں کا چھوٹا بھائی ہے جبکہ ڈپٹی میئرز کے لیے نامزد امیدواروں میں سے ایک حاجی سعید انصاری ہے جو نہ صرف خود بھی سابق ایم پی اے ہے بلکہ حلقہ پی پی 195 سے موجودہ ایم پی اے عامر سعید انصاری کا والد ہے۔ دوسرا امیدوار سابق صوبائی وزیر اوقاف اور حالیہ ایم پی اے احسان الدین قریشی کا بیٹا منور احسان قریشی ہے۔ اب آپ خود بتائیں کہ ضلعی اور شہری حکومت کی کل آٹھ سیٹوں میں سے چار بھائیوں‘ دو بیٹوں اور ایک باپ کے ساتھ سات سیٹوں پر قریب ترین رشتہ دار امیدوار ہیں۔ یہ ہماری بنیادی جمہوریت ہے۔ اگر یہ جمہوریت ہے تو پھر بادشاہت کیا ہے؟
ملتان میں مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن میں جو گھڑمس مچا تھا وہ بھی ایک سٹوری ہے۔ ملتان میں بلدیاتی الیکشن کے بعد جب مخصوص نشستوں کے الیکشن کا موقع آیا تو مسلم لیگ کے بعض مخلص کارکنوں کو بھی خوشخبری سنائی گئی کہ ان کو ان نشستوں پر منتخب کروایا جائے گا۔ اڑسٹھ یونین کونسلوں پر مشتمل ملتان کی شہری حکومت کے ایوان میں مسلم لیگ نون کو براہ راست مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر یا آزاد جیت کر بعد میں نون لیگ میں شامل ہونے والے چیئرمینوں کے اسی فیصد سے زائد ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ ایسی صورت میں مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ نون کے امیدواروں کی جیت کا تناسب بھی اسی حساب سے روشن تھا۔
حمزہ شہبازشریف نے ملتان شہر کی بلدیاتی سیاست میں سرگرم قومی اسمبلی حلقہ 149 سے مسلم لیگ نون کے ہارے ہوئے امیدوار طارق رشید‘ سابق ایم پی اے و وزیر چوہدری وحید آرائیں میئر کے امیدوار (تب تک) سعید انصاری‘ سابق وزیر و موجودہ ایم پی اے احسان الدین قریشی اور مسلم لیگ نون کے رہنما ملک انور علی اور رانا شاہد الحسن کو اور ساتھ ہی ٹینکوکریٹ سیٹ پر اپنے امیدوار بلال بٹ کو لاہور بلایا اور سختی سے ہدایت کی کہ بلال بٹ کو ہر حال میں جتوایا جائے۔
پنجاب میں بلدیاتی امیدواروں کی قسمت کے فیصلے کا اختیار جس کمیٹی کو تھا اس کا سربراہ یعنی چیئرمین پبلک افیئرز یونٹ حمزہ شہباز تھا، اس کے ساتھ دیگر ممبران میں سعود مجید‘ ندیم کامران‘ منشا اللہ بٹ‘ مہر اشتیاق ایم این اے اور ایڈیشنل سیکرٹری ٹو سی ایم عطا اللہ تارڑ تھے۔ اس کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ ملتان سے ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر بلال بٹ‘ لیبر کی سیٹ پر عمر فاروق بھٹی اور خاتون سیٹ پر صائمہ آصف مسلم لیگ نون کے امیدوار ہونگے۔ ملتان میں مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ نون کی طرف سے صرف یہی تین ٹکٹ جاری کیے گئے اور یہ تینوں امیدوار بری طرح ہار گئے۔
بلدیاتی الیکشن میں ہی ملتان کے مختلف ایم پی اے اور مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے اپنے اپنے گروپ بنا لیے اور اسی گروپنگ کے تحت الیکشن لڑے۔ چوہدری وحید ارائیں نے اپنا گروپ کھڑا کیا اور سعید انصاری نے اپنا۔ بعد میں مختلف لوگ آپس میں اکٹھے ہو گئے اور اپنے اپنے گروپ بنا لیے۔ مثلاً UC-20 میں وحید ارائیں نے رانا افضل کو زیبرے کے نشان پر الیکشن لڑوایا اور حاجی احسان و طارق رشید نے مرزا عبدالرحمان کی حمایت کی، دونوں ہار گئے اور آزاد امیدوار شیخ عمران ارشد جیت گیا۔ اب اسی ہارے ہوئے رانا افضل کو وحید ارائیں نے اپنا امیدوار برائے ٹیکنو کریٹ سیٹ کھڑا کر دیا۔ دوسری طرف حاجی احسان ‘ سعید انصاری اوررانا محمود الحسن نے چوہدری جہاں زیب کو اپنا امیدوار بنالیا۔ مسلم لیگ ن کا اصل امیدوار بلال بٹ تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ ٹیکنو کریٹ کی دو سیٹوں پر چودھری جہاں زیب 23 اوررانا افضل 21 ووٹ لے کر جیت گئے اور بلال بٹ بارہ ووٹ لے کر ناکام ہو گیا۔
شہر ملتان میں کل 23 مخصوص نشستوں میں سے مسلم لیگ ن 9 سیٹوں پر ہار گئی۔ ان میں سے چھ سیٹیں پی ٹی آئی کے حصے آئیں اور تین پر آزاد امیدوار (جن کو مسلم لیگ ن کے ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل تھی) جیت گئے۔ دوسری طرف ضلعی حکومت کی مخصوص سیٹوں کی ٹیکٹیں خود مسلم لیگ کے ضلعی صدر بلال بٹ نے تقسیم کیں اور پچیس میں سے چوبیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ دراصل مسلم لیگ ن ملتان کے چوہدریوں کو شبہ تھا کہ ضلعی صدر بلال بٹ اگر مخصوص نشست پر سٹی گورنمنٹ کا رکن منتخب ہو گیا تو اسے شہر کا میئر یا ڈپٹی میئر نہ بنا دیا جائے۔ ادھر عالم یہ تھا کہ ہر رکن اسمبلی اور ہر شکست خوردہ رکن اسمبلی اپنے اپنے بیٹے، بھائی اور باپ کو امیدوار بنائے بیٹھا تھا۔ ایسے میں بلال بٹ کی دال کیسے گلتی؟ دوسری طرف مجھے یہ بھی شبہ ہے کہ حمزہ شہباز اندر خانے چوہدری وحید ارائیں وغیرہ سے ملا ہوا تھا کہ اس نے سب لوگوں کو زبانی حکم تو دیا کہ اگر بلال بٹ کو کامیاب نہ کروایا تو وہ ان کے خلاف ایکشن لے گا مگر ہوا اس کے بالکل الٹ اور بلال بٹ کے مقابلے میں آزاد امیدواروں کو جتوانے والے وحید ارائیں کے بھائی کو میئر کا ٹکٹ دے دیا اور دوسرے آزاد امیدوار کے حمایتی حاجی احسان کے بیٹے اور سعید انصاری کو ڈپٹی میئر کا امیدوار نامزد کر دیا۔ بلال بٹ کے حامی مسلم لیگیوں نے چوک کچہری پر سات دن تک احتجاجی کیمپ لگایا مگر بالآخر مایوس ہو کر ساتویں دن اپنا احتجاجی کیمپ بالکل اسی طرح شرمندہ ہو کر اٹھا لیا جس طرح عمران خان نے اپنا دھرنا ختم کیا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved