تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     19-12-2016

دریوزہ گر

ظالم اس کے باوجود گوارا ہیں، اس لیے کہ دانشور خود بھی دریوزہ گر ہیں۔ خود بھی مصلحت اور مفاد کے مارے ہوئے ؎
گوارا ہے‘ اسے نظارِہ غیر
نِگہ کی نا مسلمانی سے فریاد
ابھی ابھی ایک تصویر ملی ہے۔ رحیم یار خان کے ہوائی اڈے سے‘ مولانا فضل الرحمن کو ایئرفورس کے طیارے میں سوار ہوتے دکھایا گیا ہے۔ دوسری میں‘ ایک وسیع و عریض دستر خوان بچھا ہے‘شاید اسی عالم پرواز میں۔ ایک پنج ستارہ ہوٹل کی رسید ہے۔ بلوچستان کے شہر‘ پشین میں وزیراعظم براجے تو ایک وقت کے کھانے پر‘ دس ہزار روپے فی کس ادا کئے گئے۔ کیا یہ تصاویر اور رسید جعلی ہیں؟اصل ہیں تو سوال یہ ہے کہ یہ سب کیاہے؟ سرکاری ہسپتال میں مریض کو‘ ڈسپرین کی گولی بھی نہیں ملتی۔یہ طرزِ زندگی کیا شرمناک نہیں؟ 
لاہور کے اقبال پارک کا افتتاح فرمایا تو اپنے کارنامے سنائے اور اپنے بھائی کی تعریف کی۔ مبارک بادیں‘ حمزہ شہبازوصول کرتے رہے کہ یہ ان کا حلقہ انتخاب ہے۔ پنجابی کی کہاوت ہے : اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنوں کو۔
بازاربھکاریوں سے بھرے ہوئے۔ داتا دربار میں بھوکوں کا ہجوم۔ سرکاری ہسپتالوں میں بلکتے‘ بلبلاتے مریض۔بھوک اور ننگ کے اس دیار میں‘ عوامی خزانے سے لقمہ تر اور ایسا لقمہ تر!دل اتنے اندھے کیسے ہو جاتے ہیں؟
عمر فاروق اعظمؓ اور سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کی مثالیں بیان کرتے‘ اب جھجک آ لیتی ہے۔ کوئی فائدہ نہیں‘ کچھ حاصل نہیں۔ واقعات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ مغرب کے عام حکمرانوں سے بھی بدتر۔ ایسی عیاشی کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا ارشاد یہ ہے : جس بستی میں کوئی بھوکا سو رہا‘ اللہ اس بستی کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں۔ جمہوریت کے نام لیوا‘ امن اور استحکام کے علمبردار‘ سرکاری اور نیم سرکاری اخبار نویس‘ کیا یہ سب کچھ نہیں دیکھتے؟ بجاارشاد کہ دراصل ملک کو عدم استحکام سے بچانے کے لیے‘ جہاد کا علم آپ نے اٹھا رکھا ہے۔ مان لیا کہ آپ ہی سچے اور ہم خطاکار ہیں‘ مغالطے کا شکار۔ وزراء کے قصیدے کہنے میں آپ کا قلم کیسا رواں ہوتا ہے۔ لاہور میں علماء کرام کی نسبی اور معنوی اولاد‘ ان دنوںایک سابق وزیر کے لیے بے چین ہے کہ پھر سے منصب اسے عطا ہو۔ دو چار لفظ‘ ایک آدھ جملہ‘ کوئی قول اور فرمان ان کے لیے بھی‘ راتوں کو بھوک جنہیں سونے نہیں دیتی۔ دنوں کے اجالے اور راتوں کی سیاہی کا امتیاز جن کے لیے ختم ہو چکا۔ زندگی جن کے لیے ایک طویل سیاہ شب ہو گئی۔ جس کا کوئی کنارہ نہیں‘ کوئی سویر نہیں۔ تاریکی ہے اور افق تابہ افق ہے۔ کہیں کوئی کرن نہیں جھلملاتی‘ کہیں کوئی امید نہیں جگمگاتی‘ جن کے لیے کوئی روزن‘ اس زنداں میں نہیں۔
ان کی خاموش بددعائیں‘ ان کی ویران آنکھوں اور بھوکے پیٹوں کی فریاد کیا کبھی نہ سنی جائے گی؟ ایک دن جب وہ منہ کے بل آ گریں گے تو تم لوگ کیا کرو گے؟گرتے گرتے کچھ لوگ اس قدر نیچے آ گرے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ ان میں سے ایک نے لکھا ہے : اپنی پوری تاریخ میں‘ مسلمانو ں کی کوئی ایک ایجاد بھی نہیں۔ دس عدد تو یہ ناچیز پاکستانی سائنس دانوں کی گنوا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک ایسی ہے کہ تکمیل کو پہنچی اور انشاء اللہ جلد پہنچے گی تو پاکستان کی سرحدیں‘ لاکھوں فٹ کی بلندی تک فولاد کی دیوار ہو جائیں گی۔ بے شک یہ ہمارا دور زوال ہے۔ بجا کہ ہم افتاد میں مبتلا ہیں۔ دوسری چیزوں کے علاوہ‘ ان حکمرانوں کے طفیل بھی‘ جن کا دفاع آپ کی عبادت ہے۔ اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ پوری امت ہی کی توہین کی جائے؟ اس کا تمسخر اڑایا جائے؟ صرف اس لیے کہ آپ کے آقا اپنی روایات سے بیزار ہیں۔ مغرب ہی نہیں برہمن سے بھی مرعوب۔ ان کے نقطہ نظر سے‘ اپنے وطن کو جانچنے والے ۔کمتری کا احساس کیسی ہولناک چیز ہے۔ خود پہ اعتبار جاتا رہتا ہے اور اپنے خالق پر بھی ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے‘ قوموں کا ضمیر
کیا یہی وہ قوم نہیں‘ جس نے قائداعظمؒ اور اقبالؔ ایسے لیڈر جنے تھے۔ کئی اعتبار سے‘ تین سو سالہ جدید تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی مدبر۔ کئی اعتبار سے‘ تاریخ کا عظیم ترین شاعر۔ کیا زوال کے اس عہد میں‘ اس نے سائنس دانوں کی ایسی ٹیم پیدا نہیں کی کہ مغرب کی سرپرستی کے باوجود اس دشمن کو حقیر بنا دیا۔ دولت مندی میں سات گنا جو بڑا ہے۔
کبھی اسی ملک کے سرکاری اداروں سے‘ ٹاٹ پر تعلیم پانے والوں میں سے‘ وہ لوگ اٹھا کرتے‘ دنیا کے بہترین سول سرونٹس کا جو مقابلہ کر سکتے۔ ڈاکٹر اور انجینئر‘ سارے عالم میں جنہوں نے ملک کا نام اجاگر کیا۔ غلام اسحق خاں اور چوہدری محمد علی۔ درس گاہیں برباد ہو گئیں۔ عمارتوں اور دلوں میں اگر خاک اڑتی ہے تو ذمہ دار کون ہے؟یہ بھی کسی کو سوجھتا نہیں کہ سرکاری سکولوں میں شام کی پڑھائی شروع کر دی جائے تو کروڑوں بچے بربادی سے بچ جائیں۔
اوکاڑہ کے ایک گائوں سے کسی نے رابطہ کیا۔ کینسر کا ایک مریض ہے‘ بے بس و لاچار۔ بچیاں کمسن اور ناخواندہ۔ کچھ بندوبست آسانی سے ہو گیا۔ کچھ دن کے بعد فون کیا۔ معلوم ہوا کہ مریض چل بسا۔
پھر کیا ہوا؟ محلے کی عورتیں جمع ہوئیں۔ نیم خواندہ‘ سادہ سی گھریلو خواتین۔ انگلیوں پر انہوں نے حساب لگایا کہ پسماندگان کو کیا کچھ درکار ہو گا۔ آٹا‘ چینی‘ چائے‘ صابن اور گھی۔ اپنے گھروں سے وہ اٹھا لائیں۔ وہ چھوٹی سی رقم‘ انہوں نے پوچھا ۔اس کا کیا کریں۔پسماندگان پہ کیا صرف کی جا سکتی ہے؟ پھر انہوں نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔ بچیوں کے لیے سونے کی چھوٹی چھوٹی بالیاں بنوائیں کہ یتیمی اور بے بسی کا احساس ان کے دلوں کو ویران نہ کر دے۔ باپ اگر قبر میں جا سویا ہے۔ ماں اگر بستر سے لگی ہے تو کوئی ہاتھ ہونے چاہئیں جو ان کے کندھوں پر دھرے رہیں۔ جب تک تعلیم مکمل نہ ہو جائے۔ جب تک اپنے قدموں پر وہ کھڑی نہ ہو جائیں۔ سر اٹھا کرجینا سیکھ لیں۔ الفت اور انس انہیں عطا ہو کہ دلوں میں درد کی دولت باقی بچ رہے۔ باوقار زندگی انہیں بخشی جائے کہ کل کسی اور کا سہارا بن سکیں۔
اللہ کا شکر ہے کہ بگڑے تگڑے اس سماج میں درد کی دولت آج بھی باقی ہے۔ گوجرانوالہ میں ایک دوست سے پو چھا! ہر چند ابھی تو نہیں، ضرورت پڑی تو کیا ہر ماہ کچھ روپے انہیں بھجوا دیا کرو گے؟ بچوں کی سی بے ساختگی اور معصومیت سے، شہر کے کچھ کاروباریوں کی کہانی اس نے کہی۔ محلّے کی بیوہ خواتین کی فہرست بنائی گئی۔ ہر ماہ درس قرآن کا اہتمام ہوتا ہے۔ سب کے سب وہ مل بیٹھتے ہیں۔ مودبانہ عطیات ان کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ ''ہر ماہ‘ ان میں سے ایک آدھ کہتی ہے کہ اس کا نام فہرست میں سے خارج کردیا جائے‘‘۔ اس نے کہا۔
یہ ہے وہ ملک ‘ ادیب رضوی جیسا آدمی‘ جس میں پایا جاتا ہے۔ہزاروں یا لاکھوں اعدادوشمار اب بے معنی ہوگئے۔کتنے بے شمار مریضوں کا اس نے اور ان کے ساتھیوں نے درماں کیا ہے۔ریڈ اور غزالی فائونڈیشن ‘ تعمیر ملتِ فائونڈیشن‘اسی سرزمین میں کارفرما ہیں۔ الخدمت اور سب سے بڑھ کر اخوت۔ اٹھارہ لاکھ بے روزگاروں کو جوروزگار دلا چکی۔
حکمرانوں کو یہ توفیق کیوں نہیں ؟اس لیے کہ وہ ہمارے اعمال کی سزا ہیں۔ ہم نام نہاد دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، اخبار نویسوںاور سیاسی کارکنوں اور راتوں رات اپنی دولت دوگنا کرنے کے لیے آرزو مند تاجروںکے طفیل۔ ان تاجروں کا سرپرست کون ہے؟۔ بجلی کے قحط میں‘ شام ڈھلے دوکانیں بند کرنے سے جب وہ انکار کر دیتے ہیں تو کون ان کی مدد کرتا ہے؟ ٹیکس ادا کرنے سے جب وہ انکار کرتے ہیں تو کون ان سے یہ کہتا ہے کہ چپکے سے تین فیصد ادا کرکے‘ حرام کو حلال میں تم بدل سکتے ہو۔ شہر کے فٹ پاتھوں پر دکاندار قابض ہیں یا نہیں؟ عصررواں کے شیرشاہ سوری کو دکھائی نہیں دیتے؟ دنیا کا شاید یہ واحد ملک ہے، سرکاری سکولوں کی تعداد‘ جس میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ بھارت ایسے دولت کی پوجا کرنے والے معاشرے میں طلبہ کو دوپہر کا کھانا دیا جاتا ہے۔ شاید یہ واحد ملک ہے، جہاں طلبہ اور مریضوں کے لیے مختص رقوم کا قابل ذکر حصہ سرکاری خزانے کو واپس کر دیا جاتا ہے۔ مگر سڑکوں اور پلوں کا بجٹ پورا لگتا ہے۔ کمال ذمہ داری اور پوری مستعدی سے ۔ کشمیر میں ایک قیامت برپا ہے‘ اس کے ذکر سے لیڈر لوگ جھجکتے ہیں‘ جیسے ہندو عورت خاوند کا نام لینے سے۔ سب کے سب‘ سرکاری ہی نہیں غیر سرکاری بھی۔ باغی بھی‘ نئے پاکستان کے علمبردار بھی۔ خدا کی پناہ مولوی صاحب کو کشمیر کمیٹی تحفے میں دے دی گئی ۔ ہر موضوع پر چیختے رہنے والوں کو ایک جملہ‘ اس پر نصیب نہیںہوتا۔
ظالم اس کے باوجود گوارا ہیں، اس لیے کہ دانشور خود بھی دریوزہ گر ہیں۔ خود بھی مصلحت اور مفاد کے مارے ہوئے ؎
گوارا ہے‘ اسے نظارِہ غیر
نِگہ کی نا مسلمانی سے فریاد

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved