تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     19-12-2016

تلور سے مکالمہ

میرے گھر سے گولڑہ شریف چار منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے۔ مزید 14منٹ کی ڈرائیو پر مارگلہ ہلز کی ٹاپ آ جاتی ہے۔ اس ٹاپ پر اعوان قبیلے کے دوگائوں آباد ہیں، صدیوںکے آباد صدیوں کے غریب۔ پہلا گائوںکینتھلاکہلاتا ہے اور دوسرے کا نام ہے کوٹ جنداں۔ کینتھلا کی پہاڑی کے تین حصے ہیں۔ خانپور ڈیم اورگائوں کی طرف جانے والی کچی سڑک کی بائیں طرف پنجاب کی تحصیل ٹیکسلا واقع ہے۔ دائیں طرف کا آدھا پہاڑ اسلام آباد کاحصہ ہے جبکہ مارگلہ ہلز فائر لائن کے اوپرکا آدھا پہاڑ کینتھلا، علاقہ ہزارہ کے پی کے کا حصہ ہے۔ یہ ہائکنگ اور واک کے لیے میری سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ ہے۔
اگلے روز ٹیکسلا، ہزارہ اور اسلام آباد والے مارگلہ کے سنگم پر آخری چڑھائی میں زوردار بریک لگاناپڑگئی۔ وہ سامنے سینہ تان کرکھڑاتھا۔ پچھلی گاڑی نے بڑی مشکل سے بریک لگائی۔ میں نے ہارن بجایا جس پر وہ مزید بگڑگیا، اس کا موڈ لڑائی والا تھا۔ میں نے گاڑی کا انجن بند کردیا۔ ذہن میں یہ تھا کہ یہ اس جانباز کا علاقہ ہے، لہٰذا پہلے گزرنے کا حق یعنی (First right of way ) اسی کا ہے۔ میری اس دوستانہ نرمی سے فائدہ اٹھانے کی بجائے وہ سڑک کے درمیان مزید تن کرکھڑا ہوگیا۔ سٹاف کے لڑکوں نے پچھلی جیپ سے اترکر اس کی طرف دوڑنا چاہا جن کو میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ کئی منٹ گزرگئے، وہ خاموش تھا اور میں چپ چاپ بلکہ حیران بھی۔ میں نے اپنالائسنسی (بریٹا) سائیڈ والی جیب میں ڈالا، گاڑی سے نیچے اترا اوراللہ کا نام لے کر اس کی طرف چل پڑا۔ مشکل سے 10فٹ کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اس نے چیخ کرکہا کہ جہاں کھڑے ہو وہیں رک جائو، آگے مت بڑھنا۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی بات کرتا وہ چیخ کر پھٹ پڑا۔ اس کی آواز اس کے قد کاٹھ اور سائز سے کئی سوگنا اونچی تھی۔کہنے لگا، جانتے ہو اس ملک میں جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ قربانی ہم نے دی ہے۔ پھر چیخ کر بولا، تم انسان لوگ قربانی لینا جانتے ہو قربانی دینا نہیں۔
میں نے پھر بولنے کا ارادہ کیا، وہ پھر چیخ اُٹھا۔ آج بھی دیکھ لو، ہم سے زیادہ جمہوریت بچانے کے لیے قربانی کون دے سکتا ہے۔ پھر بڑے فخر سے سر اونچا کرکے کہنے لگا، میں تلور ہوں، وہ والا تلور جس کی قربانی کی وجہ سے تمھارے حکمرانوں کے محل ایل این جی پر چلتے ہیں۔ ان کے مشکل دن سرور پیلس میں گزرتے ہیں۔ میں نے ہمت کرکے کہہ ہی دیا، اس میں میرا کیا قصور، میں نے کبھی تلور نہیں مارا۔ کہنے لگا، ہاں ہاں معصوم انسانو! سارے کا ساراقصور تو ہمارا ہی ہے جوتمھاری فصل ربیع کو صاف کرنے، چنے کے کھیت سے زہریلے کیڑے ختم کرنے اور تمھیں زرمبادلہ کے ریال سے نوازنے کے لیے لاکھوں کلومیٹر دور سائیبریا سے اُڑکر یہاں آتے ہیں۔ وہ سخت غصہ میں لگ رہا تھا، بولتا ہی چلا گیا۔ جانتے ہو تمھارے حکمران میرے نام پر کیا کیا ڈرامے کرتے ہیں؟ وہ پھر پھٹ پڑا ۔ کہنے لگا، یہ فرضی نمائشی منصوبے بناکر لوگوں کو جھانسہ دیتے ہیںکہ وہ میری نسل بڑھانے میں بہت سنجیدہ ہیں، لیکن ان کی پرندہ دوستی کی اصل حقیقت میں تمھیں کھول کر بتاتا ہوں۔ جومریل سا مریض قسم کا شکاری کلیسٹرول، شوگر، یورک ایسڈ اورجوڑوں کے درد کی وجہ سے تلورکے گوشت کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا وہ 1000/1200سے کم تلور مارنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے کیونکہ ان کو تلور کے گوشت سے زیادہ اپنے فیس بک کی فکررہتی ہے، جس پر نوکروں کے مارے ہوئے پرندوں کے ڈھیر کے درمیان یہ بندوق پکڑ کر فوٹوبنواتے ہیں اور پھراس کو فیس بک پر لگا دیا جاتاہے۔ ساتھ کہتے ہیں میرا تازہ شکار!
مجھے یوں لگا جیسے الیکشن دھاندلی کے خلاف برپا ہونے والے126روزہ دھرنے کی طرح تلور بھی پورے 126گھنٹے اپنا مقدمہ لڑے گا۔ تلور نے میرے خیالات کا تسلسل پھر سے توڑ دیا۔ مجھ سے پوچھنے لگا، تم بڑے قبلہ حکیم صاحب کوجانتے ہو۔ میں نے جھنجلاکرجواب دیا، یہ حضرت کیا چیز ہیں؟ تلور ادھرادھر لہرایا پھر فاتحانہ انداز میں کہنے لگا، عجیب بات ہے، قبلہ بڑے حکیم صاحب کو کوئی بھی نہیں جانتا، لیکن ان کے خاندانی نسخے نے ہماری نسلیں بربادکرکے رکھ دی ہیں۔ پھر اس نے خودکلامی کے انداز میں کہا، یہی تو بڈھے شیخوں اور ان کے بڈھے میزبانوں کو بتاتا ہے کہ تلورکی ہڈیوںکا شوربہ، تلورکی کلیجی کے کباب اور تلورکی چھاتی کے قیمے کے تکے تمھاری جوانی واپس لے آئیں گے۔ تلور کی آواز مزید دردناک ہوتی چلی گئی۔ اس نے ادھر ادھر کان پھیرنے شروع کر دیے۔ مارگلہ کی چوٹی سے کوئل کی آواز آرہی تھی۔ تلور بولا، ہماری طرح یہ بھی بدبخت پرندہ ہے۔ پہلے مغل بادشاہوں اور شہزادوںکو، پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرنگی حکمرانوں کو اوراس کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کو بھی اس کے مخبروں نے قبلہ بڑے حکیم صاحب والا نسخہ بتایا تھا۔ ذراغور توکرو، جس دیس میں کوئل کے نام کی شاعری ہوا کرتی تھی، آج کل وہاں کوئوں کاراج ہے۔ ہماری بات رہنے دو، ہمارے لیے تو ہر طرف گِدھ ہی گِدھ ہیں۔ کچھ گِدھ اڑنے والے اور باقی بہت سارے بندوقوں،کتوں اور لینڈ کروزروںوالے۔ 
میںنے جان چھڑانے کے اندازمیں کہا، میں اب چلوں؟ تلورنے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلائیں، پَر پھڑپھڑائے، آنکھیں گھمائیں، چونچ سڑک پر ایسے رگڑی جیسے قصائی اپنے چھرے کو وَٹی لگاتا ہے۔ پھر کہنے لگا، اگر حکومت چھین جانے کا ڈر لگے تو تم لوگوں کو آئین یاد آ جاتا ہے۔ ہتھکڑی دکھائی دے تو جمہوریت بچائوکی چیخیں مارتے ہو۔کہتے ہو ماورائے قانون کچھ ہونے والا ہے۔ لیکن ہمارے حقوق کہاںگئے؟ تحفظ ِجنگلی حیات کے نام پر بننے والے اربوں روپوں کے اثاثے، کروڑوں روپے کی تنخواہیں اور لاکھوں روپے کی مراعات لینے والے کیوں خاموش ہیں؟ شہروں میں بسنے والے جنگل کا قانون ہم پر کیوں لاگوکرتے ہیں؟ میں نے اسے غورسے دیکھا، پھر پیچھے مڑکر اپنے ساتھیوں پر نظرڈالی، وہ خاصے بے چین اور غصے میں دکھائی دے رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں بھی کچھ کہہ سکتا، تلورنے ایک اور سوال داغ دیا۔ پوچھنے لگا، ڈی او ایف(Deferred Oil Facility) یعنی ادھارکے تیل کا کیا مطلب ہے؟ میں نے بور ہونے کے انداز میں کہا، ڈی او ایف کا مطلب تم کیوں نہیں بتا دیتے؟ کہنے لگا: اربوں،کھربوں ڈالر کا ادھار تم پر چڑھ گیا ہے اور کیا تمھاری قوم کویہ بھی معلوم نہیں کہ ادھار کا مطلب کیا ہے؟ پھر اس نے زوردار قہقہہ لگایا اورکہنے لگا، تمھیں ایک شعر سنادیتا ہوں، ادھار کا مطلب سمجھ میں آجائے گا ؎
قرض سے ملک بھی چلے ہیں کبھی
زندہ قوموں کا یہ شعار نہیں
مجھے تھوڑا غصہ آیا۔ میں نے کہا، ہم تمھیں زندہ قوم نظر نہیں آرہے؟ اس نے طنز سے بھرپور نگاہ ڈالی اورکہنے لگا، تمھاری طرح ہم بھی اپنے آپ کو زندہ قوم کہتے ہیں۔ ہر وقت اِن دی لائن آف فائر! چاروں طرف شکاریوں کے نرغے میں پھنسے ہوئے اور پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ شکاری بہت جلد واپس چلے جائیں گے۔ اب اس کا لہجہ سنجیدہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ کہنے لگا، دُور دیس کے جن شکاریوں کو تم نے 35 سال پہلے گرم پانیوں کے تحفظ کے لیے بلایا تھا کیا وہ واپس چلے گئے؟ میں تقریبا ًتنگ آچکا تھا۔ اس کے باوجود تلور کے دلائل ختم ہونے میں نہیں آرہے تھے۔ پھر کہنے لگا، جانتے ہو خوشامدکیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا، خدمت یاخوشامد؟ کہنے لگا واہ! کیا لفظوں کا ہیر پھیر ہے۔ خدمت اس کی ہوتی ہے جومہمان بن کر آئے، جو مالک بن کرآئے، امداد بھیک کی طرح عطاکرے اور اس کے عوض من مانی شرطیں منوا لے، اسے آپ مہمان کہتے ہیں!کیا تم لوگوں کے پاس کوئی چوائس ہے؟ کسی ادھاردینے والے کے سامنے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہی ناں کا لفظ زبان سے نکال کر دیکھ لو۔ میں نے اسے درخواست کے اندازمیں کہا اورکچھ کہنا ہے؟ کہنے لگا، مجھے نہیں معلوم کہ کتنی دیر بعد میں تمھارے کسی مہمان کی ہانڈی میں چلا جائوں۔ میراایک پیغام قانون اورانصاف کے اداروں تک لے جائو۔ میں نے کہا فرمائیے، ضرورلے جائوں گا۔ وہ مایوس ہوکر بولا، چلو رہنے دو،کون سا قانون اورکیسا انصاف! میں اپنا پیغام ضائع نہیں کرسکتا۔ ویسے بھی بھکاریوں کی کیاچوائس ہوتی ہے کہ میں بھکاریوں کے ذریعے شکاریوں سے مکالمہ کرتا پھروں۔
میں نے چشم تصور سے دیکھا، آئی ایم ایف کے کارندے اور ایک موٹے سے یا شیخ، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اورساری دنیا کے ساہو کار میرے اردگردکھڑے قہقہے لگا رہے ہیں۔ سب کے ہاتھوں میں شکار کے اوزار، لمبے چُھرے اورچَھرے داربندوقیں تھیں۔ میں نے یہ خیال جھٹک کر سڑک کی طرف دوبارہ نظر دوڑائی تو وہ طائرِ لاہوتی قراقرم کی چوٹیوں کی طرف اڑان بھر رہا تھا۔ اس کے گنگنانے کی آواز صاف سنائی دی:
یہاں کوئی بھی نہیںغمگسار ہم نفسو
کریں توکس پہ کریں اعتبار ہم نفسو
بہت دنوں سے پریشانیوںنے گھیرا ہے
پڑے ہوئے ہیں سر ِرہگزار ہم نفسو 
نحیف دل پر گزرتے ہیں پے بہ پے صدمے 
اُٹھا رہے ہیں مصائب کا بار ہم نفسو
اِسی امید پہ ہم نے خزاں کے جَور سہے 
کہ آئے گی کبھی فصلِ بہار ہم نفسو
کبھی نہ شیخ و برہمن نے اِلتفات کیا 
کبھی سنی نہ کسی کی پکار ہم نفسو
چلو خدا کے لیے گولڑہ سے ہو آئیں
وہیں ملے گا سکون وقرار ہم نفسو 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved