تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     19-12-2016

بریگزٹ سے پیدا ہونے والے مسائل

دھوپ میں نہائے ہوئے گرم سری لنکا سے لندن کے سرد موسم کی طرف پرواز کبھی بھی خوشگوار نہیں ہوتی ۔ اس مرتبہ بھی نہیں تھی حالانکہ میں یہاں کرسمس اور تعطیلات سے کچھ دن پہلے یہاں پہنچا ہوں اور دکانیں اور گلیاں روشن اور سجی ہوئی ہیں اور سیل کا موسم شروع ہے۔ تاہم موسم کی طرح عوام کا موڈ بھی اداس ہے۔ بریگزٹ پر ہونے والی تیزو تند بحث اور برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے کے مضمرات نے قومی موڈ پر گہرا چرکا لگایا ہے ۔ اس کیفیت کی بہترین عکاسی دی گارڈین میں فوٹوگرافرز نے کی تھی۔ تصاویر میں وزیر ِاعظم ، ٹریسا مے برسلز میں یورپی یونین کی حالیہ میٹنگ کے دوران تنہا ئی کا شکار دکھائی دیں ۔ایسا لگتا تھا جیسے وہ سخت ذہنی دبائو میں ہیں۔ اُنہیں بریگزٹ پر یونین کے رد ِعمل پر بحث بات کرنے کی بھی دعوت نہ دی گئی ، اگرچہ اس ترجمان کا کہنا تھا کہ ''مختصر ‘‘ بات کی گئی ۔ ایسا لگتا تھا کہ رکن ریاستیں اپنے موقف پر مضبوطی سے کھڑی ہیں۔ اس صورت ِحال کو برطانیہ کے لیے کسی طور مثبت پیش رفت قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ 
یہ احساس اس صورت ِحال کو مزید گہرا کررہا ہے کہ مارچ میں آرٹیکل 50 کے استعمال کے بعد بریگزٹ پر ہونے والے مذاکرات مکمل ہونے میں کئی برس لگ جائیں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ برطانیہ میں موجود غیر ملکی فرموں ، جو یورپی یونین میں کام کررہی ہیں، کو بریگزٹ کے نتائج دیکھنے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑے گا۔ اس کی وجہ سے سرمایہ کاری اور ملازمت دینے کے فیصلے تاخیر کا شکار ہوجائیں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ اس غیر یقینی صورت ِحال کو دیکھتے ہوئے بہت سی کمپنیاں از خود فیصلہ کرتے ہوئے انگلینڈ سے باہر کسی اور ریاست میں چلی جائیں۔ اس وقت پہلے ہی بہت سے بڑے بڑے بنکوں نے لندن سے نقل مکانی شروع کردی ہے ۔ اس کی روانگی کے ساتھ برطانیہ ملازمت کے ہزاروں مواقع اوربھاری ریونیو سے محروم ہوجائے گا۔ 
برطانوی عوام کی بڑھتی ہوئی پریشانی کی ایک وجہ یہ احساس بھی ہے کہ ٹریسا مے کی حکومت کے کوئی واضح تصور دکھائی نہیں دیتا کہ وہ ان مذاکرات سے کیا حاصل کرنے کی توقع رکھتی ہے ۔ وزیر ِاعظم کے سامنے ایک طرف تو عوام کا مطالبہ ہے کہ تارکین ِ وطن کی بہت کم تعداد برطانیہ میں آئے ۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے پیچھے یہی سب سے طاقتور محرک تھا۔ دوسری طرف یورپی یونین کی مارکیٹ تک رسائی بھی درکار ہے کیونکہ یہ برطانیہ کے مفاد میں ہے ۔ دی گارڈین کے پولیٹیکل ایڈیٹر ، پیٹرک ونٹور یورپی یونین کے ایک سابق سفارت کار، لارڈ کیر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔''ایئرپورٹ پر پہنچ کر آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں۔‘‘فی الحال ٹریسا مے اور اُن کی کابینہ کو کچھ پتہ نہیں کہ اُن کی منزل یا مقصد کیا ہے ؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ مس مے ایک پراعتماد اور مضبوط رہنما دکھائی دیتی تھیں جو اپنی کابینہ میں ڈسپلن قائم کرنے کے لیے پرعزم تھیں، لیکن موجودہ صورت ِحال میں وہ تصورات سے تہی داماں ہیں۔ اُنہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوپارہا ہے کہ پوریی یونین سے نکل کر برطانیہ کہاں کھڑا ہوگا۔ اس کے لیے وہ پالیسی کی تجاویز کا انتظار کررہی ہیں۔ آگے بڑھ کر فیصلہ کرنا اُن کے لیے مشکل ہوچکا ہے ۔ اس سے پہلے اُن کا برس ہا برس تک تجربہ ''ہوم آفس ‘‘تک محدود تھا، اور یقینا وہ تجربہ اس پیچیدہ صورت ِحال میں کام نہیں آئے گا۔ 
ہائی کورٹ میں کیس ہارنے کے بعدبرطانوی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کی ، لیکن وہاںبھی اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت اپوزیشن بھی ایک عجیب الجھن کا شکار ہے ۔ زیادہ تر ارکان ِپارلیمنٹ بریگزٹ کے خلاف ووٹ نہیں ڈالیں گے ، تاہم ہائوس آف لارڈز ، جس کے ممبران منتخب نہیں ہوتے، نامزد کیے ہیں، حکومت سے ڈیل کے لیے اہم تبدیلیوں کا مطالبہ کرسکتا ہے ۔ اس کی وجہ سے ایک آئینی بحران سر اٹھا سکتا ہے۔ جس دوران کنزرویٹو پارٹی بریگزٹ کے مضمرات کے خلاف جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہے ، لیبر پارٹی کی اذیت بھی کچھ کم نہیں۔ اس ماہ ہونے والے دوضمنی انتخابات میں اسے عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس وقت برطانیہ کا اہم ترین سیاسی بیانیہ بریگزٹ ہے ، چنانچہ لیبر پارٹی خود کو اس بیانیہ سے الگ دیکھ رہی ہے ۔ اگرچہ اس نے گزشتہ جون میں اس کے خلاف مہم چلائی تھی لیکن اس کے لیڈر ، جرمی کوربین اس کے لیے بہت جذباتی ہورہے تھے ۔ 1973ء میں اُنھوںنے یورپی کمیونٹی میں شریک ہونے کے خلاف ووٹ دیا تھا، چنانچہ گزشتہ ریفرنڈم میں اُن کے لیے یونین کے ساتھ رہنے کے موقف کی حمایت کرنا مشکل تھا۔ اس کی وجہ سے ان کی پارٹی بھی ابہام کا شکار ہوگئی ۔ قومی سطح پر لیبرپارٹی کنزرویٹو ز سے چودہ فیصد خسارے میں ہے ۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوچلا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں اس کا مکمل طور پر صفایا ہوسکتا ہے ۔ اگرچہ عام انتخابات شیڈول کے مطابق 2020 ء میں ہوں گے لیکن ٹریسا مے قبل از وقت انتخابات کا اعلان بھی کرسکتی ہیں تاکہ اپنا مینڈیٹ لے سکیں۔ وہ بریگزٹ پر ہونے والے مذاکرات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ درحقیقت اس وقت برطانیہ ایک فلسفیانہ کشمکش کا شکار ہے۔ اس کا محنت کش طبقہ دیکھ رہا ہے کہ ملازمتیں ملک سے باہر جارہی ہیں۔ کبھی وہ مہاجرین کو برا بھلا کہتے ہیں، کبھی اُن رہنمائوںکو جنہوں نے بریگزٹ کی حمایت میں اُنہیں اکسایا۔ چنانچہ 2017 ء میں برطانیہ کے شہریوں کے لیے زیادہ خوش ہونے کے مواقع نہیں ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved