قومی اسمبلی کی رونق بحال ہوگئی ہے۔ ایوان زیریں کے فلور پر الزامات و جوابی الزامات کے چراغ پھر روشن ہیں۔ بلیم گیم شروع ہوچکا ہے۔ کیوں نہ ہو؟ ایئر پورٹس پر کھیپیوں اور پاریمنٹ میں ''بلیم گیمیوں‘‘ ہی کی تو بھرمار ہے! جن کی زندگی صرف اور صرف الزامات اور جوابی الزامات عائد کرنے میں گزری ہو اور جنہیں اِس کے سوا کوئی ''ہنر‘‘ آتا ہی نہ ہو اُن سے بھلا کیا امید رکھی جائے؟
پاناما لیکس کے حوالے سے جو شور اٹھا تھا وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک ہنگامہ ہے کہ اب تک برپا ہے۔ دھماچوکڑی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ احتجاج کے نام پر گھیراؤ کا راستہ اپنایا گیا ہے۔ احتساب تحریک کے نام پر وفاقی دارالحکومت بند کرنے کا منصوبہ نامعلوم ہاتھوں نے اتنی تیزی سے لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا کہ یارانِ وطن انگشت بہ دنداں رہ گئے! ؎
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دوچار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا!
اپوزیشن اب تک طے نہیں کر پائی کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں طے کرنا چاہتی ہے یا عدالت میں۔ اگر پارلیمنٹ میں چیخ پکار کرنی ہے تو پھر عدلیہ کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر عدلیہ ہی کے ذریعے معاملے کو طے کرانا ہے تو پھر پارلیمنٹ میں مچھلی بازار کا سماں پیدا کرنا چہ معنی دارد؟
چند روز کے دوران قومی اسمبلی میں ایران، توران اور پتا نہیں کہاں کہاں کی ہانکی گئی ہے۔ قوم کو اِن تمام باتوں سے کیا غرض؟ وہ تو اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے۔ اور مسائل بھی کون سے؟ انتہائی بنیادی یعنی وہ کہ جن کے حل نہ ہونے سے جینے میں خلل واقع ہوتا ہے۔ مگر متعلقہ ''محبّانِ وطن‘‘ ہیں کہ کام کی بات کرنے کو تیار ہیں نہ بتانے کو۔ بقول اکبرؔ الٰہ آبادی ؎
اُن سے بی بی نے فقط اسکول ہی کی بات کی
یہ نہ بتلایا کہاں رکھی ہے روٹی رات کی!
کس نے کتنی آف شور کمپنیاں بنائی ہیں اور کس نے بہت سا دھن بیرون ملک منتقل کیا ہے، یہ سب جان کر عوام کی کون سی تشفی ہوجانی ہے۔ وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ پینے کے لیے صاف یعنی غیر مُضر پانی ملتا رہے، بجلی اور گیس کی فراہمی میں کوئی رخنہ نہ آئے، سرکاری تعلیمی ادارے فی الواقع علم بانٹنے لگیں، سرکاری ہسپتال ڈھنگ سے علاج کرتے ہوجائیں اور آمد و رفت کا نظام بہتر بناکر لوگوں کے لیے یومیہ سفر آسان بنا دیا جائے! اتنا بھی ہوجائے تو بہت ہے۔
وہ غالبؔ تھے جو دن رات اِک گونہ بے خودی کی طلب میں پیا کرتے تھے۔ یہاں اِک گونہ عذاب ہے جو بے پیے مل رہا ہے۔ عذاب یہ ہے کہ جسے جس کام کے لیے منتخب کیا گیا ہے وہ بس وہی کام نہیں کر رہا۔ آج جو لوگ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اُنہیں قوم کے بنیادی مسائل حل کرنے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ قوم حیران ہے کہ نمائندگی کا حق ادا کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ پاناما لیکس، آف شور کمپنیز، منی لانڈرنگ، منی ٹریل اور دیگر بہت سے معاملات کی تفصیل جان کر قوم کا بھلا کیا بھلا ہو جانا ہے۔پرنالے وہیں بہہ رہے ہیں۔ لگتا ہے امیدوں کے نصیب میں خاک ہو جانا ہی لکھا ہے۔ آرزو بس آرزو کی منزل میں رہتی ہے۔ میر حسنؔ خوب کہہ گئے ہیں ؎
تھی آرزو تو یہ کہ ملے آرزوئے دل
یہ آرزو نہ تھی کہ فقط آرزو ملے!
لمبی لمبی تقریروں سے خراب حالوں کو کیا غرض؟ وہ تو بس سکون سے زندگی بسر کرنے کا تھوڑا سا سامان چاہتے ہیں۔ اگر اتنا بھی نہ ہو تو حکومت کس کام کی اور پارلیمنٹ کا کیا اچار ڈالنا ہے؟ جمہوریت ہو یا آمریت، ہر طرزِ حکومت نے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے۔ اہلِ وطن محسوس کرنے لگے ہیں کہ جمہوریت و آمریت کی تفریق بھی فریبِ نظر کے سِوا کچھ اور نہیں۔ عوام کا مقدر وہی ہے جو خربوزے کا ہے۔ خربوزہ چُھری پر گرے یا چُھری خربوزے پر، دونوں صورتوں میں خربوزہ ہی جان سے جاتا ہے! چُھری کی دھار ہے کہ تیز سے تیز تر ہوئی جاتی ہے اور یہ دیکھ کر خربوزہ لرزہ بر اندام ہے!
جمہوریت سے وابستہ امیدیں دم توڑتی ہیں تو آمریت یوں آتی ہے گویا زمین سے آسمان تک تمام مسائل آن کی آن میں حل کرکے اپنی راہ لے گی۔ نجات دہندہ کی صورت آنے والے سسٹم کو مزید بگاڑ کر، عوام کے لیے مزید پیچیدہ و ناکارہ بناکر یوں رخصت ہوتے ہیں کہ ادھ مُوئے عوام میں الوداع کہنے کی سکت بھی باقی نہیں رہتی!
آمریت خرّانٹ ساس کے مانند ناک میں دم کرکے کچھ دیر دم لینے کو چل دیتی ہے تو جمہوریت گھونگھٹ گِرائے نئی امید بن کر وارد ہوتی ہے۔ قوم پھر توقعات وابستہ کرلیتی ہے کہ جمہوریت آئی ہے تو گھر کو درست کرے گی، سب کچھ دوبارہ ٹھکانے پر آجائے گا۔ مگر کچھ ہی دنوں میں جمہوریت بی اپنا رنگ ڈھنگ یوں دکھانے لگتی ہیں کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور توبہ توبہ پکارتے پائے جاتے ہیں! ہاتھوں میں مہندی رچائے ہوئے آئی ہوئی جمہوریت عوام کو چُونا لگانے میں دیر نہیں لگاتی!
یہ تماشا عشروں سے جاری ہے۔ مینا کاری ہو رہی ہے، کام برائے نام بھی نہیں ہو رہا۔ چھوٹے چھوٹے کام بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگئے ہیں۔ پارلیمنٹ کا ایوان بالا ہو یا ایوان زیریں ... یا پھر صوبائی ایوان ہائے نمائندگان، سب کا ایک حال ہے۔ عوام کی بات کوئی نہیں کر رہا۔ منتخب نمائندوں کے اعزازیے اور سہولتوں میں اضافے کا معاملہ تو ہر ایوان میں 100 فیصد اتفاق رائے دکھائی دیتا ہے مگر جب عوام کو کچھ دینے کی بات آئے تو قانونی اور آئینی مُوشگافیاں نمودار ہونے لگتی ہیں۔ اگر کسی قانون کی منظوری سے عوام کو تھوڑا بہت فائدہ پہنچنے کا امکان ہو تو اِس امکان کو خدشہ گردانتے ہوئے اُس کی راہ میں روڑے اٹکانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایوان میں مائکروفون کے سامنے جو لوگ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتے وہ عوام کے مفاد کا کوئی بھی معاملہ سامنے آنے پر یوں مُہر بہ لب ہو جاتے ہیں گویا اپنے آپ کو سُونگھ لیا ہو!
حکومت کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے اور اپوزیشن کا اپنا مگر ایک معاملے میں دونوں ایک ہی پیج پر دکھائی دیتے ہیں ... یہ کہ عوام کو کسی بھی طرح کوئی ایسی سہولت نہ ملنے پائے جس سے اُن کی زندگی میں کوئی آسانی پیدا ہوسکتی ہو۔ حکومت قومی معیشت میں پیش رفت کا ڈھول پیٹتی نہیں تھکتی۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کو سب سے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کیا واقعی ترقی جانچنے کے یہی پیمانے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ قومی معیشت کی پیش رفت اور زر مبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافے سے عام آدمی کو کیا ملتا ہے؟ اُس کے شب و روز میں کون سی بڑی اور خاطر خواہ، مثبت تبدیلی رونما ہو پاتی ہے؟ وہ تو جاں بہ لب ہی ٹھہرا۔ بقول عبیداللہ علیمؔ ع
جب ہم ہی نہ مہکے، پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی ناگزیر تھی مگر اس بھٹی میں سبھی کچھ جھونک دیا گیا ہے۔ زمین کا ٹکڑا وطن بنتا ہے تو سانس لیتے ہوئے انسانوں کے دم سے۔ ع
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
شہر ہائے خموشاں بساتے رہنے کو وطن کی خدمت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ ارضِ وطن اُسی وقت پھل پھول سکتی ہے، بار آور ثابت ہوسکتی ہے جب اِس پر بسنے والوں کی اکثریت کے حقوق اور مفادات کا تحفظ اولین ترجیح قرار پائے۔
عوام کو ایوانوں میں چیخنے چنگھاڑنے والے نہیں چاہئیں۔ اُنہیں تو ایسے نمائندے درکار ہیں جو اُن کی بات کریں، اُن کی مشکلات کا تدارک کریں، اُن کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ ایوانوں میں جھاڑی جانے والی لفّاظی، دانش وری اور بڑھک ان کے کس کام کی؟ وہ باتوں کے سبز باغ نہیں چاہتے۔ اُنہیں تو حقیقی باغ درکار ہیں، خواہ تھوڑے کم سبز ہوں! از خود نوٹس کے تحت رہبری کے منصب پر فائز ہونے والوں نے جو سبز باغ دکھائے ہیں اُن کے ہاتھوں عوام کے نُچڑے ہوئے سے چہرے کی زردی بڑھتی گئی ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ جو اُن سے ووٹ لے کر ایوانوں میں گئے ہیں وہ ایوانوں میں جایا بھی کریں، اُن کی بات کیا بھی کریں۔ میڈیا کے مائکروفون دیکھ کر باتوں کی رال ٹپکانے والے کسی کا کیا بھلا کرسکتے ہیں؟ اُنہیں یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ عوام منتظر ہیں کہ اُن کے مسائل حل کیے جائیں، اُن کی زندگی کو معنی خیز اور بارآور بنانے کا کچھ اہتمام کیا جائے۔ مجروحؔ سلطان پوری بروقت یاد آئے ؎
میں تو جب جانوں کہ بھردے ساغرِ ہر خاص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیرِ مغاں بنتا گیا