تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     20-12-2016

ترقی معکوس

اگر آپ پاکستان کے مستقبل میں جھانک کر دیکھنا چاہتے ہیں‘ تو زیادہ جستجو اور تجسس کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ملک میں قومی سطح کی ایک بھی سیاسی پارٹی نہیں رہ گئی۔ جن پارٹیوں کو ملک گیر کہا جاتا ہے‘ ان میں سے بھی درحقیقت ایسی کوئی پارٹی نہیں‘ جسے قومی قرار دیا جا سکتا ہو۔یہ مرض نیا نہیں۔ پاکستان جب معرض وجود میں آیا‘ تو اس وقت بھی ہزار میل کے فاصلے پر دو جغرافیائی یونٹ تھے۔ ایک مشرقی اور دوسرا مغربی پاکستان۔ اگر آپ اس زمانے کی بڑی پارٹیوں کا جائزہ لیں‘ تو سیاسی منظر دیکھ کر ہی پتہ چل جاتا تھا کہ دو ٹکڑوں میں تقسیم شدہ ہمارا ملک‘ سیاسی یکجہتی پیدا نہیں کر سکا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان‘ دونوں جغرافیائی طور پر نہیں‘ سیاسی طور پر بھی ایک دوسرے سے ہزار میل کے فاصلے پر تھے۔ یہ فاصلہ جغرافیائی ہی نہیں‘ سیاسی بھی تھا۔ مشرقی پاکستان کی سیاست ہی نہیں‘ سماجی اور معاشی حالات بھی مختلف تھے۔ معیشت بھی الگ الگ تھی۔ سیاسی سوچ اور جغرافیائی حقائق میں بھی کوئی ہم آہنگی نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان سماجی اعتبار سے انتہائی پسماندہ جبکہ سیاسی طور پر کافی آگے تھا۔ وہاں تربیت یافتہ سیاسی کارکنوں کا ایک بہت بڑا طبقہ موجود تھا۔ وہاں کے کسان اور مزدور بھرپور سیاسی تجربہ اور شعور رکھتے تھے۔ بھارت کا صوبہ مغربی بنگال بھی سیاسی بیداری میں دوسرے صوبوں سے آگے تھا اور آج تک بھی ہے۔ بنگالیوں کی سیاسی بیداری کا نتیجہ ہے کہ ملکی سطح پر تنگ نظر ہندو اکثریت کی پھیلائی منافرت بیشتر علاقوں میں موجود تھی، لیکن مغربی بنگال ایسی گندی سیاست سے آلودہ نہیں ہوا تھا۔ بھارتی حکمران طبقے‘ مغربی بنگال کے بڑھتے ہوئے سیاسی شعور سے خوفزدہ تھے اور مشرقی پاکستان جتنی تیزی سے سیاسی بیداری کی لپیٹ میں آ رہا تھا‘ بھارت کے متعصب حکمران طبقے اس سے بہت خوفزدہ تھے۔ برصغیر میں تاریخ کا علم اور شعور رکھنے والے حکمران طبقے ‘ مشرقی اور مغربی بنگال میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں سے بے حد خوفزدہ تھے۔ یہ خوف پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقوں میں یکساں تھا۔ 
ایک طرف بھارت کے حکمران طبقے نکسل باڑیوں کی بڑھتی ہوئی جدوجہد سے نالاں تھے‘ تو دوسری طرف سیاسی شعور اور تنظیم میں مشرقی پاکستان‘ مغربی پاکستان سے بہت آگے تھا۔ ہمارے حکمران طبقے‘ سقوط مشرقی پاکستان کا الزام بھارتی حکمرانوں پر لگاتے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت یہ تھی کہ بھارت کے حکمران طبقے‘ مشرقی پاکستان کی ابھرتی ہوئی انقلابی تحریکوں سے‘ مغربی پاکستان کے حکمران طبقوں کی نسبت زیادہ خوفزدہ تھے۔ مغربی بنگال اور اس سے ملحقہ دیگر بھارتی صوبوں میں طبقاتی بنیاد پر مسلح جدوجہد کا آغاز ہو چکا تھا۔ جبکہ مشرقی پاکستان کی باشعور سیاسی قیادت‘ اپنے خطے میں تشدد اور مسلح جدوجہد کے رجحانات کو روکتے ہوئے‘ سیاسی حقوق حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہی تھی۔ بدقسمتی سے مغربی پاکستان کے حکمران طبقے‘ سیاسی شعور سے محروم تھے۔ انہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کیسے امتحانات سے دوچار ہے؟ ایک طرف انہیں نکسل باڑیوں کی پھیلتی ہوئی تحریک کا خوف تھا اور دوسری طرف مغربی پاکستان کے حکمران طبقے‘ انہیں سیاسی عمل جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ انہیں ہروقت ایک ہی خوف کھائے جاتا تھا کہ مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت آزادانہ جمہوری نظام میں رہتے ہوئے‘ ہر حال میں مرکز میں اقتدار پر قابض ہو سکتی تھی۔ قیام پاکستان سے لے کر1971ء تک مغربی پاکستان کے تنگ نظر اور پسماندہ حکمران طبقے اپنے ہی خوف میں مبتلا تھے اور وہ حیلے بہانوں سے‘ مشرقی پاکستان کے اکثریتی حقوق سلب کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ اسلامی نظام سے لے کر‘ سیاسی حقوق سلب کرنے تک ‘ مغربی پاکستان کے سازشی حکمرانوں نے مسلسل ایک ہی طرح کی سازشیں جاری رکھیں کہ کسی طرح ایسے جمہوری نظام کو پروان نہ چڑھنے دیا جائے‘ جس میںحق حکمرانی اکثریت کو ملتا ہو۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے‘ اسلام پر کتنا یقین رکھتے تھے؟ کہاںظلم اور جبر سے بھرا ہوا ظالمانہ نظام اور کہاں اسلام؟ لیکن ہمارے ہاں یہی کچھ کیا گیا۔ مشرقی پاکستانیوں کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہاں کی سیاسی جماعتیں‘ غیرمنصفانہ طبقاتی نظام کے خلاف تھیں۔ جبکہ مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتیں جاگیرداروں کی آلہ کار تھیں۔ یہی کش مکش ہمیں1971ء کے بحران میں کھینچ لائی۔ درحقیقت یہ پاکستان اور بھارت کی جنگ نہیں تھی، ان دونوں ملکوں کے حکمران طبقوں کو لاحق خطرات تھے ‘جو بنگال کی سرزمین سے ابھر رہے تھے۔ ان سے پاکستان اور بھارت دونوں کے حکمران طبقے خوفزدہ تھے۔ اگر ہم مغربی پاکستان کے تنگ نظر حکمران طبقوں کی سیاسی چالبازیوں کا جائزہ لیں‘ تو آپ یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ پاکستان اور بھارت کی نام نہاد جنگ‘ درحقیقت دونوں ملکوں کے حکمران طبقوں کے مفادات کو لاحق خطرات سے بچنے کی مشترکہ کوشش تھی۔ بھارت کو ڈر تھا کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقوں کی گرفت‘ مشرقی پاکستان میں کمزور ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں جو طاقتور مسلح تحریکیں آگے بڑھ رہی ہیں‘ پاکستان کے رجعت پسند حکمران‘ ان پر قابو نہیں پا سکیں گے۔ بھارت کا یہی خوف تھا‘ جو وہاں کے حکمران طبقوں کو تیزرفتاری سے جنگ میں کودنے پر مجبور کر رہا تھا۔ 1971ء کی جنگ میں کودنا‘ پاکستان کے حکمرانوں کا انتخاب نہیں تھا۔ اگر آپ اس جنگ کی صورتحال کا جائزہ لیں‘ توآسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ پاکستان جنگ کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔ جبکہ بھارت کافی عرصہ پہلے سے جنگ کی تیاریاں کر رہا تھا۔ بھارت نے پاکستان پر جو حملہ کیا وہ اچانک نہیں‘ پوری تیاری کے بعد تھا۔ جبکہ پاکستان کے کم عقل اور کوتاہ اندیش سیاستدان سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے کہ تبدیلیوں کا جو عمل برصغیر پر غالب آنے والا ہے‘ وہ پاکستان کے حکمرانوں کی عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ نتیجہ وہی نکلا‘ جو بھارت چاہتا تھا۔ لیکن ہماری بدنصیبی یہ تھی کہ عام پاکستانی جس شکست کو 
اپنے ملک کی تباہی سمجھ رہے تھے‘ ہمارے حکمران اندر ہی اندر یہ سوچ کر خوش ہو رہے تھے کہ مشرقی پاکستان کا بوجھ ان کے کندھوں سے اترا اور اب وہ باقی ماندہ پاکستان پر اطمینان سے حکمرانی کریں گے۔ لیکن فن حکمرانی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ موجودہ پاکستان کے حکمران طبقے ‘جدیددور کی ریاست کو سمجھنے اور چلانے کی ذرا بھی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ ہمارے وطن کو مسلسل تباہی کی طرف دھکیلتے رہے اور اب بھی وہی کچھ کر رہے ہیں۔جب سے انہیں بلاشرکت غیرے پاکستان پر حکمرانی کا حق حاصل ہوا ہے‘ یہاں دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ کرپشن‘ روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ ملکی خزانے پر ڈاکے ڈالنے کا رواج نیا نہیں۔ انگریزوں کے پٹھو جاگیرداروں نے اپنے آقائوں سے ایک ہی اجازت لے رکھی تھی کہ انہیں عوام کے حقوق سلب کر کے‘ اندھادھند لوٹ مار کا اختیار دیا جائے۔ ظاہر ہے‘ بیرونی آقائوں کو اس پرکوئی اعتراض نہیں تھا۔ انگریز حکمرانوں کو اپنے پٹھو جاگیرداروں اور لٹیروں کی مدد درکار تھی، جس کا وہ فائدہ اٹھاتے رہے۔ یہاں میں ایک واقعہ عرض کروں گا کہ جب ریڈکلف کو گورنر جنرل کی طرف سے تقسیم کا نقشہ موصول ہوا‘ تو وہ یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ پاکستان سے لاہور کو نکال کر‘ بھارت میں شامل کیا جا رہا ہے۔ وہ ایک سمجھدار انسان تھا۔ اس نے فوری طور پر گورنرجنرل ہائوس کے ساتھ رابطہ کیا اور اعتراض اٹھایا کہ اگر مغربی پاکستان سے لاہور کو نکال دیا گیا‘ تو اس جغرافیائی یونٹ کا جسے ہم تقسیم کے نتیجے میں قائم کر رہے ہیں‘ عملی طورپر چلنا دشوار ہو جائے گا۔ چنانچہ اس سمجھدار انگریز نے اصرار کر کے‘ لاہور کو پاکستان میں شامل کر نے کا اختیار حاصل کیا اور مغربی پاکستان کا جو نقشہ ریڈکلف نے تجویز کیا تھا‘ وہ بھی حقیقت میں بدل گیا۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر موجودہ پاکستان میں لاہور کو شامل نہ کیا جاتا‘ تو تعمیر و ترقی سے محروم پسماندہ خطے‘ جن پر پاکستان کا انحصار ہوتا‘ وہ اس نوزائیدہ ملک کا کیا حال کرتے؟ بوڑھے ریڈکلف نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ پاکستان کو تعلیم اور بیوروکریسی کی تربیت کی جو دستیاب سہولتیں فراہم کر دی تھیں اگر وہ ہمیں حاصل نہ ہوتیں‘ تو ہمارا انجام کیا ہونا تھا؟ اگر آپ 1947ء کا دور دیکھیں تو پورے برصغیر میں جو اعلیٰ سطحی بیورو کریسی موجود تھی‘ اس کا بڑا حصہ گورنمنٹ کالج لاہور کا تیار کردہ تھا۔ پاکستان کے پسماندہ اور جاگیردار حکمرانوں نے اس شاندار بیوروکریسی کو بھی تباہ و برباد کر دیا۔ جبکہ گورنمنٹ کالج لاہور کے وہی بیوروکریٹ جو بھارت کے حصے میں آئے تھے‘ انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے آزاد بھارت کی ریاستی مشینری کو تعمیر و ترقی کے راستے پر لگا دیا، جس سے بھارت آج تک استفادہ کر رہا ہے۔ میں جب پاکستان کی موجودہ حالت کو دیکھتا ہوں‘ تو سوائے اندھیروں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے تو حکمران بھی کرپشن اور لوٹ مار کے کھیل سے اپنا دامن بچانے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اسی وجہ سے میں پاکستان کے آئندہ سیاسی منظر سے زیادہ پرامید نہیں ہوں۔ چین تعمیروترقی کے عمل کو زبردستی ہمارے حلق میں اتار رہا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران طبقوں کو اس پر بھی ابکائیاں آ رہی ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved