تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     20-12-2016

زرداری‘ کس پہ بھاری؟

اب تک تو'' ایک زرداری‘‘ صرف پیپلز پارٹی پر بھاری پڑا ہے یا پھر ملک و قوم پر‘ 23 دسمبر کو وطن واپسی پر وہ حکمرانوں کے لیے سبز قدم ثابت ہوتا ہے یا نہیں‘ واللہ اعلم بالصواب! پانچ سالہ دور میںزرداری کے ندیدے رفقا کار نے لوٹ مار کے ریکارڈ قائم کئے‘ لوڈشیڈنگ نے صنعت و تجارت کا پہیہ جام کیا‘ بے روزگاری نے خودکشی اور خود سوزی کے کلچر کو عام کیا اور بے عملی حکمران طبقے کا وتیرہ ٹھہری‘ سیاسی حکمت عملی اس قدر ناقص تھی کہ 2013ء کا انتخاب میاں نوازشریف نے جیت لیا‘ عوامی مقبولیت تحریک انصاف اور عمران خان کے حصے میں آئی اور وفاقی پارٹی اندرون سندھ تک محدود ہو گئی۔ کراچی کے بغیر سندھ میں انتخاب جیتنا‘ نہ جیتنا برابر۔
بلاول بھٹو کم عمری کے باوجود پیپلز پارٹی کے ناراض کارکن اور ووٹر کو پارٹی کی طرف راغب اور متحرک کرنے کے لیے میدان میں اُترا تو ہر طرف سے مشورہ یہی ملا کہ وہ اپنے نانا اور والدہ کا ورثہ لے کر چلے‘ مقبول پارٹی کو پاتال میں دھکیلنے والے انکلوں سے دور رہے اور صاف ستھرے لوگوں کو آگے لائے۔ نئے امیج‘ نئے چہروں اور نئے نعروں کے ساتھ ہی پارٹی کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہے۔ نوجوان قائد کے فیصلوں اور اقدامات سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ مشوروں کو اہمیت دے رہے ہیں۔ وسطی پنجاب میں قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن کو اہمیت دے کر وہ اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے نظر آئے جو اپنے انکلز حتیٰ کہ شفیق ماں کو پیچھے دھکیل کر نئی قابل اعتماد ٹیم منظر عام پر لائی تھیں۔ مگر کیا پیپلز پارٹی اب پھر آصف علی زرداری کا بوجھ اٹھانے اور حکومت کی مخالفانہ پروپیگنڈا مہم کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئی ہے؟ زرداری جوڑ توڑ اور شاطرانہ چالوں کے بادشاہ ہیں اور جنرل قمر جاوید باجوہ کوفون پر مبارک باددینے کے بعد وطن واپسی کا رخت سفر باندھ کر انہوں نے یہ تاثر پختہ کیا کہ اب اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ہیں اور حکومت کے خلاف وسیع تر اتحاد کا قیام اُن کے سوا کسی کے بس میں نہیں‘ گرینڈ الائنس کے بغیر موجودہ حکومت کے خلاف کوئی کامیاب احتجاجی تحریک چل سکتی ہے نہ میاں نوازشریف کو قبل ازوقت انتخابات پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور نہ 2018ء کے انتخابی معرکے میں فوج‘ عدلیہ‘ بیورو کریسی‘ صنعتی و تجارتی برادری اور فعال شہری طبقے میں گہرا اثرورسوخ رکھنے والے شریف خاندان سے دوبدو مقابلہ ممکن ہے۔ اگر زرداری صاحب اپنے ہونہار بیٹے کی پس پردہ مدد کریں‘ اُسے کمک بہم پہنچائیں‘ بدنام انکلز کو بلاول کے اردگرد کھڑا نہ ہونے دیں اور'' ایک زرداری سب پہ بھاری ‘‘کے نعروں کی حوصلہ شکنی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کے لیے اُن کی آمد نیک فال ثابت نہ ہو۔
لیکن اگر یہ تاثر اُبھرے کہ آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت مخالف جدوجہد کے ثمرات سمیٹنے‘ دبائو بڑھا کر میاں نوازشریف سے سودے بازی کرنے اور ڈاکٹر عاصم و ایان علی کو رہا کرانے کے درپے ہے اور وہ اپنا مدمقابل نوازشریف کے بجائے عمران خان کو سمجھتی ہے تو پھر بن چکا گرینڈ الائنس اور ہو چکا پیپلز پارٹی کا احیا۔ 1999ء تک معاشرہ بھٹو اور اینٹی بھٹو دھڑوں میں تقسیم رہا۔ بھٹو کے حامیوں کی قیادت پیپلز پارٹی کے پاس تھی اور مخالفین میاں نوازشریف کیمپ میں شامل۔2013ء سے تقسیم کی بنیاد نوازشریف کی شخصیت اور طرز سیاست ہے۔ ہمیں بھلا لگے یا برا‘ نواز مخالفین کی قیادت اب عمران خان کرتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے فعال کارکنوں کے علاوہ ووٹروں کی توجہ کا مرکز بھی کپتان ہے۔ جدوجہد کا میدان پنجاب ہے اور نعرہ روٹی‘ کپڑا‘ مکان یا دائیں بائیں کی نظریاتی شناخت نہیں‘ کرپشن، اقربا پروری اور موروثی طرز سیاست کی روک تھام ہے۔ کرپشن کے حمام میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں ننگی ہیں۔ تحریک انصاف فرشتوں کا ٹولہ نہیں مگر اس کو حکمرانی کا موقع نہیں ملا‘ خیبرپختونخوا میں ساڑھے تین سالہ حکمرانی کے دوران عمران خان پر یہ الزام کبھی نہیں لگا کہ اُس نے ٹھیکے من پسند افراد کو دیئے‘ کمیشن پکڑا یا ملازمتیں فروخت کیں۔ بلاول بھٹو کا دامن صاف ہے اور اسی بنا پر بعض لوگ پیپلز پارٹی سے امیدیں وابستہ کرنے لگے ہیں‘ لیکن اگر پی پی میں فیصلوں کا اختیار ایک بار پھر زرداری کو مل گیا اور عمران خان نے بھی عملیت پسند ساتھیوں کے مشورے پر پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملا لیا جس میں آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کا کردار قائدانہ ہوا تو اپوزیشن صورتحال سے فائدہ اٹھانا تو درکنار، رہے سہے سواد سے بھی محروم ہو سکتی ہے۔
میاں نوازشریف کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور توانائی کے شعبوں میں پیشرفت ہوئی اور پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور کی بے عملی باقی نہ رہی۔ پنجاب کا موازنہ دوسرے صوبوں سے کرتے ہوئے کوئی منصف مزاج شخص شہبازشریف کو اضافی نمبر دیئے بغیر نہیں رہ سکتا‘ مگر تعلیم اور صحت کے شعبے بری طرح نظرانداز ہوئے‘ عام آدمی کا واسطہ پولیس‘ محکمہ مال اور انتظامیہ سے پڑتا ہے یا ماتحت عدلیہ سے جہاں صورتحال دگرگوں ہے۔ یہ پڑھ کر شاید کسی کو یقین نہ آئے کہ کشمیر‘ گلگت بلتستان اور راولپنڈی میں سرکاری سطح پر بچوں کا ایک بھی سرجن نہیں۔ پورے ملک میں 75 لاکھ بچوں کے لیے صرف ایک سرجن دستیاب ہے۔لاہور اور اسلام آباد سٹریٹ کرائم کی زد میں ہیں؛ کوئی گلی‘ محلہ‘ شاہراہ محفوظ نہیں۔ خطیر زرمبادلہ بھیجنے والے تارکین وطن کو وفاقی حکومت نے بھلا دیا ہے۔ لیبیا سے روزنامہ دنیا کے ایک قاری رائو واجد فاروقی بار بار توجہ دلا رہے ہیں کہ برادر ملک میں پاکستانی مسائل و مشکلات کا شکار ہیں، بدامنی اور لاقانونیت نے ان کے دن کا چین‘ رات کا سکون چھین لیا ہے اور سفارت خانہ ان کی مدد کرنے سے قاصر ہے ۔ مگر حکومت پاکستان۔۔۔ زمین جُنبد نہ جُنبد گل محمد!
قومی خزانے کا دامن حکومت کے وفاداروں کے لیے وسیع اور عام شہریوں کے لیے تنگ ہے۔ جس ملک میں اے ٹی آر طیارے کی محفوظ پرواز پر کالے بکرے کی قربانی دینے کی رسم چل پڑے وہاں انسانی جان و مال کی حفاظت اور عُمّالِ ریاست کے حسن کارکردگی کا دعویٰ دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں۔ پاناما سکینڈل نے حکمران خاندان کی اخلاقی ساکھ کو تباہ کر دیا ہے اور وزیراعظم کے قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے خطاب کو سرکاری وکیلوں نے سیاسی بیان قرار دے کر اندرون و بیرون ملک ہر ذی شعور کو چونکا دیا ہے کہ اب ان کی کس بات کا اعتبار کیا جائے اور کسے سیاسی بیان سمجھ کر کوڑے دان کی نذر؟ اپوزیشن متحد‘ فعال اور باصلاحیت ہو تو ‘اخلاقی ساکھ سے محروم حکومت سے ہر مطالبہ منوایا اور اُسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ قبل از وقت انتخاب نہ سہی‘ قابل عمل‘ پائیدار اور انتخابی اصلاحات‘ پاناما لیکس کی شفاف تحقیقات اور 2018ء میں دھاندلی‘ بے ضابطگی اور دھونس سے پاک عام انتخابات کی ضمانت حاصل کرنا مشکل نہیں۔
شرط یہ ہے کہ اتحاد اُصولی اور قومی بنیادوں پر ہو؛ نعرہ‘ کرپشن‘ اقربا پروری کا خاتمہ اور دھاندلی سے پاک عام انتخابات کا انعقاد اور مقصد عام آدمی کی بھلائی ہو جو انصاف‘ امن‘ تعلیم‘ صحت اور روزگار سے محروم ہے۔ رات کو بھوکا سونے والے پانچ کروڑ افراد، سکولوں میں داخلے سے محروم اڑھائی کروڑ بچوں کے بے وسیلہ والدین اور ناکافی خوراک کے سبب بیماریوں کا شکار کروڑوں بے کس عوام موجودہ انسان کش نظام سیاست و معیشت سے متنفر ہیں، جس نے اُن سے جینے کی امنگ چھین لی اور مرنے مارنے کی طرف راغب کیا۔ بڑھتی ہوئی بدامنی کا سبب یہی ہے اور کسی نہ کسی حد تک نسلی‘ لسانی‘ علاقائی‘ مسلکی بنیادوں پر منافرت کے پیچھے بھی یہ عوامل کارفرما ہیں۔ اگر زرداری صاحب واپسی پر اپنی فتح و کامرانی کے شادیانے بجانے کے بجائے اپنے برخوردار کے ذریعے کسی عوام دوست سیاسی اتحاد کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب رہتے ہیںجو محض بھان متی کا کنبہ نہیں‘ خوشگوار تبدیلی کا مظہر ہو تو قوم شاید اسے تلافی مافات قرار دے اور وہ دکھ بھول جائے جو 2008ء سے 2013ء کے دوران اس نے جھیلے۔ موجودہ طرز حکمرانی اور انداز سیاست سے مایوس عناصر کو باہم دست و گریبان اپوزیشن پسند نہیں اور نیا سیاسی اتحاد شاید اُن کی تمنّا ہو مگر کرپشن اور اقربا پروری کے نعرے کو ترک کر کے محض نوازشریف دشمنی اور انتخابی اصلاحات کے بغیر قبل ازوقت انتخابات کی تدبیر کامیابی کی راہ ہموار نہیں کر سکتی۔ پاناما سکینڈل کو پش پشت ڈالنا اور نوازشریف کے بجائے چوہدری نثار علی خان کو ٹارگٹ کرنا بھی اپوزیشن کے لیے تباہ کن اور حکومت کے لیے مفید ہو گا۔ دیکھتے ہیں عمران خان کے پے در پے حملوں سے زخمی حکمران اشرافیہ کو گرانے کے لیے زرداری صاحب کے پاس کون سی گیڈر سنگھی ہے اور من پسند تقرّریوںکے بعد میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ سے کیا فیض پاتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved