تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     20-12-2016

مگر وہ علم کے موتی

اقبال کی ہر نظم اُن کی ہر دُوسری نظم سے بڑھ چڑھ کر ہے، مگر آج اُن کی ایک شاندار اور گھن گرج والی نظم کا ایک شعر مجھے اس شدت سے بار بار یاد آرہا ہے کہ میں نے اُس کے پہلے مصرع کے پہلے پانچ الفاظ کو ہی آج کے کالم کا عنوان بنایا ہے۔ پورا شعر یہ ہے ؎
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنی آباکی
جنہیں گر دیکھیں یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
اب میرے پیارے قارئین اپنی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے یہ حساب خود لگا لیں کہ اقبال تو یورپ میں چند سال گزار کر (جس کے دوران وہ دو اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں پڑھے) واپس وطن چلے گئے اور اس مختصر عرصہ میں بھی اُن کے آبا (ہندوستانی نہیں عرب) کی کتابوں کے یورپ میں انگریزی ترجموں کی اشاعت نے اُن کے دل کو اس طرح توڑا کہ اُس کے 30 ٹکڑے ہو گئے۔ یہ کالم نگار برطانیہ میں نصف صدی سے مقیم ہے (جس دوران وہ یہاں کے بہت اچھے تعلیمی اداروں میں دس سال پڑھاتا رہا) وہ برطانیہ کی ہر اچھی لائبریری کی زیارت کر چکا ہے اور لندن میں برٹش لائبریری (غالباً دُنیا کی سب سے بڑی)کا 40 برسوں سے رُکن ہے۔ اُس کے دل کا کیا حال ہوا ہوگا اور ابھی آنے والوں سالوں میں (بشرطِ زندگی) مزید کیا حال ہوگا؟ یورپ کی ترقی کے بہت سے اسباب ہیں مگر حصول علم اور طلب علم سرفہرست ہے۔ اچھی یونیورسٹیوں کی لائبریریاں ہفتہ کے ساتوں دن اور 24 گھنٹے کھلی رہتی ہیں۔ وہاں آدھی رات کو بھی جائیں تو بیٹھنے کے لئے جگہ نہیں ملتی۔ اچھی کتابیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بکتی ہیں اور کامیاب مصنف کروڑ پتی بن جاتے ہیں۔ اگر ہالی وڈ والے ناول کو فلم بنانے کے لئے چن لیں تو پھر کہانی لکھنے والا ارب پتی لوگوں کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے(یا ہو سکتا ہے۔)
70 سال پہلے پاکستان بنا تو ہر کتاب کے اندر لکھا ہوتا تھا کہ تعداد اشاعت ایک ہزار ہے۔ آج علامہ اقبالؒ پر ایک درجن کتابیں لکھنے والے جناب محمد شریف بقا (جو مشرقی لند ن کی ایک بستی بارکنگ میں بارہ سال میرے پڑوسی رہے) نے مجھے یہ بری خبر سنائی کہ اب ناشرین کتابیں پہلے سے نصف یعنی صرف 500 شائع کرتے ہیں اور اگر وہ بھی کسی تردد کے بغیر فروخت ہو جائیں تو خوشی کے مارے گلاب جامن کھاتے ہیں۔ کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کتاب لکھنے والے کو بھی گلاب جامن (پورا نہیں تو آدھا) کھلاتے ہیں یا نہیں؟ بقا صاحب کے حالات دیکھ کر اس سوال کا جواب نفی میں دینے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ کتنا اچھا ہوکہ پاکستان میں جو لوگ ایک اچھی کتاب لکھ نہیں سکتے، وہ ہر ماہ ایک اچھی کتاب خریدنے کی عادت ہی اپنا لیں۔
اس کالم نگار نے دو کالم تھائی لینڈ کے بادشاہ کی وفات پر لکھے تو میرے قارئین کا ایک حصہ اتنا بیزار ہوا کہ اُس نے مجھے بذریعہ ای میل یاد دلایا کہ کیا مجھے احوال وطن نظر نہیں آتے کہ میں مشرقِ بعید کا رُخ کرتا ہوں۔ یہ دوکالم لکھنے کا مقصد صرف تقابلی جائزہ پیش کرنا تھا۔ ایک ایشیائی ملک (چاہے وہ ہم سے ہزاروں میل دُور ہو) اور پاکستان کے درمیان کئی چیزیں مشترک ہیں اور بہت سی مختلف۔ ہم تھائی لینڈ کی حالیہ سیاسی تاریخ سے کئی اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔جو باتیں کھل کر لکھنا مناسب نہیں لگتا تو وہ اشارتاً بیان کی جا سکتی ہیں۔ میں اپنے قارئین کو اتنا عقلمند سمجھتا ہوں کہ اُن کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ تھائی لینڈ کے حال احوال سے آپ کو کئی مفید اشارے ضرور ملے ہوں گے۔ 
آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے قارئین کو ہر ماہ کم از کم ایک اچھی کتاب سے متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کروں۔ آج دفتر سے گھر جانے لگا تو ریلوے اسٹیشن پر جا کر پتا چلا کہ برقی خرابی سے ریلوے سگنل کام نہیں کر رہے اس لئے اگلی ٹرین آنے میں ایک گھنٹہ کی تاخیر ہوگی۔ میں نے اس کو غنیمت جانا اور ریلوے اسٹیشن کی انتظار گاہ کی بجائے کتابوں کی قریبی دکان میں 45 منٹ گزارنے چلا گیا۔ وہاں جس نئی کتاب نے مجھے اپنی طرف توجہ کیا اُس کا نام پڑھ کر ہی آپ خوش ہو جائیں گے: 
The History of Thieves, Secrets, Lies and the Shaping of a Modern Nation by Ian Cobain۔۔۔۔ اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے میں نے وہ صفحات ڈھونڈ لئے جن کا تعلق ہندوستان میں برطانوی راج سے تھا۔ 1947ء میں راج کے خاتمے کا وقت آیا تو دہلی کے اُوپر اُس دھوئیں کا بادل منڈلا رہا تھا جو سرکاری دستاویزات کا کئی من انبار ایک الائو میں جلانے سے پیدا ہوا۔ لندن میں برطانوی حکومت نے ہر کالونی میں اپنے افسروں کو سختی سے ہدایت کی کہ وہ یونین جیک لپیٹ کر وطن واپس لانے سے پہلے ایک احتیاط ضرور برتیں اور وہ تھی سرکاری کاغذات کو اس طرح تلف کرنے کی کہ وہ نہ کسی کے ہاتھ آئیں اور نہ پڑھے جا سکیں۔ جو سرکاری کاغذات جہازوں میں بھر کر برطانیہ لائے گئے اُنہیں لندن سے پچاس میل دُور شمال میں ایک جدید شہر Milton Keynes جہاں میرے مرحوم دوست راجہ اللہ دتا صاحب کے سارے بیٹے آباد ہیں، کی ایک غیر معروف عمارت میں چھپایا گیا تو فائلیں رکھنے والے Shelves کی لمبائی پندرہ میل بنی۔کینیا میں آزادی کے لئے جو انقلابی تحریک چلائی گئی اُس کا نام Mau Mau تھا۔ اس تحریک کو کچلنے کے لئے برطانوی حکام نے مقامی لوگوں پر بے پناہ ظلم و تشدد کیا۔ 2011 ء میں برطانوی وزات خارجہ کو اس سچائی کا اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اتنے سال فرش سے چھت تک 150فٹ لمبی Shelves پر رکھی ہوئی ہزاروں فائلوں کی موجودگی سے غافل ہونے کی اداکاری کرتی رہی۔ اسی اعتراف اور انکشاف کے دو سال بعد برطانیہ کی عدالت عالیہ نے کینیا میں تشدد اور غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنانے والے پانچ ہزار افراد کو دوکروڑ پائونڈ بطور ہرجانہ دینے کا حکم دیا اور حکومت کو کینیا کے عوام سے اُسی قسم کی معافی مانگنی پڑی جو پاکستان کی حکومت نے 45 سال گزر جانے کے بعد بھی پرانے مشرقی پاکستان اور نئے بنگلہ دیش کے عوام سے نہیں مانگی۔
آپ جانتے ہیں کہ پہلے Wikileaks کے نام سے عالمی شہرت رکھنے والی لاکھوں ای میل دستاویزات کا انکشاف سویڈن کے جس بہادر شخصJuliani Assangt نے کیا (جو اب کئی سالوں سے لاطینی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملکEcuador کے سفارت خانہ کے اندر چھپا ہوا ہے۔) جو کمی رہ گئی تھی وہ امریکہ کے Edward Snowden نے نکال دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی حکومت کے سرکاری راز افشا کر نے کے جرم کی کڑی سزا سے بچنے کے لئے وہ سالوں سے ماسکو میں سیاسی پناہ گزین ہے۔ نہ جانے وہ مبارک دن کب آئے گا جب امریکی حکومت ٹیکساس کی جیل میں 86 سال کی سزا بھگتنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو انسانی ہمدردی کی بنا پر رہائی دے گی؟ Assange سویڈن اپنے گھر واپس جا سکیںگے؟ اور Snowden امریکہ اپنے اہل خانہ کی ساتھ دوبارہ رہنا شروع کر یں گے؟ میرے باخبر قارئین یہ جانتے ہوںگے کہ امریکی فوج کے جس بے حد چھوٹے درجہ کے کارکن مگر برقی مواصلات کے ماہر Manning نے لاکھوں خفیہ Emails اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر Assange تک پہنچائیں اُسے امریکہ کی فوجی عدالت نے کورٹ مارشل کے بعد تیس سال قید تنہائی کی سزا دی ہے، جو یہ بہادر انسان ناقابل بیان ہمت اور حوصلہ سے بھگت رہا ہے۔ مقدمہ شروع ہوا تو ملزم مرد تھا۔ مقدمہ کی کارروائی نے طول پکڑا تو اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ مرد اپنی جسمانی تبدیلیوں کی بدولت عورت بن گیا، مگر قابل غور بات جنسی تبدیلی نہیں بلکہ وہ ذہنی تبدیلی ہے جس کی بدولت امریکی فوج کے ایک معمولی ملازم نے وُہ غیر معمولی کارنامہ سرانجام دیا جس نے دور جدید میں لاکھوں کروڑوں انسانوں کی سوچ بدل دی۔ اقبال نے اپنے بے مثال فارسی کلام میں لکھا تھا ع
زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز
اُردو ترجمہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنے اردگرد کے حالات اور ماحول کو ساز گار نہیں سمجھتے تو آپ اس کو خاموشی سے قبول کرنے یا اپنے غرور کا سودا کر کے اس سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے اس کے خلاف جنگ کریں اور لڑیں اور لڑتے رہیں، شکست و فتح کے امکان سے بالاتر ہو کر۔ ہماری 70 سالہ تاریخ میں صرف سات افراد اُس کڑے معیار پر پورا اُترے۔ فیض احمد فیض، حبیب جالب، مسعود کھدر پوش، حیدر بخش جتوئی، اختر حمید خان، عبدالستار ایدھی اور حسن ناصر۔ اس کالم نگار کا قارئین سے کیا پردہ؟ 1967ء میں وہ فوجی آمر (عیوب خان) سے نہ لڑ سکتا تھا اور نہ سمجھوتہ کر سکتا تھا، اس لئے وہ بال بچوں کو لے کر برطانیہ بھاگ گیا۔ نصف صدی گزرگئی وہ بدستور جلا وطن ہے اور آپ سے اس کالم کے ذریعہ ہم کلام ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved