چند سال قبل راقم کو بھارتی صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) جانے کا موقع ملا۔ وفد میں بھارت کے میڈیا اداروں ٹائمز آف انڈیا، دی ٹیلیگراف، ٹریبیون، اے این آئی وغیرہ سے وابستہ ایسے مدیران شامل تھے جنہیں سفارتی اور بین الاقوامی امور پر دسترس حاصل ہے۔ دس دن کے اس سفر میں مائونٹ کارمل اور بحیرہ روم کے بیچ خوبصورت شہر حیفہ میں یہودی مذہب کے اعلیٰ پیشوا یعنی چیف رِبیّ شلومو عمار سے ملاقات طے تھی۔ حیفہ پیغمبر حضرت الیاسؑ کا شہر ہے۔ یہودیوں میں دو چیف ربیّ ہوتے ہیں جو تاحیات کے بجائے دس سال کے لئے منتخب کیے جاتے ہیں۔ شاید اس یہودی عالم کے پاس وفد کے کوائف پہلے ہی پہنچ گئے تھے، چونکہ میں واحد مسلمان صحافی تھا، اس لئے اس نے علیک سلیک کے بعد کہا کہ چند لوگ دنیا سے یہودیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، مگر ایسا ناممکن ہے کیونکہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد مسلمان روزانہ نماز میں حضرت ابراہیمؑ کی اولاد کے لئے سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں اور یہ ان کے ایمان کا جز ہے۔ انہی کی دعائوں کے طفیل آل ابراہیم (یعنی یہودی) قائم و دائم ہیں۔ چونکہ اس استعاراتی گفتگو کا محور میں ہی تھا، اس لئے میں نے جواباً کہا، یہ حقیقت ہے کہ حضرت اسمعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ دونوں حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں اور اگر مسلمان آل اسمعیل ہیں تو یہودی آل اسحاق ہیں، مگر یہودی صحیفوں کے اصول وراثت کی رو سے بڑے بھائی کو ہی وسائل کا حقدار تسلیم کیا جاتا ہے اور خاندان کی سربراہی بھی اسی کو منتقل ہو جاتی ہے، اس اصول سے تو فلسطین اور اسرائیل پر مسلمانوںکا حق تسلیم شدہ ہے۔ یہودی عالم نے مسکراتے ہوئے گفتگو کا رخ موڑ دیا۔
چند روز بعد جب ہم ٹورسٹ بس میں اسرائیلی گائیڈ کے ہمراہ یروشلم سے براستہ دشت جودی، بحر میت (Dead Sea) کی طرف رواں تھے تو چند مواقع پر میں نے اس بھارت نژاد اسرائیلی خاتون گائیڈکو تاریخی حوالے توڑنے مروڑنے پر ٹوکا، تو اس نے مائیک میرے حوالے کرکے بقیہ سفر میں مجھے رہنمائی کرنے کے لئے کہا۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید وہ میرے ٹوکنے سے ناراض ہوگئی ہے، مگر جب اس نے کہا کہ وہ خود تاریخ کا دوسرا رخ سننے کے لئے بے تاب ہے، تو میں نے مائک لے کر دشت جودی سے گزرتے ہوئے آس پاس کھنڈرات کے وسیع و عریض علاقوں، حضرت لوطؑ، حضرت یحییؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے واقعات بیان کرنا شروع کر دیے۔ مجھے خود بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ الفاظ کا یہ سمندرکہاں سے امڈ آیا ہے۔ بچپن میں سلاتے وقت دادی کی سنائی ہوئی قصص الانبیاؑ کی کہانیاں، نماز جمعہ سے قبل مواعظ کے ذریعے ارض فلسطین اور بنی اسرائیل کے بارے میں سنے ہوئے واقعات اورکچھ مطالعے کی بدولت سب کچھ زبان پر آ رہا تھا۔ بس میں خاموشی طاری تھی۔ منزل پر پہنچ کر جب میں نے مائیک واپس گائیڈ کے حوالے کیا تو کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اس سرزمین میں پہلی بار وارد ہوا ہوں۔ دی ٹیلیگراف کے سفارتی ایڈیٹر نے جب مجھ سے اس بارے میں استفسار کیا تو مجھ سے صرف یہی جواب بن پڑا کہ ارض فلسطین دنیا بھر کے مسلمانوں کی رگوں میں پیوست ہے۔
اردن اور فلسطین کے درمیان بحر میت میں نمک کی مقدار 30 فیصد سے زیادہ ہے، اس لئے اس میںکوئی ذی روح زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے400 میٹر نیچے ہے۔ چونکہ اس سمندر میں کوئی ڈوب نہیں سکتا، یہاں سیاح آرام سے پانی کی سطح پر لیٹ کر اخبار وغیرہ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کی ایک کثیر ملکی کمپنی اس سمندر سے کان کنی کرکے دنیا بھر میں جلدکی خوبصورتی اور علاج کے لئے Dead Sea Products سپلائی کرتی ہے۔ اس بحر کی تہہ کو جلدی امراج کے علاج کے لئے استعمال کرنے کا سہرا کراچی سے ہجرت کرنے والے یہودی سائنس دان زیوا گلاڈ کے سر ہے۔ واپس دہلی پہنچ کر معلوم ہوا کہ اسرائیلی گائڈ کی کمپنی کو اسرائیلی فارن آفس نے بلیک لسٹ کر دیا ہے۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس کی گائڈ نے مائیک ایک مسلمان کو تھما کر بھارتی صحافیوں کے دورے کا مقصد سبوتاژ کر دیا۔
بہرحال اس تمہیدکا مقصد یہ تھا کہ چند ماہ قبل دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ دراصل غزہ میں برسر اقتدار حمص نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ اسرائیل کی تیاریوں کے پیش نظر بھارت کے دو میڈیا اداروںکو خالد مشعل کے ساتھ انٹرویو کی پیشکش کی تھی۔ مگر عین وقت پر کسی نہ کسی وجہ سے اس کو ملتوی کرنا پڑا تھا۔ آخر ایک روز حمص کے میڈیا آفس سے بتایا گیا کہ ہم قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچیں چونکہ خالد مشعل کئی بار اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے حملوں کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ ان کی سکیورٹی کے پیش نظر ایک مکان میں ہم سے موبائل فون لے لیے گئے اور پھر وہاں سے ایک دوسری جگہ لے جاکر ان سے ملاقات کا بندوبست تھا۔
فلسطینی لیڈر انتہائی تپاک سے ملے۔ وہ خود عالم اسلام میں رونما ہونے والے واقعات، پاکستان کے اندرنی حالات اور کشمیر کے بارے میں خاصے فکرمند تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ایران، شام اور حزب اللہ نے طویل عرصے تک آپ کی ہر ممکن مدد کی، یہاں تک کہ مشکل ترین حالات میں بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا، لیکن آپ نے ان کو دھوکہ دیا؟ مسکرا کر انہوں نے کہا: '' جہاں تک شام اور ایران کا تعلق ہے، سچ یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں برسہا برس سے درکار مدد دی، ہم اسے کبھی نہیں بھولیں گے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنہوں نے ہمیں مدد دی، ہم بدلے میں بہر صورت ان کی حمایت کریں اور ان کے داخلی معاملات میں پڑیں، ان کے اپنے ہی شہریوںکے خلاف لڑیں۔ شام کی حکومت اپوزیشن سے لڑنے کے لئے ہماری مدد چاہتی تھی، ہم نے اس معاملے میں ان سے دوری کو ہی بہتر سمجھا اور ان کے داخلی معاملے سے خود کو الگ رکھا۔ البتہ داعش اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف جنگ میں ہم ان کے ساتھ ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا کہ دنیا بھر میں تحریک مزاحمت اور دہشت گردی گڈ مڈ ہوگئی ہے توان کا کہنا تھا:
''یہ واقعی ایک سنگین مسئلہ ہے، مگر یہ عالمی طاقتوںکا دہرا معیار ہے۔ ہماری جنگ صرف غاصب کے خلاف ہے اور فلسطینی سرحدوں تک ہی محدود ہے۔ اس طرح کی تمام تحریکوںکو عالمی قوانین کا تحفظ حاصل ہے۔ اگر یہ دہشت گردی ہے، تو ویت نام اور نیلسن میڈیلا کی تحریک بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔ ان طاقتوں نے تو کئی دہائیوں تک یاسر عرفات کو بھی دہشت گر د قرار دیا تھا۔ ہم نے کبھی قتل عام یا بلاوجہ خونریزی میں حصہ نہیں لیا۔ قاتل اور مظلوم کی جدوجہد میں فرق کرنا لازمی ہے‘‘۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟ انہوں نے کہا: ''حمص کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا بھی تحریک کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے‘‘۔ مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حمص 2006ء کے نیشنل فلسطین اکارڈ پر کار بند ہے، جس کی رو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی ایگریمنٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیاسی لحاظ سے ہمیں طاقت ور بننے کی ضرورت ہے۔ دو گھنٹہ تک چلنے والے اس انٹرویو میں خالد مشعل نے بتایا کہ عالم اسلام کا موجودہ بحران یقیناً مسائل کی جڑ فلسطین سے توجہ ہٹانے کی ایک سازش ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران جتنی جلدی اس کو سمجھ سکیں ان کے لئے بہتر ہے، ورنہ بربادی ان کا مقدر ہے۔