ایک دوست تشریف لائے تو باہمی گفت گو میں شام میں جاری امتِ محمدیہ کے قتلِ عام کا تذکرہ ہوا۔ تفاصیل پر بات ہوئی تو میری آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئے اور وہ دوست بھی زاروقطار رونے لگے۔ سچی بات یہ ہے کہ گزشتہ کافی عرصے سے ہر رات یہ معمول بن گیا ہے کہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی یاد میں اشکوں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں۔ پھر سیرتِ طیبہؐ سے حوصلہ ملتا ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ ہم خلوص سے ان مظلومین کے لیے دعائیں کرتے رہیں تو شاید اللہ کے ہاں کسی بندۂ مخلص کی دعا قبولیت کا شرف حاصل کر لے۔ پھر میں نے سیرتِ سید کونینؐ سے سفر طائف کا تذکرہ کیا۔ آپ کی خدمت میں بھی یہ احساسات پیش کیے جا رہے ہیں۔
آپؐ کی زندگی میں ایک مشکل ترین مرحلہ ، طائف کا سفر تھا۔ طائف کے سفر میں رسولِ رحمتؐ یہ امید باندھے ہوئے مکہ سے نکلے تھے کہ اہلِ مکہ نے تو دعوتِ حق کو ٹھکرا دیا ، شاید بنو ثقیف اس دعوت کو قبول کر لیں، مگر وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ یہ تو اہلِ مکہ سے بھی زیادہ بے مروت، درشت خو اور سنگ دل ہیں۔ قبیلے کے تین سردار عبد یالیل، مسعود اور حبیب عربوں کی روایتی مہمان نوازی کے برعکس آپؐ کے استقبال کے بجائے خندۂ استہزا کے ساتھ آپؐ سے مخاطب ہوئے۔ عبدیالیل نے کہا: ''اگر تو اللہ کا رسول ہے تو پھر مارے شرم کے میں کعبہ کے سامنے جا کر اپنی ریش منڈوا دوں گا‘‘۔ حبیب نے فلسفیانہ انداز میں کہا: ''میں تو تجھ سے بات بھی نہیں کروں گا۔اگر تو واقعی خدا کا رسول ہے تو میں کہیں گستاخی نہ کر بیٹھوں اور اگر تو خدا پر جھوٹ باندھتا ہے تو تجھ سے بات کرنا میرے شایانِ شان ہی نہیں‘‘۔مسعود ثقفی نے کہا: ''کیا اللہ اتنا بے بس ہو گیا تھا کہ تجھے رسول بنا دیا، جس کے پاس سواری تک نہیں۔ کیا وہ کسی حاکم اور سردار کو رسول نہیں بنا سکتا تھا‘‘۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے منکرین کے اس اعتراض کا ذکر فرمایا ہے۔ قریش بھی یہ اعتراض کیاکرتے تھے کہ یہ کیسا نبی ہے جس کے پاس دنیا کی دولت اور شان و شوکت نہیں، جس کے پاس باغات و محلات نہیں، جس کے در پر دربان نہیں... اللہ نے ان سب لچر اعتراضات کی طرف سورۃالانعام ، سورۂ بنی اسرائیل ، سورۃ الفرقان اور سورۃ الزخرف میں اشارات فرمائے ہیں اور یہ حقیقت واضح کی ہے کہ دنیا کے مال و دولت کی فراوانی کا اللہ کی رحمت (نبوت و رسالت) سے موازنہ ہی حماقت ہے۔ ہم ذیل میں سورۃ الزخرف کی آیات 13 تا 53کا ترجمہ دے رہے ہیں۔
''کہتے ہیں : یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟ کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں۔ اور تیرے رب کی رحمت (یعنی نبوت) اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (ان کے رئیس ) سمیٹ رہے ہیں۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے تو ہم خدائے رحمان سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ اپنے بالاخانوں پر چڑھتے ہیں اور ان کے دروازے اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں، سب چاندی اور سونے کے بنا دیتے۔ یہ تو محض حیاتِ دنیا کی متاع ہے اور آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقین کے لیے ہے‘‘۔ (اس کے علاوہ ملاحظہ فرمایئے سورۃ الانعام، آیات221 تا 421، سورۂ بنی اسرائیل ، آیات9 تا 39 اور سورۃ الفرقان، آیات 7,8)۔
ان آیات کی روشنی میں حضور اکرم ؐ کی سیرت پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ آپ کبھی احساس کمتری کا شکار نہ ہوئے۔ آپؐ نے فقر و فاقہ میں بھی اپنے کردار کی عظمت سے دنیا کے اہلِ ہوس پر برتری حاصل کی اور سارے وسائل حاصل ہو جانے کے بعد بھی ''الفقر فخری‘‘ کا نمونہ بنے رہے۔ کردار کی عظمت ہی اصل چیز ہے۔
طائف میں معاملہ محض یہیں تک نہ رہا بلکہ ان شقی القلب سرداروں نے شہر کے تمام اوباشوں کو جمع کیا اور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے اور پتھر مارنے کا اشارہ کر دیا۔ سفر طائف میں آنحضورﷺ ان اوباشوں کی سنگ زنی سے زخمی ہو کر گر گئے۔ جاں نثار صحابی زید بن حارثہؓ آنحضورﷺ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر شہر سے باہر لائے۔ وادی نخلہ میں آنحضورﷺ نے دن کا آخری حصہ اور اگلی رات گزاری۔ اس رات وہ پہاڑی بھی بقعہ نور بن گئی، جہاں آنحضورﷺ کے زخموں کو حضرت زید بن حارثہؓ دھو رہے تھے اور مرہم پٹی کر رہے تھے۔ اسی مقام پرعتبہ و شیبہ، ابنائے ربیعہ کے ایک غلام عداس نے آنحضرتؐ کی خدمت میں ایک رکابی پیش کی، جس میں تازہ انگور تھے۔ اگرچہ عتبہ و شیبہ اسلام دشمن تھے لیکن مصیبت کی اس گھڑی میں ازراہِ ہمدردی انھوں نے آنحضورﷺ کی خدمت میں یہ ہدیہ بھیجا تھا۔
آنحضورﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر انگوروں کا خوشہ اٹھایا‘ عداس نے یہ کلمہ سنا تو تعجب سے پوچھا کہ یہاں کے باشندے تو یہ کلمہ نہیں بولا کرتے۔ آپؐ نے پوچھا: ''تم کہاں کے باشندے ہو اور تمہارا دین کیا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ''میںحضرت عیسیٰؑ کا پیرو ہوں اور نینوا کا باشندہ ہوں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ''کیا تم مرد صالح یونسؑ بن متی کے ہم وطن ہو؟‘‘ عداس نے مزید تعجب سے پوچھا: ''آپ کو اس کی کیسے خبر ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ''وہ میرا بھائی ہے۔ وہ بھی اللہ کا نبی تھا اور میںبھی اللہ کا نبی ہوں‘‘۔ عداس نے اس موقع پر آنحضورﷺ کی طرف جھکتے ہوئے آپ کے سر، ہاتھوں اور قدموں کو چوما۔جب عداس اپنے آقائوں کے پاس لوٹ کر گیا تو انھوں نے اسے سخت سست کہاکہ اس نے اجنبی مسافر کے ہاتھ پائوں اور سر کیوں چومے۔ عداس نے جواب میں کہا: ''آقا! اللہ کی زمین پر آج اس شخص سے اعلیٰ و ارفع مقام کا حامل کوئی شخص نہیں۔ اس نے مجھے ایسی بات بتائی جو صرف نبی ہی بتا سکتا ہے‘‘۔ سرداروں نے اسے ڈانٹااور کہا کہ خبردار ! اس کے دین میں مت داخل ہونا، تیرا دین اس کے دین سے بہتر ہے۔
نخلہ کی وادی میں اس رات دو اہم واقعات پیش آئے۔ ایک تو آنحضورﷺ کی وہ دعا جو اہلِ ایمان کے لیے اللہ سے جڑ جانے اور بدترین حالات میں بھی امید کی شمعیں روشن رکھنے کا بہترین نسخہ ہے۔ دوسرا جنوں کی ایک جماعت کا آنحضورﷺ سے قیام اللیل یا صلوٰۃ الفجر میںقرآن پاک کی تلاوت سننا اور اس پر ایمان لانا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ بندہ کبھی مایوس ہو کر ہتھیار نہ ڈال دے۔نیز اللہ کی راہ میں زخم کھانے والوں کے لیے اللہ کی مخلوق میں قبولیت کی راہیں کھلتی ہیں اور مدد ایسے راستوں سے آتی ہے جن کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔آنحضورﷺ کی وہ دعا اس قابل ہے کہ اسے ہر مسلمان یاد کر لے اور ہر مشکل گھاٹی میں پورے جذب و شوق سے بارگاہِ ربانی میں پیش کرے۔ مورخ ابن ہشام نے اپنی سیرت نبویؐ کی جلد دوم میں صفحہ 26 پر اسے نقل کیا ہے۔ اس کا ترجمہ نیچے درج ہے۔
الٰہی! میں اپنی کمزوری، بے سروسامانی اور لوگوں کے سامنے بے وقعتی کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں، تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ،درماندہ عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے۔ تو مجھے کس کے سپرد کرتا ہے، کیا بیگانہ ترش رو کے یا اس دشمن کے جسے تو نے میرے معاملے کا ذمہ دار بنایاہے؟ اگرمجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے کچھ پروا نہیں، کیونکہ تیری عافیت میرے لیے زیادہ وسیع ہے۔ میں تیری ذات کے نور کی پناہ چاہتا ہوں، جس سے سب تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور دنیا و دین کے کام اس سے ٹھیک ہو جاتے ہیں، کہ تیرا غضب مجھ پر اترے یا تیری ناراضی مجھ پر وارد ہو۔ مجھے تیری ہی رضا اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے یا بدی سے بچنے کی طاقت مجھے تیری ہی طرف سے ملتی ہے۔(یہ حدیث تفہیم الاحادیث: ج2، ص331پر بھی دیکھی جا سکتی ہے)
ان واقعات سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ آنحضورؐ اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہوئے نہ حالات کی شدت سے کبھی آپؐ کا حوصلہ پست ہوا ہے۔ آپؐ تو دنیا میں امید و رجا کی شمعیں روشن کرنے کے لیے آئے تھے۔ مایوس اور نا امید لوگوں کو حوصلہ بخشنے اور گرے ہوئوں کو اوپر اٹھانے کا مشن آپؐ کے سپرد ہوا تھا۔ آپؐ نے اس کا حق ادا کیا۔ آج امت مسلمہ کو اپنے آقاؐ سے اپنا رشتہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔