دلہن کو نکاح کی تقریب کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔ ایک بڑا، خاصا بھرا ہوا گلاب کا سہرا لایا گیا جو دلہن کے سر پر باندھا جانے والا تھا۔ سہرا باری باری خواتین کے ماتھے سے لگایا جارہا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سات سہاگنوں کے ماتھے سے چُھواکر سہرا دلہن کے سر باندھا جائے گا۔ یہ اہتمام اس لیے تھا کہ دلہن کی زندگی میں برکت ہی برکت ہو۔ کسی نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہ کی کہ اتنا اہتمام کرنے پر بھی دلہن کی شادی شدہ زندگی میں برکت پیدا نہ ہو اور معاملہ طلاق یا بیوگی پر ختم ہو تو کس سہاگن کی نحوست کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے!
ہم نے یہی تماشا مردانے میں بھی دیکھا ہے یعنی سہرا سات بااولاد مردوں کے ماتھے سے چُھواکر دولہا کے سر پر باندھا جاتا ہے۔ یہ اہتمام اس لیے کہ دولہا بھی اولاد کی نعمت سے مالا مال ہو۔ مگر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اولاد والوں کے ماتھے سے چُھواکر سہرا اپنے سر سجانے والا دولہا اولاد کی نعمت سے ہم کنار نہیں ہوتا! سوال پھر وہی ہے کہ اولاد والے سات مردوں کے سر سے سہرا چُھوانے پر بھی اگر کوئی بے اولاد رہ جائے تو الزام کس کے سَر منڈھا جائے؟
یہ سب کچھ ہمیں ایک کالے بکرے نے رن وے پر ذبح ہوکر یاد دلایا ہے۔ قومی ایئر لائن کی خوبی یہ ہے کہ اُس میں طیاروں کے سوا ہر چیز اور ہر معاملے کی پرواز لاجواب رہا کرتی ہے۔ دو دن قبل قومی ایئر لائن کے ملازمین نے اسلام آباد ایئر پورٹ کے رن وے سے ایک اور لاجواب اڑان بھری ہے۔ یہ ہے صدقے کی اڑان!
جو کچھ پی آئی اے کے ملازمین نے کیا اُسے دیکھ کر کرے کوئی، بھرے کوئی والی کہاوت یاد آئے بغیر نہ رہ سکی۔ خرابیاں ہم میں ہیں اور اُنہیں دور کرنے کی ذمہ داری بے زبانوں کے سَر پر لادی جارہی ہے۔ تکنیکی مہارت میں رہ جانے والی کمی دور کرنے اور مستعدی کے بند میں پڑنے والا تساہل کا شگاف پُر کرنے کے لیے ایک بار پھر کالے بکروں کو زحمت دی گئی ہے۔ سانحہ حویلیاں کے بعد جب پی آئی اے کے اے ٹی آر طیاروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا تو ان طیاروں کی پروازیں روک دی گئیں۔ کہا جارہا تھا کہ اے ٹی آر طیاروں کے انجن مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے رپورٹ دی کہ پرواز کے دوران 20 مرتبہ ان کے انجن بند ہو جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔ اے ٹی آر طیاروں کے انجن درست کرنے کے بجائے ان کی کارکردگی بہتر بنانے کی ذمہ داری کا طوق کالے بکروں کے گلے میں ڈال دیا گیا یعنی اُن کے سَر اتار لیے گئے! ہوا یہ کہ اے ٹی آر طیاروں کی پروازیں بحال ہونے پر ایک طیارے کی اسلام آباد سے ملتان روانگی سے قبل ڈائریکٹر انجینئرنگ کے حکم پر رن وے ہی پر طیارے کے پہیوں کے پاس کالا بکرا ذبح کیا گیا!
اخبار میں یہ خبر پڑھ کر مرزا تنقید بیگ کی رگِ شرارت پھڑک اٹھی اور وہ طنز و تشنیع کا چُھرا تیز کرکے ہمارے ہاں آدھمکے۔ ہماری رائے یہ تھی کہ طیارے محض بکروں کا صدقہ دینے سے محفوظ پرواز کے قابل نہیں ہو جاتے۔ اِس کے لیے طیارے کے تمام تکنیکی معاملات کا بے داغ ہونا شرط ہے۔ مزید برآں، پائلٹ بھی حاضر دماغ اور طبّاع ہونا چاہیے۔
مرزا کا استدلال تھا کہ اللہ نے سب کا رزق اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ بکرے پالنے والوں کو بھی تو اللہ ہی پالتا ہے۔ اچھا ہے، ہر پرواز سے قبل بکرے ذبح کرنے کو ''اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر‘‘ کا حصہ بنالیا جائے تو بکرے پالنے والوں کی بھی چاندی ہوجائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ چند تجربہ کار قصائیوں کو بھی پی آئی اے میں ملازمت مل سکے گی۔‘‘
مرزا بولے جارہے تھے اور ہم سُنتے ہوئے بھی اُن کی باتوں کو اُن سُنی کر رہے تھے۔ بات یہ ہے کہ ہم ''چشمِ تصور کی آنکھ‘‘ سے کسی اور ہی دنیا کو دیکھ رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ پی آئی اے سے سفر کے لیے ٹکٹ خریدیے تو اس میں ڈیوٹی اور ٹیکسز کے ساتھ ایک مد صدقے کی بھی ہے! اور ذیلی مد میں بکرے کی کٹائی اور آلائشوں کی اٹھوائی کے اخراجات بھی درج ہیں! ''چشمِ تصور کی آنکھ‘‘ نے ہمیں یہ بھی دکھایا کہ پی آئی کے طیارے میں مسافر بیٹھ چکے ہیں، صرف ایک مسافر کا انتظار ہے۔ طیارے کا تکنیکی عملہ انجن چیک کر رہا ہے اور دوسری طرف وہ ایک مسافر ٹنل سے گزر کر طیارے میں داخل ہونے کو تیار نہیں۔ اس کا مطالبہ ہے کہ پہلے بکرے کے درشن کرائے جائیں۔ بکرا سامنے لایا گیا تو موصوف نے اعتراض کردیا کہ یہ تو بالکل مریل ہے، مسافروں سے بھرے ہوئے طیارے کا بوجھ کیسے اٹھاسکے گا! اب پی آئی اے کا عملہ سمجھا رہا ہے مگر وہ اللہ کا بندہ بضد ہے کہ پرواز سے قبل کوئی تگڑا بکرا ذبح کیا جائے تاکہ پرواز ہر اعتبار سے محفوظ رہے۔ اب کیا کیا جائے؟ فوری طور پر کوئی اور بکرا دستیاب نہیں!
طیارے کے دیگر مسافروں نے جب یہ رام کہانی سُنی تو وہ بھی بضد ہوئے کہ فضاء میں اُن کی سکیورٹی کا معاملہ کسی مریل بکرے کے حوالے نہ کیا جائے!
لیجیے، گئی طیارے کی بھینس پانی میں۔ پرواز کے نصیب میں تاخیر لکھی تھی سو ہوئی۔ بھاگم بھاگ دو تگڑے کالے بکروں کا انتظام کیا گیا۔ ایک بکرا طیارے کے دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف ذبح کیا گیا تاکہ دونوں طرف کے مسافروں کی تشفّی ہوسکے! یہ مرحلہ طے ہوا تب کہیں طیارہ زمین چھوڑ سکا۔
مرزا نے کاندھا پکڑ کر ہمیں جھنجھوڑا تو ہم خیالی دنیا سے باہر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''یہ ملک چل ہی رہا ہے صدقے کے بکروں کی برکت سے۔ کیا یاد نہیں کہ چند برس قبل ایوان صدر میں بھی یومیہ بنیاد پر بکرے ذبح کیے جاتے تھے؟ وہ یومیہ صدقہ کسی پرواز کے لیے نہیں بلکہ ملک کو 'گراؤنڈیڈ‘ رکھنے کے لیے تھا! کسی کو اپنی صدارت کی پرواز جاری رکھنی تھی سو اِس پرواز کی دبئی میں لینڈنگ تک بے چارے کالے بکرے ایوان صدر کی چوکھٹ پر قربان کیے جاتے رہے!‘‘
ہم نے پی آئی اے کے ٹکٹ میں صدقے کے بکرے، اس کے ذبیحے اور آلائشیں اٹھوانے کے اخراجات کی مد کا ذکر از راہِ تفنّن کیا ہے مگر دل ڈر رہا ہے کہ کہیں ہمارے قلم کے منہ میں کالی زبان نہ ہو یعنی واقعی ایسا نہ ہوجائے۔ اِس ملک میں اب کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایئر پورٹ پر امام ضامن کے ٹِھیے لگ جائیں یعنی بورڈنگ کارڈ لینے سے قبل کسی مستند نقش والا امام ضامن بازو پر بندھوائیے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایئر پورٹ پر کسی پہنچے ہوئے بزرگ کی ڈیوٹی لگادی جائے جو پرواز سے قبل ہر طیارے پر دَم کیا کریں!
کون زیادہ کمزور ہے ... پی آئی اے کے طیاروں کے انجن یا ہمارا اعتقاد؟ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ ملک کا یہ حال ہے کہ بیشتر معاملات کی درستی کے لیے ''اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر‘‘ کی خامیاں دور کرنے کے بجائے بکروں کا ذبیحہ کیا جارہا ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ چند گدھے خود کو بچانے کے لیے بکروں کو چُھری کے نیچے دے دیتے ہیں!
فضاء میں طیارے کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے رن وے پر، عین طیارے کے نیچے یعنی پہیوں کے پہلو میں کالے بکرے کا صدقہ! یہ بھی نہ سوچا گیا تو قوم کیا سوچے گی، دنیا کیا کہے گی۔
حادثہ تو کبھی بھی اور کہیں بھی ہوسکتا ہے۔ مگر ہاں، تکنیکی عملے اور پائلٹس کی نا اہلی، کوتاہی یا تساہل کا سراغ لگاکر کماحقہ محاسبہ کیا جائے اور جس کا قصور ہو اُسے انصاف کی چُھری کے نیچے لایا جائے تو ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پرواز محفوظ بنانے کا معاملہ کالے بکروں کے ذبیحے تک نہیں پہنچے گا۔
ویسے مستقل خسارے کے باوجود ایک مدت سے قومی ایئر لائن کو اہل وطن سے وصول کیے جانے والے ٹیکس کے پیسوں سے چلایا جارہا ہے۔ اس زاویے سے دیکھیے تو اسٹیل مل کی طرح اِس پورے کے پورے ادارے کو بھی صدقے کی اڑان قرار دیا جاسکتا ہے!