تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     21-12-2016

کالے بکروں کے ٹوٹے

پی آئی اے نے طیارہ ساز کمپنیوں کی ایک فنی خرابی دور کرنے کے لئے سیاہ بکرے کا خون شامل کر کے‘ آخری تکنیک کی کمی پوری کر دی ہے۔ اس کمی کااحساس اس وقت کیا گیا‘ جب چترال سے اسلام آباد آتا ہوا اے ٹی آر طیارہ حویلیاںکی پہاڑیوں پر انتہائی تباہ کن انداز میںگرا اور طیارے کے تمام مسافر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس تباہ کن سانحے نے پی آئی اے کوایک بنیادی کمی کا احساس دلایا۔ ہو سکتا ہے اس کمی کی طرف شاہی خاندان کے کسی فرد نے توجہ دلائی ہو۔میاں طارق شفیع اتنے توہم پرست تو نہیں ہیں لیکن خدا ترس بہت ہیں۔ انسانی زندگیاں بچانے کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بکرے کی حیثیت ہی کیا ہے؟ پی آئی اے کی جتنی پروازیں صرف پاکستان سے شروع ہوتی ہیں‘ ان کی نسبت سے ہزاروں بکرے روز قربان کرنا پڑیں گے۔ بلکہ دنیا میں جہاں جہاں سے بھی پی آئی اے کے جہاز اڑتے ہیں‘ ایک بکرا ضرور قربان ہوا کرے گا۔ کرپشن کا ایک سنہرا موقع پیدا ہو گیا۔ ذبح ہونے والے بکروں کی کھالوں‘ سری پائے‘ اوجڑی اور کلیجی پھیپھڑوں کا نیا کاروبار شروع ہو جائے گا۔ سری پائے تو شاہی خاندان ہی چٹ کر لیا کرے گا۔ اس موضوع پر کئی لکھنے والوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ وہ بھی پیش خدمت کر رہا ہوں۔ بی بی سی کے لئے طاہر عمران نے لکھا:
''پی آئی اے ان دنوں ریڈار پر ہے اور اس کی ہر حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ اس کے طیارے میں کوئی بال برابر بھی مسئلہ نظر آئے تو میڈیا اس پر رپورٹ کرتا ہے۔اسی طرح گزشتہ دو دن سے پی آئی اے کے ایک طیارے کے سامنے بکرے کا صدقہ دینے کی تصویر خوب شیئر کی جارہی ہے۔پی آئی اے کا یہ طیارہ اے ٹی آر کے بیڑے میں سے پہلا ہے جسے سول ایوی ایشن اتھارٹی نے تمام جانچ پڑتال کے بعد پرواز کے لیے کلیئر کیا تھا ‘جس کے بعد مقامی انجینئرز نے کالے بکرے کا صدقہ دیا۔سوشل میڈیا پر جس انداز میں اس سارے معاملے کو اکثریت نے تضحیک کا نشانہ بنایا وہ تو یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ اس میں عقائد اور صدقے کے حوالے سے جو باتیں کی گئیں وہ یہاں نہیں لکھی جا سکتیں مگر اس پر انجینئرنگ کے حوالے سے دلچسپ تبصرے بھی سامنے آئے۔ندیم فاروق پراچہ نے لکھا کہ'' اب پرواز پر مٹن ملے گا۔‘‘ جبکہ کرسٹین رور نے لکھا ''طیارے کے حادثے کے بعد پی آئی اے کا سٹاف کچھ بھی چانس پر نہیں کرنا چاہتا طیارے کے کلیئر ہونے کے بعد پروازوں سے پہلے کالے بکرے کا صدقہ دیا گیا ہے۔‘‘
جب پی آئی اے کے ترجمان سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پی آئی اے انتظامیہ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بکرا صدقہ کرنے کا عمل مقامی عملے نے اپنی ذاتی حیثیت میں کیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ صدقہ پرواز سے قبل کیا گیا تھا تو دانیال گیلانی نے بتایا کہ ''بکرے کا صدقہ عملے نے پہلے اے ٹی آر کے شیک ڈاؤن ٹیسٹ سے کلیئر ہونے کے بعد شکرانے کے طور پر دیا، جس کے کئی گھنٹے بعد طیارے نے پہلی پرواز کی اور یہ جو تاثر دیا جا رہا ہے کہ طیارے میں مسافروں کے سوار ہونے سے قبل یہ سب کچھ کیا گیا یہ بالکل غلط ہے۔ یہ صدقہ طیارے کے ہینگر کے قریب دیا گیا جو کہ ان جالیوں سے واضح ہے جو نظر آ رہی ہیں رن وے یا ٹارمیک پر ایسی جالیاں نہیں ہوتیں۔‘‘
تاہم مذہبی رسومات کا معاملہ نیا نہیں دنیا بھر میں نئے طیاروں اور سروسز سے پہلے دعائیہ تقریبات ہوتی ہیں جن میں مذہبی شخصیات آ کر طیاروں کو آشیرباد دیتے ہیں یا دعا کرتے ہیں۔پی آئی اے ہی کے ایک بوئنگ سیون تھری سیون طیارے کے بارے میں قصہ مشہور ہے کہ اس کو مختلف مسائل کا سامنا رہتا تھا جس کے مختلف حل سوچے گئے، تبدیلیاں بھی کی گئیں اور اس سب کے ساتھ ساتھ ایک عدد بکرا طیارے کے چرنوں میں قربان کیا گیا۔ بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ اس طیارے کی رجسٹریشن کو بھی تبدیل کیا گیا اور AP-BCE سے بدل کر AP-BFT کر دیا گیا۔کہتے ہیں کہ اس بعد طیارے کے مسائل کافی حد تک کم ہو گئے اور بالآخر یہ طیارہ خیروعافیت سے ریٹائر ہو گیا۔مگر سوال یہ ہے کہ صدقے تو پہلے بھی ہوتے تھے ایسا شاید پہلی بار ہوا کہ اے ٹی آر کے صدقے کی تصویر بنا کر شیئر کی گئی اور پھر یہ میڈیا کے ہاتھ آگئی جس نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔پی آئی اے کے ذرائع نے بتایا ہے کہ کمپنی اندرونی طور پر تحقیقات کر رہی ہے کہ کیا بکرا اور ذبح کرنے کے لیے چھری حساس مقام پر لیجانے کے لیے ضابطے کی کارروائی کی گئی یا نہیں۔‘‘
وائس آف امریکہ کے لئے محمد اشتیاق نے اظہار خیال کیا:
''پاکستان کی قومی ائیر لائن 'پی آئی اے‘ کا ایک 'اے ٹی آر‘ ساخت کا طیارہ رواں ماہ کی سات تاریخ کو چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے حویلیاں کے قریب پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔اس حادثے کے بعد سے 'پی آئی اے‘ کے زیر استعمال طیاروں کی حالت سے متعلق نا صرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خصوصی خبریں و تجزیے سامنے آئے، بلکہ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس یعنی 'سوشل میڈیا‘ پر بھی لوگوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار دل کھول کر کیا۔لیکن اس معاملے پر ایک مرتبہ پھر اتوار اور پیر کو 'سوشل میڈیا‘ کے علاوہ اخبارات میں بھی خبریں گرم رہیں، اس مرتبہ ان خبروں کی وجہ 'اے ٹی آر‘ طیاروں کی پروازوں کی بحالی سے قبل ایک طیارے کے سامنے ہوائی اڈے پر سیاہ رنگ کے بکرے کی قربانی بنی۔اس طرح بظاہر طیارے کے تحفظ کے لئے بکرے کی قربانی پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر 'پی آئی اے‘ کا تمسخر اڑاتے ہوئے کچھ انٹرنیٹ صارفین کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے کہ محض ایسی قربانی سے طیاروں کو اڑایا یا محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔واضح رہے کہ 7 دسمبر کو پیش آنے والے فضائی حادثے میں 'اے ٹی آر‘ طیارے پر سوار 42 مسافروں اور عملے کے پانچ اراکین میں سے کوئی بھی نہ بچ سکا تھا۔اس فضائی حادثے کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پی آئی اے کے زیراستعمال بقیہ تمام 10 'اے ٹی آر‘ طیاروں کو گراؤنڈ کر کے اْن کی تفصیلی جانچ کا کہا تھا، جس کے بعد ان طیاروں کا تفصیلی تکنیکی معائنہ کیا گیا۔
'پی آئی اے‘ کے ترجمان نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ 'اے ٹی آر‘ طیاروں کی چھ پروازوں کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اسلام آباد سے کابل، اسلام آباد سے ملتان اور اسلام آباد سے گلگت دو طرفہ پروازیں شروع کی گئیں۔واضح رہے کہ 'اے ٹی آر‘ طیارے کو پیش آنے والے حادثے کے بعد ہونے والی تنقید کے سبب پی آئی اے کے چیئرمین اعظم سہگل اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔‘‘
سوشل میڈیا کی برادری میں عدنان خان کاکڑ نے لکھا:
''پاکستانی بھائیو! سی پیک شاہراہوں کی سلامتی کا کیا پلان ہے؟
چینی بھائیو! ہم اس کے لئے پورا ایک ڈویڑن بنانے کا سوچ رہے ہیں۔ بلیک بکرا فورس۔ سی پیک سڑکوں پر ہر پچاس کلومیٹر کے بعد ایک کالا بکرا فارم ہو گا جہاں روزانہ کالا بکرا قربان کیا جائے گا اور سی پیک تمام آفات و بلیات اور دہشت گردوں سے سو فیصد محفوظ رہے گی۔
زرداری صاحب! آپ کی صدارت کے پانچ سال مکمل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ جنرل کیانی مارشل لا لگا دیں گے۔ آپ نے اپنے تحفظ کا کچھ بندوبست کیا ہے؟
پریشان مت ہوں۔ ہم مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ فول پروف تحفظ کی ضمانت مل چکی ہے۔ پیر صاحب کے حکم پر ایوان صدر میں روز ایک کالا بکرا قربان کیا جاتا ہے۔
عمران خان کے دھرنوں اور پنکچروں کے باوجود مرکزی حکومت اتنی مستحکم کیوں ہے؟
میاں صاحب روز کالے بکرے کی قربانی دیتے ہیں اور حکومت کو مزید بھاری کرنے کے لئے ناشتے میں اسی کے سری پائے کھا جاتے ہیں۔
وزیر داخلہ صاحب! ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد تو تلور پر رکھی گئی ہے۔ جب تک تلور دستیاب ہیں، ہمارے دوست ہمارا ساتھ دیتے رہیں گے۔ ہماری داخلہ پالیسی میں ہمارے تحفظ کا کیا بندوبست کیا گیا ہے؟
صحافی صاحب! ہم نے داخلی سلامتی کے لئے کثیر فنڈ مختص کر دیے ہیں۔ ملک بھر میں ہر تھانے میں کالے بکروں کی فارمنگ کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ ہر تھانیدار کو پابند کیا گیا ہے کہ صبح خود بکرے کے گلے پر چھری پھیرے تاکہ تھانے کی حدود سے سٹریٹ کرائم سے لے کر دہشت گردی تک کا خاتمہ ہو جائے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کالا بکرا ہماری سلامتی کا ضامن ہے اور اس کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔
وزیر دفاع صاحب! بھارت کے عزائم خطرناک لگ رہے ہیں۔ کل پرسوں ہی لائن آف کنٹرول پر بچوں کی وین کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ آپ نے شہریوں کے تحفظ کی خاطر کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟
آپ مطمئن رہیں۔ ہم غافل نہیں ہیں۔ ہم نے ہنگامی بنیادوں پر کالے بکروں کی ایک بڑی تعداد کو سرحدوں پر بھیجنے کا حکم دے دیا ہے۔
پی آئی اے کے چیئرمین صاحب! جہازوں کے حادثات کی خبریں تواتر سے آ رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے دس دن میں ہی پہلے چترال سے اسلام آباد جانے والا جہاز گرا۔ پھر ملتان سے کراچی جانے والے جہاز کو ٹیک آف سے عین پہلے انجن کی خرابی کا شکار ہو کر رکنا پڑا۔ اب لاہور سے کوالالمپور جانے والی فلائیٹ کے ہائیڈرالک پائپ پھٹ گئے اور اس کی کراچی میں ایمرجنسی لینڈنگ کرانی پڑی۔ آپ مسافروں کے تحفظ کے لئے کیا کر رہے ہیں؟
ہم جہاز کے عین پہلو میں رن وے پر ہی کالے بکرے قربان کر رہے ہیں۔
رکو رکو! میچ سے پہلے انضمام الحق اور مصباح الحق چھریاں لہراتے پچ کی طرف کیوں آ رہے ہیں؟
وہ اپنی جیت کو یقینی بنا رہے ہیں۔ پیچھے پیچھے وہاب ریاض کالا بکرا لا رہا ہے۔ پچ پر قربانی کریں گے۔
اگر کالے بکرے ہمارے تحفظ میں ناکام رہے تو ہم کیا کریں گے؟
ہم اپنا سب سے مہلک اور خفیہ ہتھیار استعمال کر دیں گے۔ کالی بھینس۔‘‘

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved