تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     21-12-2016

چوہدری نثار جو لمحہ ضائع کر بیٹھے.....!

چوہدری نثار سے پہلی ملاقات 2003ء میں پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں ہوئی تھی۔ ہر وقت خواجہ آصف کے ساتھ نظر آتے، اب وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔ وزارتیں پرانے دوستوں کو بھی اجنبی بنا دیتی ہیں۔ ملاقاتوں میں احساس ہوا وہ مختلف سیاستدان ہیں، سچی اور کھری بات کرتے ہیں اورذہین ہیں۔
ایک دفعہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے بارے میں بات ہورہی تھی تو بولے آپ کبھی مجھے اس میں دیکھئے گا، پھر وہ ایک دن کمیٹی کے چیئرمین بن گئے، دبنگ انداز میں کمیٹی چلائی، کسی افسر کو چوں کرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی؛ البتہ میری تنقید کا برا مناتے۔ ہر روز میرے خلاف تقریر سے اجلاس کی کارروائی شروع کرتے۔ سیاستدانوں کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے جو صحافی ان کے ساتھ کھانا کھا چکا ہو وہ بھلا کیونکر ان کے خلاف خبر دے سکتا ہے۔ چوہدری نثار نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو ٹف ٹائم دے رکھا تھالیکن اتنے سمجھدار ضرور تھے کہ اپنے ایم این اے انجم عقیل خان کے نیشنل پولیس فاونڈیشن میں چار ارب روپے کے سکینڈل کا کبھی نوٹس نہ لیا۔ تاہم جب انہوں نے پبلک اکاونٹس کمیٹی سے استعفے دیا تو میں نے ان کے حق میں کالم لکھا کہ کیا شاندار چیئرمین تھے، اپنی خامیوں کے باوجود کمیٹی کو اچھے انداز میں چلاتے تھے۔ وہ حیران ہوئے جب تک وہ چیئرمین تھے تو روزانہ ان کے خلاف سٹوری آتی تھی اور اب ماتم کر رہے ہو کہ کیوں چلے گئے۔ میں نے کہا ذاتی لڑائی تھوڑی تھی، رپورٹر کا کام ہے غلطیاں پکڑنا۔ وہ جہاں غلطی کرتے تھے میں خبر بنالیتا تھا ۔ وہ اگلے دن اجلاس میں میری کلاس لیتے اور میں اگلے دن پھر خبر ڈھونڈ لیتا اور وہ اگلے دن پھر میرے خلاف تقریر کے بعد اجلاس شروع کرتے۔ لیکن پھر بھی میری ان کے بارے میں رائے اچھی ہی رہی اگرچہ درمیان میں وہ مجھ سے ایسے ناراض ہوئے کہ کئی برس تک بول چال نہ رہی۔ چوہدری نثار بہت ڈیمانڈنگ سیاستدان ہیں، اگر ان کے حق میں لکھتے رہو تو آپ سے اچھا صحافی کوئی نہیں لیکن ایک دن خلاف لکھ دیں، عمر بھر کے لیے ایک راجپوت کی دشمنی۔ 
خیر جب وزیر داخلہ بنے تو کسی ٹی وی شو میں، میں نے تعریف کی کہ دبنگ آدمی ہیں اور وزارت کو خوب چلائیں گے۔ کئی برسوں بعد ان کا فون آیا کہ کسی نے انہیں بتایا تھا، آج تک میں نے ان کے منہ سے نہیں سنا انہوں نے خبر خود پڑھی تھی یا شو دیکھا تھا ۔ ہمیشہ کہیں گے کسی نے بتایا ہے۔ شاید وہ رپورٹر کو سر پر نہیں چڑھانا چاہتے کہ وہ یہ نہ سمجھ لے چوہدری نثار ان کی خبریں پڑھتا یا شوز دیکھتا ہے۔ خیر میں نے کہا میری ذاتی دشمنی تو نہیں، آپ کی جو باتیں اچھی لگتی ہیں وہ کہہ دیتا ہوں، اعتراض ہو تو لکھ دیتا ہوں۔آپ کی مہربانی آپ برداشت کرتے ہیں۔ بولے کسی وقت ملتے ہیں اور دال روٹی کھاتے ہیں ۔ مجھے علم تھا یہ دن کبھی نہیں آئے گا کیونکہ کچھ دن بعد کسی واقعے پر میں نے پھر ان کے خلاف کوئی خبر دینی ہے اور انہوں نے پھر ناراض ہوجانا ہے۔ وہی ہوا۔ پھرتبصرہ کیا، انہیں برا لگا ، فون نہ آیاکہ آئیں دال روٹی کھاتے ہیں ۔
دو سال گزرے تو ایک دن پھر فون آیا۔ حسب دستور بولے خود تو شو نہیں دیکھا لیکن کسی نے انہیں بتایا ہے میں نے ان کے خاندان کے حوالے سے کچھ قابل اعتراض باتیں کی ہیں۔ناراض ہو کر بولے کچھ روایات ہوتی ہیں کچھ بھی ہوجائے گھر تک کوئی نہیں جاتا۔ بولے ایک صحافی دوست چاہتے تھے میں رئوف کلاسرا کے خلاف تحقیقات کرائوں لیکن میں نے نہیں کرائی ۔ میں نے جواب دیا چوہدری صاحب مجھے پتہ ہے کون سا صحافی دوست آپ سے تحقیقات کرانا چاہتا تھا، آپ ابھی کرالیں، ہاتھ کنگن کو آر سی کیا،میں تو ہر حکومت سے اپنی انکوائری کراتا ہوں کیونکہ میں شہر کا سب سے بڑا فسادی جو ٹھہرا۔ میں نے کہا جہاں تک آپ کی شکایت کی بات ہے میرے خیال میں آپ نے میرا وہ پروگرام نہیں دیکھا جس میں آپ کے بقول آپ کے خاندان کے کچھ لوگوں کا غلط انداز میں ذکر ہوا۔ جب آپ کے آپریٹر نے نمبر ملایا تو میں سمجھا آپ میرا اس پروگرام پر شکریہ ادا کرنے کے لے فون کررہے ہیں۔ اگر ملک کا وزیرداخلہ پروگرام دیکھے بغیر کسی کے کہنے پر اینکر یا رپورٹر کو شکایت کرتا ہے تو یہ صدمے کی بات ہے۔ آپ کو کوئی بھی بھٹکا سکتا ہے۔مجھے علم نہ تھا آپ کانوں کے کچے ہوں گے۔ خیر ان کی مہربانی فوراً بولے میں پروگرام دیکھ کر دوبارہ فون کروں گا۔ میں نے کہا اگر آپ کو کہیں بھی لگے کہ آپ کے خاندان کی بے عزتی ہوئی ہے تو مجھے بتائیے گا میں معافی مانگ لوں گا، وعدہ کیا، ایک سال گزر گیا آج تک ان کا فون نہیں آیا۔ دال روٹی پھر درمیان میں رہ گئی۔ 
ایک دفعہ ان کے ڈائریکٹر میڈیا سرفراز صاحب کا فون آیا چوہدری صاحب دال روٹی پر بلانا چاہتے ہیں۔ میں پاکستان سے باہر تھا لیکن مجھے علم تھا ہوتا تو بھی یہ دال روٹی میری قسمت میں نہ تھی کیونکہ میں نے کچھ لکھ یا بول دینا تھا اور دال روٹی ایک سال کے لیے پھر نہیں ملنی تھی، خیر اس دوران پاناما سکینڈل کے بعد میں نے اپنے پروگرام میں کہا میری رائے میں اگر نواز لیگ میں کوئی ایم این اے وزیراعظم بننے کے قابل ہے تو وہ چوہدری نثار ہیں۔ میں نے یہ پاناما سکینڈل کے بعد کہا کم از کم ہمیں ایک ایسا وزیراعظم کیوں نہیںمل سکتا جس پر کرپشن کے الزامات نہ ہوں۔ چوہدری نثار فرشتے نہیں اور نہ ہی ہم ہیں۔ ان پر اعتزاز احسن نے بھی اعتراضات کئے ہیں، نثار نے بھی جوابی الزامات لگائے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو انہوں نے قومی اسمبلی میں ٹف ٹائم دے رکھا ہے، ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی کی رہائی میں روکاوٹ ہیں، اچھے نہیں تو برے بھی نہیں ہیں ۔میرے دوست اور گرو عامر متین کے ساتھ خاصی بحث بھی ہوگئی۔ خیر اس پروگرام کے بعد انہوں نے بڑے عرصے بعد فون کیا اور حسب روایت وہی فقرہ دہرایا انہوں نے وہ پروگرام تو نہیں دیکھا، کسی نے انہیں بتایا تھا۔گلہ کیا آپ مجھے کیوں نواز شریف سے لڑانا چاہتے ہیں؟ دال روٹی کی دوبارہ دعوت دی۔ مجھے پتہ تھا اس دعوت سے پہلے میں پھر کوئی بڑا بھنڈ ماروں گا اور چوہدری نثار علی خان کی دال روٹی میری قسمت میں نہیں آئے گی ۔ وہی ہوا ۔اب کی دفعہ بہت بڑا بھنڈ ماراہے۔ دال روٹی کی دعوت اب شاید کبھی نہ ملے۔ 
جب سپریم کورٹ کے جسٹسں قاضی فائز عیسیٰ کی عدالتی کمشن کی رپورٹ پڑھی تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ میرا خیال ہے کوئی بھی انسان اس رپورٹ کو پڑھ کر رات کو نہیں سوسکتا ۔ اگر ہمارا ملک ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ۔ جس طرح قاضی فائز عیسیٰ نے جج ہونے کا حق ادا کیا ہے اس پر انہیں داد دینی بنتی ہے۔ میں نے ٹی وی شو میں کہاچوہدری نثار کو استعفیٰ دے دینا چاہیے کہ ایک عزت دار سیاستدان کو یہی زیب دیتا ہے۔ وہ پھر ناراض ہوگئے۔ 
شاید میں بھول گیا تھا ہر کوئی ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ افتخار چوہدری نے جنرل مشرف کو ایک لمحے میں ناں کر کے لاکھوں کو اپنا گرویدہ بنالیا اور دوبارہ جج بن گئے جب کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنرل مشرف کے آگے جھک گئے، دبائو افتخار چوہدری اور ڈاکٹر قدیر پر برابر کا تھا ۔ ڈیگال فرانس کا صدر بنا تو اسے لگا اس کے پاس پاور نہیں۔ وہ کمزور صدر بن کر فرانس پر کیوں بوجھ بنے؟ استعفیٰ دے کر گھر چلا گیا۔ دس برس بعد پورا فرانس اسے واپس لایا اور وہی اختیارات دیے جو وہ چاہتا تھا ۔ کیا فرق پڑجاتا اگر اقتدار کے آخری سال چوہدری نثار وزیرداخلہ نہ رہتے؟ چوہدری نثار نسبتاً ایماندار ہے۔ وہ سابق وزیرداخلہ کی طرح سیکرٹ فنڈ سے مال نہیںبناتا رہا ، اس نے پچاس کروڑ روپے آئی بی کے فنڈز سے نہیں چرائے اور نہ ہی دو کروڑ روپے کے لندن ٹکٹ خریدے اور نہ ہی دو کروڑ روپے اپنے پی اے کو سیکریٹ فنڈ سے کیش دلوایا۔ نہ ہی سیکریٹ فنڈ سے پنڈی کی جیولرشاپ سے زیوارت خریدے۔ پھر نثار کو کسی چیز کے لالچ نے روک لیا۔۔؟ مان لیتے ہیں ان کا قصورنہیں ہوگا،رپورٹ غلط ہوگی۔ لیکن کیا وہ اس ملک کے سیاستدانوں سے مایوس لوگوںکو نئی امید نہیںدلا سکتے تھے کہ چاہے ان پر غلط ہی سہی لیکن رپورٹ میں الزامات لگ گئے تھے، وہ روایتی سیاستدانوں کی طرح اقتدار سے نہیں چمٹے رہنا چاہتے؟ استعفیٰ دے کر تاریخ رقم کرتے؟جنوبی کوریا کے وزیراعظم کی طرح استعفے لکھتے۔ ''میں اس لیے وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہورہا ہوں کیونکہ سمندر میں کشتی کے حادثے میںمارے گئے بچوں کے والدین کے آنسوئوں کا ذمہ دار میںاپنے آپ کو سمجھتا ہوں‘‘۔ 
کیا کوئٹہ کے بلوچ اور پشتون بچوں کا خون جنوبی کوریا کے بچوں سے بھی سستا تھا جس پر آنسو نہیں بہائے جاسکتے تھے یا ایک معمولی وزارت کی قربانی نہیں دی جاسکتی تھی؟ نثار علی خان کے وزیر رہنے سے فرق نہیں پڑے گا ۔ ہاں اگر وہ وزیر نہ رہتے تو فرق پڑتا ۔ یہ ایک لمحہ آتا تو سب کے پاس ہے لیکن فائدہ اٹھانے کی اہلیت ہر ایک میں نہیں ہوتی۔۔کم از کم میرے ساتھ ہر وقت ناراض دوست چوہدری نثار میں نہ تھی...کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ رپورٹ پر حملہ آور ہونے کی بجائے High moral grounds کا یہ بھاری پتھر چوم کر اٹھا لیتے۔ اور پھر ان کے مداح ان کے گن گاتے... خزاں کے اس اداس ، تنہا اور سرد موسم میں ہر طرف گرتے زرد پتوں پر ان کے گیت لکھتے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved