تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-12-2016

شکریہ میاں صاحب!!

اُمید تھی کہ اب تک ہائی کورٹ سے اُمیدوار چیئرمین ضلع کونسل ملتان حکم امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب یا نام کام ہو چکے ہوں گے ۔مگر انہوں نے رٹ دائر کرنے میں تھوڑی سستی کر دی‘ وگرنہ ہماری عدالتیں فیصلہ کریں یا نہ کریں حکم امتناعی فوراً جاری کر دیتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جعلی ڈگری کے حامل ارکان اسمبلی گزشتہ ساڑھے تین سال سے زیادہ عرصے سے سرکاری فنڈز، مراعات، تنخواہ اور دیگر سہولیات سے اپنا موج میلا لگائے ہوئے ہیں۔ مجھے زیادہ لوگوں کے بارے میں تو معلوم نہیں‘ تاہم لودھراں سے عبدالرحمان کانجو اور ملتان حلقہ این اے 148 سے مخدوم شکن (مخدوم شاہ محمود اور مخدوم علی موسیٰ گیلانی کو ہرانے والا) عبدالغفار ڈوگر تو گزشتہ ساڑھے تین سال سے مسلسل تاریخوں پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ان پرپھر کبھی سہی فی الحال تو کل تک (کالم لکھتے ہوئے کل تک اور چھپنے کے دن اسی روز) چیئرمین ضلع کونسل ملتان کے مسلم لیگ کے امیدوار دیوان محمد عباس کی رٹ کا انتظار کیا جائے کہ اس پر بحث بیس دسمبر کو ہو گی۔ تب تک ذرا میاں نواز شریف کے گزشتہ سے پیوستہ روز والے بیان بارے کچھ ہو جائے۔
لاہور میں گریٹر اقبال پارک کے افتتاح کے موقع پر میاں نواز شریف نے ایک بیان داغا کہ ''سڑکیں نہ بنیں تو ترقی کیسے ہو گی؟ کیا جہازوں پر جا کر سکول اور ہسپتال بنائیں گے؟‘‘ اس بیان میں دراصل میاں نواز شریف ملکی ترقی کے لیے سڑکوں کی اہمیت کے ساتھ اپنی سڑکوں کی تعمیر میں غیر معمولی دلچسپی کا جواز بھی پیش کر رہے تھے۔ میاں صاحب کے نزدیک ملکی ترقی کے لیے واحد نہ بھی سہی، تاہم سب سے ضروری اور اہم شعبہ صرف اور صرف سڑکوں کی تعمیر ہے۔ اسی لیے میاں صاحب اور ان کے برادرخورد وزیراعلیٰ پنجاب عرف خادم اعلیٰ کو صرف اور صرف سڑکوں اور ان سے متعلقہ امور از قسم میٹرو اورنج ٹرین وغیرہ کے علاوہ اور کچھ سوجھ ہی نہیں رہا۔ میاں صاحب کا خیال ہے کہ سکول اور ہسپتالوں سے زیادہ اہم چیز سڑکوں کی تعمیر ہے کہ ان کے بغیر عوام نہ ہسپتالوں تک جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی رسائی سکولوں تک ہو سکتی ہے۔جب تک ملتان میں میٹرو نہیں بن جاتی لوگ نہ تو سکول جا سکتے ہیں اور نہ ہسپتال ہی پہنچ سکتے ہیں۔ موٹروے، میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کے وجود میں آنے سے قبل پاکستان میں لوگ نہ ہسپتال جا سکتے تھے اور نہ سکول‘ نہ کالج اور نہ یونیورسٹی۔ تاہم عوام کو اس کے علاوہ بے شمار دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے کیا ان مسائل کا حل بھی صرف اور صرف سڑکیں ہیں؟
ملتان میں اس وقت عملی طور پر صرف نشتر ہسپتال ہی واحد ہسپتال ہے جو (TERTIARY CARE) یعنی تیسرے درجے پر پہنچی ہوئی بیماریوں کے علاج کی سہولیات کا حامل ہے۔ یہ ہسپتال گزشتہ سات عشروں سے اس پورے خطے کے لیے ایک ایسی نعمت ہے جس سے غریب عوام مستفید ہو رہے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ گیارہ سو بیڈ کے ہسپتال میں گزشتہ مہینے کی رپورٹ کے مطابق نشتر ہسپتال میں داخل مریضوں کی تعداد اکیس سو سے زیادہ تھی۔ یعنی منظور شدہ تعداد سے ایک ہزار زیادہ۔ اس میں سرکار یہ جواز پیش کر سکتی ہے کہ ہسپتال کے بیڈز کی تعداد گیارہ سو سے بڑھا کر سترہ سو کی جا چکی ہے۔ تو اِس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ اسی پُرانے ہسپتال میں جو 1953ء میں بنا تھا تب اس کے منظور شدہ بیڈز کی تعداد ایک ہزار تھی بعد میں تعداد گیارہ سو ہو گئی۔ شہر کی آبادی اس دوران دو اڑھائی لاکھ سے بڑھ کر بیس پچیس لاکھ ہو گئی اور یہ ہسپتال جو اپنے علاج معالجے سہولیات کے حساب سے اس پورے خطے کی واحد ''ٹرشری کیئر‘‘ علاج گاہ تھی۔ ملتان کے علاوہ پنجاب کے اضلاع مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، لیہ، بھکر، میانوالی۔ خیبرپختونخواکے ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان اور بلوچستان کے اضلاع کوہلو، بارکھان اور لورالائی تک کے مریض اس ہسپتال میں آتے ہیں۔
پھر یوں ہوا کہ گیارہ سو بستروں والے اس ہسپتال کو سترہ سو بستروں کا ہسپتال بنا دیا گیا۔ یہ کونسا مشکل کام تھا؟ ہر وارڈ میں پہلے اگر چھتیس بسترے لگے ہوئے تھے تو ان بستروں کا درمیانی فاصلہ کم کر کے مزید بستر گھسیڑ دیے گئے اس طرح ہر وارڈ میں چھپن بسترے لگانے سے سارا مسئلہ حل ہو گیا۔ نشتر ہسپتال یکدم گیارہ سو سے سترہ سو بیڈز کا ہسپتال بن گیا۔ ڈاکٹروں کی تعداد اور پیرامیڈیکل سٹاف سارے کا سارا گیارہ سو بیڈ کے لیے منظور شدہ افرادی قوت کے مطابق رہا ‘بس بستروں کی تعداد بڑھ گئی‘ نتیجہ یہ نکلا کہ حالات مزید خراب ہو گئے۔ مریضوں کی حالت مزید ناگفتہ بہ ہو گئی اور صورتحال بہتر ہونے کے بجائے خرابی کی سمت گامزن ہو گئی۔ اوپر سے یہ کہ سترہ سو بیڈز والے ہسپتال میں مریض بڑھ کر اکیس سو ہو گئے۔ یعنی مریضوں کی تعداد بستروں سے چار سو زائد ہو گئی۔ اب مزید بستر لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تھا کہ وارڈز میں مزید بیڈ لگانے کی جگہ نہیں بچی تھی، لہٰذا اب ایک ایک بیڈ پر دو دو اور بعض اوقات تین مریض فٹ کرنے کی روایت کا اجراء ہوا۔ آج بھی نیوروسرجری وارڈ میں ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض اور بچوں کے وارڈ میں ایک بستر پر تین تین بچے پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ بچے ویسے بھی کم جگہ لیتے ہیں۔
کیا نشتر ہسپتال میں ایک ایک بستر پر پڑے ہوئے دو دو مریضوں کو علیحدہ بستر فراہم کرنے کے لیے سڑک کی ضرورت ہے؟ کیا سترہ سو بیڈ والے ہسپتال کے لیے سترہ سو کے حساب سے ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف فراہم کرنے کے لیے سڑک بنانا ضروری ہے؟ کیا ہسپتال کے فنڈز کو گیارہ سو مریضوں سے بڑھا کر سترہ سو مریضوں کے مطابق کرنے کے لیے میٹرو بس کی تکمیل ضروری ہے؟ کیا برباد ہوئے ایمرسن کالج کے معاملات درست کرنے کے لیے موٹروے کا بننا لازمی ہے؟
کیا انصاف کے حصول کے لیے سائلوں کا اچھی سڑک پر چل کر عدالت جانا ضروری ہے؟ کیا پٹواری سے فرد ملکیت کے آسان اور سستے حصول کے لیے سڑکوں کی تعمیر ازحد ضروری ہے؟ کیا نشتر ہسپتال کے چلڈرن وارڈ میں ایک بستر پر پڑے ہوئے تین بچوں کو انفرادی بستر کے حصول کے لیے درمیان میں موٹروے کی ضرورت ہے؟ ملتان کے بیشتر گھروں میں رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک گیس نہیں آتی۔ اگر سڑکیں بن گئیں تو کیا گیس رات دس بجے کے بعد اس سڑک کے ذریعے ہمارے گھروں تک آ جائے گی؟کورٹ کچہری میں عشروں سے زیرِ سماعت مقدمات کی فوری ڈسپوزل اگر سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے تو براہ کرم سڑکیں فوری تعمیر کی جائیں تا کہ عوام کو فوری انصاف مل سکے۔ کیا انصاف کی فراہمی کا تعلق عدالتی نظام کے بجائے سڑکوں سے وابستہ ہے؟ کیا کسی مظلوم کو پرچہ درج کروانے کے لیے اعلیٰ تعمیر کردہ سڑک کا ہونا لازمی ہے۔ ویسے اس سلسلے میں ایک وضاحت ضروری ہے کہ دیہاتی علاقوں میں بے وسیلہ مقتول کے ورثاء اس کی میت سڑک پر رکھ کر جب سڑک بلاک کر دیتے ہیں تو پرچہ درج ہوتا ہے اس حساب سے سڑک حصولِ انصاف میں ضرور مددگار ثابت ہوتی ہے مگر اس کے لیے پُرانی سڑکیں فی الحال ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ممکن ہے میرے علم میں سڑکوں کی افادیت کے یہ پہلو نہ ہوں۔ اگر ایسا ہے تو میری وزیراعظم میاں نواز شریف سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ سڑکوں کی تعمیر کی رفتار دگنی چوگنی کر دیں تا کہ ان سڑکوں پر سپیڈ و سپیڈ چل کر گیس رات کو ہمارے گھروں میں آسکے۔ ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر پڑے ہوئے دو دو تین تین مریض اپنے بستروں سے اتر کر ان سڑکوں پر کھلے ہو کر لیٹ سکیں۔ کئی سال سے جاری زمینوں کو کمپیوٹرائز کرنے کا عمل ان سڑکوں کی فوری تعمیر کے ذریعے سپیڈ اپ ہو سکے۔ عدالتوں میں عشروں سے زیرِ سماعت مقدمات جلد از جلد اپنے انجام کو پہنچ سکیں۔ عبدالغفار ڈوگر ایم این اے کا جعلی ڈگری والا ساڑھے تین سال سے زیرِ سماعت کیس اختتام پذیر ہو سکے۔ سڑکوں کی تعمیر کی راہ میں ہر رکاوٹ فوری دور کی جائے تا کہ جعلی ادویات سے قوم کی جان چھوٹ سکے۔ عالمی معیار کی سڑکوں کی تعمیر پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دی جائیں تا کہ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کا خاتمہ ہو سکے۔ موٹروے وغیرہ کی تعمیر کی رفتار تیز کی جائے تا کہ ملک کے سرکاری دفتروں سے رشوت کلچر کا قلع قمع ہو سکے۔ عوام کو پینے کے لیے صاف پانی مل سکے اور باقی مسائل حل ہو سکیں۔
جناب عالی! لعنت بھیجیں باقی کاموں پر۔ باقی کام تو خودبخود ہو جائیں گے آپ بس زور و شور سے سڑکیں بنائیں۔ دنیا بھر کی اقوام کو صحت، تعلیم، عدل و انصاف، ضروریات زندگی، امن و امان اور اسی قسم کی ساری آسانیاں صرف اور صرف سڑکوں کی مرہون منت ہیں۔ ہم شکر گزارہیں اپنے عظیم وزیراعظم کے، کہ جن کے ویژن کے طفیل ہم ناقص العقل لوگوں کو سڑکوں کی افادیت کا پتہ چلا وگرنہ ہم جہالت کی زندگی گذارتے گزارتے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جاتے۔ شکریہ میاں صاحب!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved