تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-12-2016

ہمارا فرنیچر

چارپائی
یہ ہمارے فرنیچر کا مین آئٹم ہے جو کثیر الاستعمال بھی ہے یعنی اس سے سیڑھی کا کام بھی لیا جا سکتا ہے اور گھر بھراس پر بیٹھ کر ٹی وی بھی دیکھ سکتا ہے۔ جو اس پر سوتا ہو اس کی داو￿ن بھی اسی کو کسنا پڑتی ہے جو ہر تیسرے دن ڈھیلی ہو جاتی ہے۔ اسے بچھانے کے لیے جگہ کم ہی ملتی ہے اس لیے ایک پنجابی فلم کا نام تھا۔ ''منجی کتھے ڈاہواں‘‘ یعنی چارپائی کہاں ڈالوں۔ یہ موت کا سبب بھی بن سکتی ہے جیسا کہ ایک بیمار رہ کر جب مرنے کے قریب ہوا تو اس نے دیکھا کہ اُس کے سرہانے موت کا فرشتہ کھڑا ہے۔ وہ خوف زدہ ہو کر پائنتی کی طرف لیٹ گیا۔ موت کا فرشتہ پائنتی کی طرف ہوا تو یہ پھر سرہانے کی طرف آ گیا ہے۔ جب چار پانچ بار ایسا ہوا تو گھر والوں نے سمجھا کہ اس کا دماغ چل گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسے چارپائی کے ساتھ رسے سے خوب کس کر باندھ دیا۔ تو وہ فرشتے سے بولا‘ ''میں تم سے تو نہیں مرتا تھا لیکن گھر والوں نے مجھے باندھ کر مار دیا ہے‘‘۔
یہ سونے اور میت کو قبرستان پہنچانے کے بھی کام آتی ہے۔ منقول ہے کہ ایک شخص کی بیوی مر گئی۔ اس کی میت قبرستان لے جا رہے تھے کہ گلی کے موڑ پر چارپائی کھمبے سے ٹکرائی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی جسے گھر واپس لے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد دوبارہ اس کا انتقال ہوا اور اس کی میت قبرستان لے جا رہے تھے جب جنازہ گلی کے موڑ پر پہنچا تو اس کا شوہر پیچھے سے بلند آواز سے بولا‘ کھمبے سے ذرا بچا کے!لیکن یہ ایسا معجزاتی فرنیچر ہے کہ مُردے کو واقعی زندگی بھی بخش سکتا ہے جیسا کہ ایک یہودی جب مر رہا تھا تو اس کے بیٹے اس کے چاروں طرف بیٹھے تھے‘ ان میں سے ایک بولا‘ ''قبرستان کافی دور ہے‘ میت کو قبرستان کیسے پہنچانا ہے‘‘ ایمبولینس پر لے چلتے ہیں''چھوٹے نے جواب دیا‘ تمہارا دماغ خراب ہے' ایمبولینس والا کم از کم دو ہزار لے گا‘ بڑا بولا۔ منجھلے نے ٹرک کی تجویز دی اسے بھی رد کر دیا گیا‘ حتیٰ کہ گدھا گاڑی کی تجویز پر بھی کہا گیا کہ وہ بھ پانچ سو سے کم پر تو نہیں مانے گا۔ اس پر بڑے میاں چارپائی سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور بولے ''تم کیوں جھگڑت ہو یار‘ میں پیدل ہی چلا جاتا ہوں!‘‘ چارپائی کے علاوہ ہر آدمی کا بھی کوئی نہ کوئی پاوا ہوتا ہے۔
پلنگ
یہ زیادہ تر امیر گھروں میں استعمال ہوتا ہے۔ چارپائی بان سے بنی ہوتی ہے جبکہ یہ سوتی نواڑ سے۔ یہ چارپائی کی نسبت چوڑا ہوتا ہے کہ اس پر دو افراد سو سکیں۔ یہ سوتا جاگتا بھی ہے جیسا کہ ایک فارسی شاعر نے کہہ رکھا ہے ؎
ہر بیشہ گماں مُبر کہ خالی ست
شاید کہِ پِلنگ خفتہ باشد
منقول ہے کہ ایک سیٹھ اور اس کی موٹی بیوی پلنگ پر سو رہے تھے کہ زلزلہ آیا اور بیوی نیچے گر پڑی جس پر سیٹھ اُٹھ کر بولا‘
''بیگم تم زلزلے کی وجہ سے گری ہو یا زلزلہ تمہارے گرنے کی وجہ سے آیا ہے؟‘‘
پیڑھی
خاتون خانہ اس پر بیٹھ کر کھانا بناتی ہے جبکہ میاں اس پر یا چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے۔ چارپائی پر اس کے لیے کہ کھانے کے بعد سونے کے لیے اُسے اٹھنا نہ پڑے۔ چارپائی تو مستطیل ہوتی ہے جبکہ پیڑھی بالکل چوکور۔دوائن اُس کی بھی ہوتی ہے۔ گائوں میں ایک عورت صحن میں نلکے پر نہا رہی تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
''کون ہے‘‘ خاتون نے پوچھا۔
''میں ہوں حافظ‘‘جواب ملا‘ تو خاتون بولی‘
''حافظ جی ہوڑہ کھول کر اندر آئیں اور ہوڑہ بند کر دیں‘ میں نہا رہی ہوں۔ نلکے کے پاس ایک پیڑھی پڑی ہے‘ آ کر اُس پر بیٹھ جائیں‘‘ حافظ جی نے ایسا ہی کیا۔
اُس کے بعد خاتون نے نہانے کے بعد تولیہ استعمال کیا‘ کپڑے پہنے‘ اندر سے ایک پیڑھی اٹھا لائی اور بولی‘
''کہیے حافظ جی‘ کیسے آنا ہوا؟‘‘ تو حافظ جی بولے‘
''بی بی‘ میں تمہیں یہ بتانے آیا تھا کہ میری آنکھیں ٹھیک ہو گئی ہیں‘‘
تخت پوش
یہ بھی گھر کی ایک خصوصی آئٹم ہے اس پر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ کھانا کھایا جا سکتا ہے اور تاش وغیرہ کھیلی جا سکتی ہے‘ گویا خاصا کثیر الاستعمال فرنیچر ہے حتیٰ کہ اس پر مہمانوں کو بھی بٹھایا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کا نام کافی غلط ہے کیونکہ تخت پوش کا مطلب ہے تخت پر بچھایا جانے والا کپڑا جیسا کہ میز پوش‘ انگیٹھی پوش جبکہ شاہی تخت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ اس لیے اس کا تختہ بھی نہیں اُلٹایا جا سکتا‘ یعنی ہر طرح سے محفوظ چیز ہے۔ اس کے تین درجے ہوتے ہیں یعنی تختی‘ تختہ اور تخت‘ آپ میں جس کی توفیق ہو‘ گھر میں رکھ سکتے ہیں۔ البتہ تخت گھر سے باہر رکھا جاتا ہے کیونکہ بیوی یا ملکہ اس پر کسی وقت بھی قبضہ کر سکتی ہے۔ مشتری ہوشیار باش۔
چوکی
یہ خالص لکڑی کی ہوتی ہے اور پیڑھی سے چھوٹے سائز کی زیادہ تر اس سے پیڑھی ہی کا کام لیا جاتا ہے۔ اس کا پولیس چوکی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا نہ ہی چوک سے اس کا کوئی واسطہ ہوتا ہے۔ غالباً چور ہونے کی وجہ سے ہی چوکی کہلاتی ہے جبکہ پولیس چوکی کا چور ہونا ہرگز ضروری نہیں ہوتا۔ چوکی بھرنا بھی ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہمیں معلوم نہیں‘ آپ کسی اور سے پوچھ سکتے ہیں۔ نہ ہی اس کا چوکیدار سے کوئی تعلق ہوتا ہے کیوکہ پہرہ دیتے وقت وہ یا تو کرسی پر بیٹھتا ہے یہاں وہیں بیٹھے بیٹھے سو بھی جاتا ہے اور اس دووران گھر کا صفایا ہوتا رہتا ہے۔ چوکیدارہ ‘چوکیدار کا مذکر نہیں بلکہ اُ س کے معاوضے کو کہتے ہیں۔
توجہ فرمائیں
فرنیچر کی خواہش مند افراد ہمارے فرنیچر ہائوس پر آ کر اپنی پسند کا فرنیچر حاصل کریں۔ سکینڈ ہینڈ فرنیچر بھی دستیاب ہے بلکہ اپنا استعمال شدہ فرنیچر فروخت کرنا چاہیں تو من پسند قیمت حاصل کریں۔ فرنیچر سازی کا ہنر بھی معمولی فیس لے کر سکھایا جاتا ہے تاکہ آپ فرنیچر سے ہر طرح سے بے نیاز ہو جائیں۔ آزمائش شرط ہے۔
المشتہر: ماڈرن فرنیچر ہائوس و ٹریننگ سنٹر‘ گڑھی شاہو‘ لاہور
آج کا مطلع
یوں بھی ہو سکتا ہے یکدم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved