تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-12-2016

تماشا

شیکسپیٔر کے ایک ڈرامے کا کردار اپنے ''کارنامے‘‘ پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتا ہے "Ovillnary! I have set thee rolling, now take thy course"اے بدی! میں نے تجھے لڑھکا دیا ہے ۔ اب چلتی چلی جا۔ پاکستانی سیاست فی الحال یہی ہے ۔ کوئی اپنا دامن آلودگی سے بچالے تو یہی بہت ہے ۔ 
اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے چوہدری نثار کو کسی وکیل کی ضرورت نہیں ۔ وہ ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں ، جوہونٹ کھولیں تو ٹی وی پر معمول کی نشریات روک دی جاتی ہیں ۔د وسرے وزیرِ اعظم اورتیسرے عمران خان ہیں ۔ زرداری صاحب بھی مگر وہ بولتے ہی نہیں ۔ اظہار اور الفاظ کے نہیں ، وہ عمل کے آدمی ہیں ۔ پسِ پردہ ڈوریاں ہلانے والے ۔ 
چوہدری کو قدرت نے ذہانت بخشی ہے اور فصاحت بھی ۔ اردو کے چند ایک الفاظ کا تلفظ اگرچہ ناقص ہے ، مثلا ذمہ داری کو اکثر وہ ذمہ واری کہتے ہیں ۔ پوٹھوہاری لہجہ مگر زبان پر دسترس ۔ بروئے کا ر تب آتے ہیں ، جب انہیں چھیڑا جائے ۔ ''جارحیت بہترین دفاع ہے ‘‘ پر یقین رکھتے ہیں ۔ پلٹ کر اس طرح یلغار کرتے ہیں کہ حریف کے لیے کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے ۔ جنگجو کی سرشت میں محاذ آرائی ہے ۔
ایک بار گپ لگانے کو جی چاہا۔ میرے گھر سے ان کے گائوں کا فاصلہ چالیس پچاس منٹ سے زیادہ نہیں ۔ پیغام ملا کہ وہیں چلے آئو۔ کتنی ہی شامیں ایک زمانے میں ان کے ساتھ بیتیں ۔ نکتہ رس اور ہمہ وقت متوجہ ۔ ایک شکاری کی نظر اور تیور۔ ایک پیدائشی سیاستدان ۔ چاروں کھونٹ جس کی نگاہ نگراں رہتی ہے ۔ سیاسی حرکیات کے ایسے شناور کم ہوں گے ۔
کہا جاتاہے کہ سرما میں خوراک کے سارے وسیلے ختم ہو جائیں تو بھیڑیوں کاغول ایک دائرہ بنا کر بیٹھ جاتاہے ۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈا ل کر ، جس کی آنکھ جھپکی ، سب کے سب اس پہ پل پڑتے ہیں ۔ سیاستدان بھی یہی ہوتے ہیں ۔ نپولین نے کہا تھا: سیاست میں حلیف ہوتے ہیں یا دشمن، دوست کوئی نہیں ہوتا۔ 
پلٹ کر دیکھیے ، فیلڈ مارشل ایوب خاں نے اپنے سیاسی فرزند ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا کرنا چاہا اور پھر بھٹو نے ان کے ساتھ کیا کیا، جسے کبھی ازراہِ اکرام وہ ڈیڈی کہاکرتے ۔ 1964ء کے صدارتی الیکشن میں جواں سال بھٹو ،مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایوب خان کے متبادل امیدوار تھے ۔ حکمران کنونشن لیگ کے سیکرٹری جنرل ۔ انہیں وہ ایشیا کا ڈیگال اور عصرِ حاضر کا صلاح الدین ایوبی کہا کرتے ۔ ان کے زمانۂ اقتدار میں جنرل اس دنیاسے اٹھا تو وفات اور جنازے کی خبر ریڈیو اور ٹی وی سے نشر نہ ہو نے دی ۔
جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد، میاں محمد نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو بہن بنا لیا تھا ۔ جن کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ ان کا نا م سن کر میرا خون کھول اٹھتا ہے ۔ انہی کے ایما پر سیف الرحمٰن نے درجنوں مقدمات محترمہ اور ان کے شوہرِ نامدار پہ قائم کیے تھے۔ اگرچہ بعد میں عذر تراش لیا کہ ان پر دبائو تھا۔ کس کادبائو تھا؟ جنرل جنجوعہ، جنرل جہانگیر کرامت یا پرویز مشرف کا؟ ایسی کوئی بات ،ان کے بارے میں کبھی کسی ایک بھی شخص سے سننے میں نہیں آئی ۔ 
بے نظیر بھٹو نے اس کا انتقام بعدمیں لیا۔ امریکہ اور برطانیہ کے توسط سے ،جب انہوں نے جنرل کے ساتھ صلح کا ڈول ڈالا۔ یاد پڑتاہے کہ یہ 2004ء تھا ، جب حجازِ مقدس جانا ہوا۔ میاں محمد شریف مرحوم کی تعزیت کے لیے جدہ میں ان کے فرزندوں سے ملاقات کی ۔ میاں صاحب سے عرض کیا کہ محترمہ دوسروں کو تاریکی میں رکھ کر خاموشی کے ساتھ فوجی حکمران سے بات کر رہی ہیں ۔ مان کر نہ دیے۔ بولے:وہ بڑی سیانی ہیں۔ کبھی یہ غلطی نہ کریں گی ۔ نہ صرف یہ '' غلطی ‘‘ محترمہ نے کی بلکہ انگریزی محاورے کے مطابق یہ بھی گوارا کر لیا کہ اپنے حلیف کو ٹھنڈ میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ حالات کا دبائو اگر نہ ہوتا، بینظیر کے مخالف عرب قبائلی سردار ، جن میں سے بعض جنرل محمد ضیاء الحق کی نگاہ سے پاکستان کو دیکھتے تھے، مصر نہ ہو جاتے۔ شاہ عبد اللہ پہ اگر دبائو نہ ہوتا توالیکشن 2008ء کے ہنگام میاں صاحب واپس نہ آسکتے۔ جنرل کا منصوبہ یہی تھا۔ امریکہ کی تائید اسے حاصل تھی۔ نوا زشریف کو الگ رکھ کر محترمہ سے اقتدار کی شراکت۔ چال محترمہ نے یہ چلی کہ الیکشن سے قبل واپس نہ آنے کا جو وعدہ انہوں نے کیا تھا ، اسے توڑ ڈالا۔ اس کے بعد وہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی تحریک میں شریک ہو گئیں۔ کبھی گمان ہوتاہے کہ اسی ''گناہ ‘‘ کی پاداش میںبے دردی سے قتل کر دی گئیں۔ الزام طالبان پہ دھرا جاتا ہے لیکن جس انداز میں یہ المناک واقعہ پیش آیا، اس کی تصاویر کچھ اور کہتی ہیں۔ اسلوب مغربی تھا۔ اس موقع پر میاں صاحب نے بہرحال کسی قد روضع داری کا مظاہرہ کیا اور یہ وضع داری انہیں مہنگی پڑی۔ یہ کہانی پھر کبھی۔
الیکشن 2008ء کے ہنگام عمران خان ، محمود اچکزئی، جماعت اسلامی اور دوسرے سیاسی حلیفوں سے میا ںصاحب نے بائیکاٹ کا پیمان کیا تھا۔ مغربیوں بالخصوص برطانوی لیڈروں کے ایما پر اپنا ارادہ انہوں نے تبدیل کر لیا۔ انہی دنوں ٹیکسلا سے راولپنڈی تک چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ایک گاڑی میں سفر کیا۔ عام خیال یہ تھا کہ جنرل پرویز مشرف اور قاف لیگ کا مقابلہ کرنے کے لیے پیپلزپارٹی اور نون لیگ مل کر حکومت بنائیں گی ۔ تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس پر متفق نہیں ۔ ''قطعاً نہیں ‘‘ چوہدری نثار علی خاں نے کہا ''سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اگر ایسا ہوا تو یہ سنجوگ زیادہ دن نہ چلے گا ‘‘۔ دلیل ان کی یہ تھی کہ دونوں کے ووٹر مختلف ہیں۔ ایک دوسرے کے مخالف۔۔۔۔ باقی تاریخ ہے۔ 
خیر میں چکری پہنچا تو چوہدری کا مکان دیکھ کر ششدہ رہ گیا۔ مکان کاہے کو تھا، ایک قلعہ۔ غالباً انہوں نے بھانپ لیا اور وضاحت کی۔ واقعی یہ ایک چھوٹا سا قلعہ ہے۔ سکھوں کے ساتھ ان کے اجداد کی جنگیں ہوتی رہیں؛ اگرچہ بعد میں جنگ بندی ہو گئی تھی۔ اس موقع پر رنجیت سنگھ نے ایک پستول ان کے پردادا کو تحفے کے طور پر بھیجا تھا۔ پھر سنہری رنگ کا وہ پستول انہوں نے منگوایا۔ میرا خیال تھا کہ سونے کا پانی اس پر چڑھایا گیا تھا۔ اس زمانے میں ہتھیار کو سجانے کا رواج تھا۔ 
گفتگو کا موقع تو کم ہی ملاکہ خلقت کا ہجوم تھا۔ عمران خان کا ایک جملہ یاد آتا رہا: حلقۂ انتخاب کی سیاست کو چوہدری نثار خوب سمجھتا ہے۔ دوستی کے سوا ایک زمانے میں چوہدری کپتان کا سیاسی اتالیق بھی رہا مگر سیاست میں کیسی دوستی ؟ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ الگ الگ جماعتوں میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرکے ساتھ وہ نباہ سکتے تھے لیکن پھر وہی کہ سیاست میں کیسی دوستی ؟
وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہوتا تو بے شک ملک بھر میں واہ واہ ہوتی۔ اخبار نویس مگر ایک بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دشمنوں کے ہجوم میں جینے والوں کا طرزِ زندگی مختلف ہوتا ہے۔ رہا دہشت گردی کے حوالے سے ناکردہ کاری کا الزام تو یہ فہم سے بالاتر ہے۔ فوج کے سوا، ملک میں وہ کون سا ادارہ ہے اس باب میں جس نے اپنے فرائض لگن اور ذمہ داری سے ادا کیے ہوں ۔ پولیس؟ سول انٹیلی جنس ایجنسیاں ؟ صوبائی حکومتیں ؟
جب تک پٹڑی پہ نہ چڑھے اور آسانی سے چڑھا نہیں کرتی، نو آزاد ملکوں کی سیاست شعبدہ بازی ہی ہوا کرتی ہے۔ چوہدری ایسے لوگ غنیمت ہیں کہ کہیں ڈٹ کرکھڑے تو ہو سکتے ہیں۔ اس تماشے میں ہیرو کی تلاش کے کیا معنی؟ شیکسپیٔر کے ایک ڈرامے کا کردار اپنے ''کارنامے ‘‘پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتا ہے "Ovillnary! I have set thee rolling, now take thy course" اے بدی! میں نے تجھے لڑھکا دیا ہے۔ اب چلتی چلی جا۔ پاکستانی سیاست فی الحال یہی ہے ۔ کوئی اپنا دامن آلودگی سے بچالے تو یہی بہت ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved