تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     22-12-2016

دائمی مقیم بدیسی کی واپسی

وطن ترک کر کے امریکہ جا بسنے اور وہاں گرین کارڈر پانے والوں کو 'Permanent Resident Aliens.' یعنی ''دائمی مقیم بدیسی‘‘ کہا جاتا تھا۔ بعد میں امریکی حکومت نے لفظ Alien کو ہٹا دیا اور صرف Permanent Resident یعنی ''دائمی مقیم‘‘ کا لفظ باقی بچا۔ جب آصف علی زرداری صدر تھے تو کئی لوگوں نے ان کی حیثیت پہ بھی 
سوالات اٹھائے تھے۔ کیا ان کے پاس گرین کارڈ تھا؟ آخر کس طرح ان کے لئے اتنے طویل عرصے تک ٹرمپ ٹاور کے لگژری اپارٹمنٹ میں رہنا ممکن ہو سکتا تھا جبکہ محترمہ اپنے بچوں کے ہمراہ دبئی میں رہائش پذیر تھیں۔ تاہم امریکہ میں آصف زرداری کے دائمی مقیم ہونے کی حیثیت کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ افسوس کہ ہماری عدالتوں نے بعض سیاستدانوں کو تو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، اس لئے وہ بچے رہتے ہیں جبکہ بعض زیرِ عتاب رہتے ہیں۔ 
قارئین کو یاد ہو گا کہ 2013ء میں جب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تو ان کی وہاں کیسی تواضع کی گئی تھی۔ ان سے صاف صاف پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ کینیڈا کے شہری ہیں؟ اور اس کے بعد یہ فیصلہ سنایا گیا کہ چونکہ کینیڈین شہری ہونے کے لحاظ سے طاہر القادری کی مختارِ اعلیٰ برطانوی ملکہ ہیں اس لئے وہ پاکستانی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے کینیڈین شہریت کے حلف نامے کا پورا متن پڑھ کر سنایا تھا۔ ان کا فیصلہ یہ تھا کہ چونکہ برطانوی ملکہ ہی طاہرالقادری کی مقتدرِ اعلیٰ ہیں اس لئے ایک غیر ملکی شہری ہونے کے ناتے انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنی مرضی سے جب چاہیں یہاںآ کرایک ''آئینی ادارے کو نشانہ ‘‘ بنا لیں۔ چیف جسٹس صاحب نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ''آپ نے ایک ایسا مسئلہ چھیڑا ہے جس سے کئی سال پیشتر قائم کئے گئے ایک آئینی ادارے پہ زد پڑتی ہے۔ آپ چند ماہ قبل ہی پاکستان آئے ہیں اور اسے چیلنج کر رہے ہیں۔‘‘ حالانکہ اس سے قبل ایک گرین کارڈ ہولڈر معین قریشی ہمارے نگران وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ شوکت عزیز جیسے مخیر ''غیر ملکی شہری‘‘ کو بھی مشرف نے تین سال تک حکومت کا سربراہ بنائے رکھا۔ لیکن اس وقت سپریم کورٹ خاموش رہی۔ انصاف صرف جزوی طور پر چنیدہ لوگوں کے لئے ہی نہیں ہونا چاہئے۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ہمارے اس وقت کے سربراہِ مملکت سوئس بینکوں میں مبینہ طور پر ساٹھ ملین ڈالر رکھنے کے باوجود ہمارے دستورکی مہربانی سے مکمل صدارتی استثنیٰ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کاش ہماری انتخابی مشینری اعلیٰ ترین ریاستی عہدوں اور مقننہ کی رکنیت کے امیدواروں سے چند اہم جوابات ایک تفصیلی سوالنامے کے ذریعے حاصل کر سکتی۔ مثلاً یہ کہ کیا آپ امریکہ یا برطانیہ کے شہری ہیں؟ کیا آپ گرین کارڈ ہولڈر ہیں؟ کیا آپ دماغی اور جسمانی لحاظ سے صحت مند ہیں؟ کیا آپ نے اپنی تعلیمی اسناد کے حوالے سے دروغ گوئی کی ہے؟ اس سال آپ نے کتنا انکم ٹیکس ادا کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی ویلتھ ٹیکس ادا کیا ہے؟ اگر ہاں، تو کتنا؟ آپ کی بیوی یا بیٹیوں نے کپڑوں اور زیورات پہ کتنا پیسہ خرچ کیا ہے؟ کیا آپ بینک کے نادہندہ ہیں؟ خیرات میں آپ نے کس قدر رقم ادا کی ہے اور کسے ادا کی ہے؟ آج تک کتنے سرکاری عمرے اور حج آپ نے کئے ہیں؟ پچھلے بیس برسوں میں آپ نے کتنی جائیداد بنائی ہے؟ پچھلے دس سالوں میں آپ نے کتنی کاریں خریدی ہیں؟ اپنی ملکیتی تمام منقولہ جائیداد کی تفصیل بتائیں۔کتنی بار آپ نے اپنے بچوں یا دیگر عزیز رشتہ داروں کی ملازمتی ترقی یا پھر تعلیمی داخلوں کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے مستحق افراد کو نظر انداز کروایا ہے؟ کتنی بار آپ نے جانتے بوجھتے قانون توڑا ہے؟ کتنی بار آپ نے زیرِ حلف غلط بیانی کی ہے؟اپنی سرکار ی مراعات کو کتنی بار آپ نے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی رشوت دی یا لی ہے؟ کتنی ملازمتیں آپ نے اپنے دوستوں اور عزیزوں میں بانٹی ہیں؟ کیا آپ کبھی فراڈ کے مرتکب ہوئے ہیں؟ کیا سرکاری دولت یا جائیداد آپ نے کبھی خورد برد کی ہے؟ کیا ہارس ٹریڈنگ میں آپ ملوث رہے ہیں؟ 
ان حالات کی گھمبیرتا میں مزید اضافہ اس خبر سے ہوا ہے کہ یہ سال ختم ہونے سے پہلے کسی بھی وقت میاں نواز شریف کے دشمن نما دوست یا دوست نما دشمن آصف علی زرداری وطن واپس تشریف لے آئیں گے۔ میاں صاحب اور زرداری صاحب کے حوالے سے سبھی نُورا کشتی کی بات کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ ''انکل نواز‘‘ کے خلاف بلاول خوب تیاری کر رہے ہیں لیکن عین ممکن ہے کہ زرداری صاحب آکر اپنے بیٹے کو کسی پیش قدمی سے روک لیں۔ آخر میاں صاحب ہی کی مہربانی سے تو انہیں وطن واپسی کے اشارے ملے ہیں۔ ہو سکتا ہے میاں صاحب نے فوجی قیادت کے ساتھ زرداری صاحب کو معافی دلوانے کے سلسلے میں کوئی بات کی ہو۔ زرداری صاحب کو بھی اپنی زبان پر قابو نہیں ہے۔ انہوں نے بھی سر عام ایک جلسے میں مکے لہراتے ہوئے فوج کو دھمکایا تھا۔ مگر کون جانے، ہو سکتا ہے ایک بار جب وہ اپنے قلعے یعنی بلاول ہائوس میںقدم جما لیں تو پھر سے وہ ٍ وہی باتیں کریں جو انہوں نے سالوں پہلے ہم سے کی تھیں۔ میاں صاحب کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ ''وہ بنتے بڑے اچھے ہیں، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ وہ ایک نادہندہ ہیں اور اب وہ محض ایسی جائیداد لوٹا رہے ہیں جس کی قیمت کچھ زیادہ نہیں۔ مقصد اس کا صرف یہ ہے کہ وہ اور ان کے اہلِ خانہ بینکوں سے مزید قرض لے سکیں۔ اس ملک کے لئے وہ ایک بد خبری ہیں‘‘۔ ویسے بد خبری تو اس ملک کے لئے خود زرداری صاحب ہی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ فوج کے خلاف باتیں کرنے کے بعد ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزار کر وہ وطن واپس آ رہے ہیں، سو ان کی آمد کی خبر قدرے ہیجان انگیز ضرور ہے۔ انہیں کوئی پراسرار سی بیماری تھی جس کے علاج کے لئے انہیں راتو ں رات ملک چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔ ان کے بیٹے بلاول کہتے ہیں کہ اب ڈاکٹروں نے انہیں وطن واپسی کی اجازت دے دی ہے۔کیا ہم لوگ واقعی ''مفید احمق‘‘ ہیں کہ ہر بار زرداری اور اب ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے تراشے گئے بہانوں پہ یقین کرتے چلے جائیں گے؟ زرداری صاحب کی بیماری ایک مذاق بنتی جا رہی ہے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved