تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     22-12-2016

یونین جیک کی واپسی

گزشتہ دنوں بحرین میں خلیج فارس کے 6 عرب ممالک بحرین‘ کویت‘ اومان‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پر مشتمل گلف کوآپریشن کونسل (GCC) کی سالانہ سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی نمایاں خصوصیت برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی بطور مہمان خصوصی شرکت تھی۔ گلف کوآپریشن کونسل ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد 1981ء میں تشکیل دی گئی تھی‘اور اس کا بنیادی مقصد خلیج فارس کے عرب ممالک‘ جو امریکہ کے قریبی اتحادی تھے‘ کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دے کر انہیں ایران کے خلاف کھڑا کرنا تھا۔ جی سی سی کے رکن ممالک دفاع اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کا جائزہ لینے کے لیے ہر سال سربراہی کانفرنس منعقد کرتے ہیں‘ لیکن اس تنظیم کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی برطانوی وزیر اعظم نے اس میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی ہو‘ حالانکہ 1967ء میں نہر سویز کے مشرق میں واقع تمام علاقوں سے اپنی افواج کی واپسی کے بعد برطانیہ نے خلیج فارس ہی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا کے سیاسی اور دفاعی حالات سے بھی خاصی کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی اور اس کی جگہ امریکہ نے خلیج فارس کے اردگرد سمندروں مثلاً بحر ہند میں اپنی بحری قوت میں نمایاں اضافہ کر لیا تھا۔ 1973ء کی عرب اسرائیگ جنگ اور اس کے بعد مشرقِ وسطیٰ سے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو تیل کی سپلائی پر پابندی کے بعد‘ امریکہ نے اس خطے میں اپنی فوجی طاقت میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس دوران میں برطانیہ کا خلیج فارس سے تعلق رسمی رہ گیا تھا اور اس کی تمام تر توجہ یورپی یونین یا کامن ویلتھ کے رکن ممالک کے ساتھ تجارتی اور دیگر شعبوں میں تعلقات پر مرکوز رہی‘ لیکن اب برطانیہ تقریباً 40 سال بعد خلیج فارس کے عرب ممالک کے ساتھ ایک دفعہ پھر نہ صرف تجارتی بلکہ دفاعی شعبوں میں بھی طویل المیعاد بنیادوں پر ایک فعال اور قریبی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ جی سی سی سربراہی کانفرنس سے پہلے اور اس کے دوران بھی برطانوی وزیر اعظم نے خلیج فارس کے عرب ممالک کے حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے جو بیانات دیئے‘ ان سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ اس خطے کے ممالک کے ساتھ دوبارہ اہم تجارتی اور دفاعی معاہدے کرنا چاہتا ہے اور اس بات کا خواہاں ہے کہ مقامی حکمران اس خطے کی ترقی‘ سلامتی اور دفاع کے لیے اس پر انحصار کریں۔ مثلاً تھریسا مے نے ایک بیان میں کہا کہ جب مشکل پیش آتی ہے تو پرانے اور قابلِ اعتماد دوست یاد آتے ہیں۔ ان کا اشارہ غالباً اس دور کی طرف تھا‘ جب برٹش انڈیا سے برطانیہ اٹھارہویں صدی کے آخری نصف حصے سے بیسوی صدی کے پہلے نصف حصے تک اپنی ''فارورڈ‘‘ پالیسی کے تحت خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کو کنٹرول کرتا تھا‘ لیکن دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں کے پیش نظر اسے آہستہ آہستہ یہ پوزیشن امریکہ کے حوالے کرنا پڑی۔ لیکن اب برطانوی وزیرِ اعظم مقامی عرب ریاستوں کو یقین دلاتی ہیں کہ خلیج فارس کی سلامتی‘ برطانیہ کی سلامتی ہے اور اسے مضبوط بنانے کے لیے برطانیہ خلیج فارس میں دفاعی تنصیبات کی تعمیر پر آئندہ دس برس میں بھاری رقم خرچ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اطلاعات کے مطابق بحرین میں ایک اہم برطانوی بحری اور فضائی اڈے کی گزشتہ سال اکتوبر سے تعمیر جاری ہے‘ جہاں برطانیہ کے فوجی دستے اور بحری جہاز مقیم رہیں گے۔ 1967ء کے بعد خلیج فارس میں برطانیہ کا یہ پہلا بڑا فوجی اڈہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم تھریسا مے نے اعلان کیا کہ اب خلیج فارس میں برطانیہ کی فوجی موجودگی پہلے کے مقابلے میں زیادہ مستقل اور زیادہ پائیدار ہو گی۔ آخر وہ کون سے عوامل ہیں‘ جن کی وجہ سے برطانیہ ایک دفعہ پھر خلیج فارس کے دفاعی امور میں سرگرمی سے حصہ لینے پر مجبور ہوا ہے؟ تبصرہ نگاروں کے مطابق اس کی سب سے اہم وجہ معاشی اور تجارتی ہے۔ یورپی یونین سے علیحدگی (Brexit) کے بعد برطانیہ متبادل تجارتی پارٹنرز کی تلاش میں ہے اور خلیج فارس کے عرب ممالک اس مقصد کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں‘ کیونکہ یہ ممالک نہ صرف تیل اور گیس کی برآمد سے حاصل ہونے والی دولت سے مالامال ہیں بلکہ جی سی سی کے رکن ہونے کی حیثیت سے ان ممالک کے آپس میں وسیع اور قریبی تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ اس کی وجہ سے برطانیہ کو جی سی سی کے رکن ممالک سے علیحدہ علیحدہ دو طرفہ بنیادوں پر تجارتی اور اقتصادی معاہدات کرنے کی بجائے پورے بلاک کے ساتھ ایک ہی جامع تجارتی معاہدہ کرنا پڑے گا۔ اس سے فریقین کے درمیان تجارتی تعلقات کے قیام میں نہ صرف کم وقت صرف ہو گا بلکہ تجارت کے حجم میں آسانی سے اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنا ہر ملک کا حق ہے‘ اور اگر خلیج فارس کے عرب ممالک کے ساتھ تجارت برطانیہ کو فائدہ پہنچا سکتی ہے تو اسے اس کے لئے ضرور کوشش کرنی چاہیے‘ لیکن برطانیہ نے یہ مقصد پورا کرنے کے لیے جو اپروچ اختیار کی ہے‘ وہ خطے کے دوسرے ممالک مثلاً ایران کے لیے وجہء تشویش بلکہ اشتعال انگیزی کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی طرح خلیج فارس میں برطانیہ کی واپسی خلیج فارس میں سلامتی کے فروغ کی بجائے عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ وزیر اعظم تھریسا مے نے اپنے بیانات میں دعویٰ کیا ہے کہ خلیج فارس کے دفاعی معاملات میں فعال کردار ادا کرنے کا مقصد خطے میں داعش اور ایران کے ''جارحانہ‘‘ عزائم کو روکنا ہے۔
جہاں تک داعش کا تعلق ہے‘ اسے قوی کرنے میں علاقے کے کچھ ممالک کا کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ان ممالک نے اس انتہا 
پسند تنظیم کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کے لیے مالی امداد دی‘ جس کے بل پر دو سال قبل داعش کے فوجی دستے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ برطانوی وزیر اعظم اس کردار کی مذمت کرتیں‘ اس کے برعکس انہوں نے ایران کی ''جارحیت‘‘ کا نام لے کر خطے کے عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ امارات کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی۔ 
برطانوی وزیرِ اعظم کے نوٹس میں یہ بات لانا ضروری ہے کہ 1979ء میں اسلامی انقلاب کے بعد انتہائی اشتعال انگیزی کے باوجود ایران نے خطے میں کسی ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا‘ بلکہ ایران جارحیت کا نشانہ بنا‘ اور اس کی سب سے نمایاں مثال صدام حسین کے دور میں ایران پر عراق کا حملہ ہے۔ مغرب‘ خصوصاً امریکہ کی شہ پر مقامی عرب ممالک نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایران کے خلاف عوامی رائے عامہ منظم کرنے کی بہت کوشش کی‘ لیکن ایران کی تحمل اور بردباری پر مشتمل خارجہ پالیسی نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ برطانوی وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایران نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں مسلک کو آڑے نہیں آنے دیا۔ اس کا ثبوت ایران کی پاکستان اور سعودی عرب‘ دونوں کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی خواہش ہے‘ لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ برطانیہ نے خلیج فارس میں ''ایرانی جارحیت‘‘ کا شوشہ کیوں چھوڑا ہے۔ دراصل اس کا مقصد خلیج فارس کے عرب ممالک میں احساسِ عدم تحفظ پیدا کرکے انہیں برطانیہ کے ساتھ دفاعی روابط قائم کرنے اور برطانوی اسلحہ خریدنے پر مائل کرتا ہے تاکہ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد برطانیہ کی معیشت کو جس مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اس کا ازالہ ہو سکے۔ خلیج فارس کے تیل برآمد کرنے والے ممالک مغربی طاقتوں کے تیارکردہ اسلحے اور ہتھیاروں کی ہمیشہ ایک نہایت نفع بخش
منڈی رہے ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں جب تیل کی قیمتیں عروج پر تھیں مغربی ممالک خصوصاً امریکہ نے ایران‘ سعودی عرب اور کویت کے ہاتھ کھربوں ڈالر کا اسلحہ اور ہتھیار فروخت کیے تھے۔ اب بھی سعودی عرب امریکی ہتھیاروں کا ایک اہم خریدار ہے۔ برطانیہ اسلحہ فروخت کرنے کی اس دوڑ میں شریک ہونا چاہتا ہے۔ اگلے دس برس کے لیے برطانوی وزیر اعظم نے خلیج فارس کے علاقے میں 3 ارب پونڈ مالیت کے جن دفاعی اخراجات کا اعلان کیا ہے‘ اس کا مقصد خطے میں طویل المیعاد بنیادوں پر برطانوی فوجی اثرورسوخ اور تجارتی مفادات کا فروغ ہے‘ لیکن ان اقدامات سے خلیج فارس کی سلامتی کو فروغ ملنے کی بجائے‘ وہاں عدم استحکام پیدا ہو گا۔ اس لیے کہ ماضی میں برطانیہ اور فرانس کے بعد امریکہ نے بھی مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقے میں فوجی اڈے اور اثرورسوخ قائم کرکے خطے کو انتشار اور عدم استحکام سے دوچار کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی 2008ء کے عالمی مالی بحران سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔ اسی وجہ سے وہ ایسے خطوں کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں نفع بخش تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں‘ جہاں سے انہیں مالدار خریدار مل سکیں۔ ان خطوں میں جنوبی ایشیا اور خلیج فارس کے ممالک شامل ہیں‘ جہاں یا تو ترقی کی رفتار تیز ہے یا قدرتی وسائل سے دولت حاصل کی جاتی ہے۔ ایران کی ''جارحیت‘‘ کا ہوّا کھڑا کرکے برطانیہ بھی امریکہ کی طرح خلیج فارس میں اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ تاریخ اس بات کی پکی گواہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس میں جارحیت کا مرتکب کون رہا ہے۔ 1950ء کی دہائی میں ایران میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا خاتمہ اور 1956ء میں نہر سویز کو قومیانے پر برطانیہ اور فرانس کی طرف سے مصر پر حملہ کسے یاد نہیں۔ اب بھی خلیج فارس کے اردگرد سمندروں میں امریکی طیارہ بردار جہازوں‘ دیگر جنگی جہازوں اور آبدوزوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ خلیج فارس کی سلامتی اور استحکام کو اگر کوئی خطرہ ہے تو امریکہ کے فوجی اڈوں اور اس کی بحریہ کی موجودگی سے ہے‘ ایران سے نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved