گزشتہ جمہور نامہ(18دسمبر) پرمیجر عامر کا فون آیا‘''مرحوم مشرقی پاکستان کو یاد کرنے کا یہ انداز بھی خوب ہے‘‘ اس میں ڈھاکہ کے بیت المکرم کا ذکر بھی تھا۔ میجر کو اپنے استاد احمد فراز یاد آئے۔ فیض نے ڈھاکہ سے واپسی پر ''ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘‘ جیسی دلگداز نظم لکھی تھی فراز نے بیت المکرم کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر کہا ؎
کبھی یہ شہر مرا تھا‘ زمین میری تھی
میرے ہی لوگ تھے‘ میرے ہی دست و بازو تھے
پاکستان کی سپریم انٹیلی جینس ایجنسی کا اساطیری کردار‘ فوج سے جبری ریٹائر نہ کیا جاتا توکہنے والے کہتے ہیں‘ وہ تھری سٹار جنرل کے منصب تک تو پہنچ ہی جاتا۔ افغان جہاد کے دنوں میں وہ اسلام آباد میں آئی ایس آئی چیف تھا۔ آئی ایس آئی سے وابستگی کے دنوں میں‘ اس نے کیا کیا کارنامے انجام دیے‘ یہ کتابی صورت اختیار کر جائیں تو دنیا کے بڑے بڑے سپائی ماسٹرز داد دیے بغیر نہ رہیں۔
بے نظیر صاحبہ کا پہلا دور تھا‘ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد صرف درجن بھر ووٹوں کی کمی سے ناکام ہو گئی تھی۔ تحریک عدم اعتماد کو ''آپریشن مڈ نائٹ جیکالز‘‘ کا شاخسانہ قرار دیا گیا اور بریگیڈیئر امتیاز(عرف بریگیڈیئر بلّا)اور میجر عامر مرکزی کردار قرار پائے۔ ایڈجوٹینٹ جنرل‘ جنرل محمد اشرف ‘ ڈی جی ایم آئی جنرل اسد درانی(بعد میں آئی ایس آئی چیف) بریگیڈیئر ذکا‘ بریگیڈیئر ذوالفقار اور کرنل نسیم پر مشتمل انکوائری بورڈ نے میجر عامر کو بے گناہ قرار دے دیا‘ اس کے باوجود اسے فوج سے جبری ریٹائر کر دیا گیا۔ محترمہ کی برطرفی
کے بعد آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے عامر کو گھر بلایا‘ انہیں اعتراف تھا کہ میجر کے ساتھ زیادتی ہوئی اور اب وہ اس کی تلافی چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا‘ تم درخواست لکھ دو‘ میں اس زیادتی کی تلافی کے لیے Compensationکی کوئی صورت نکال لوں گا۔ آرمی چیف نے یہ بھی بتایا کہ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر میرے دفتر آ کر بیٹھ جاتا اور بتاتا کہ وزیر اعظم سخت ناراض ہیں اور ملزموں کے لیے سخت سزا کی خواہاں ہیں۔ آرمی چیف نے میجر عامر کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بے گناہ قرار پانے کے باوجود‘ اس کے ساتھ یہ زیادتی‘ دراصل سول‘ ملٹری تعلقات کو بچانے کی کوشش تھی۔ عامر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے یہی بات کسی اعزاز سے کم نہیں کہ چیف نے اسے گھر بلایا اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا اعتراف کرتے ہوئے‘ اب وہ تلافی کی بات بھی کر رہے تھے۔ باقی رہے سول ملٹری تعلقات‘ وہ تو اس کی ''قربانی‘‘ کے باوجود بچ نہ پائے اور نوبت محترمہ کی برطرفی تک جا پہنچی۔1993ء میں محترمہ دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں۔ میجر عامر کی جبری ریٹائرمنٹ ان کے خیال میں کافی نہیں تھی۔ انہوں نے اسے ای سی ایل پر ڈال کر‘ سنگین غداری کا مقدمہ بنا دیا۔ مقدمہ چلتا رہا‘ یہاں تک کہ محترمہ دوسری بار پھر برطرف کر دی گئیں۔ غداری کا مقدمہ سننے والی سپیشل کورٹ سے عامر بے گناہ قرار پایا۔ فیصلے میں اس
مقدمے کو ''پریوں کی کہانی‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ مشرف دور میں وہ ''نواز شریف سے دوستی‘‘ کے الزام میں زیر عتاب رہا۔
دو ماہ قبل‘ اکتوبر کے وسط میں اسے سنگین بیماری نے آ لیا۔ اسلام اور پاکستان سے محبت اور دوستوں کے لیے بیکراں مہرو وفا سے معمور اس کا سینہ خطرناک وائرس کی زد میںیوں آیا‘ کہ ایک پھیپھڑا Collapseکر گیا‘ سانس کی نالی بھی زد میں آ گئی‘ اور اس کے ساتھ نمونیہ‘ جان کے لالے پڑ گئے۔ بیس دن ہسپتال میں گزار کر وہ گھر آ گیا‘ اس پابندی کے ساتھ کہ وہ کمرے سے باہر نہیں نکلے گا۔ دسمبر آ گیا تو اسے دھوپ میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔ اتوار کی دوپہر لاہور میں بھی دھوپ مزیدار تھی۔ عامر کی کال کے ساتھ میں‘ گھر کے سامنے پارک میں آ بیٹھا ؎
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں شاید نہ اگلے سال ملیں
عامر نے بیت المکرم کی سیڑھیوں پر کہے گئے‘ احمد فراز کے شعار سنائے اور پھر یہ ذکر طویل ہوتا گیا۔ فراز اسلامیہ کالج پشاور میں اس کے استاد رہے تھے۔ دونوں میں شفقت و محبت اور ادب و احترام کا گہرا رشتہ تھا۔ محسن احسان‘ خاطر غزنوی اور فراز ‘ یک جان سہ قالب والا معاملہ تھا۔ عامر بھی ان محفلوں سے فیض یاب ہوتا‘ جو زیادہ تر خاطر غزنوی کے ہاں ہوتیں۔
عامر کا کہنا تھا‘ فراز عشق و محبت کا شاعر بھی تھا‘ کیسی کیسی غزلیں(اور نظمیں بھی) اس نے کہیں‘ لیکن اس کی شخصیت اور شاعری کے جس پہلو کی طرف توجہ نہیں دی گئی‘ وہ اس کی ''پاکستانیت‘‘تھی۔ وہ سچا اور پکا پاکستانی تھا۔ پاکستان کو مخاطب کر کے ایک موقع پر اس نے کہا ؎
وہ بھی شاعر تھا کہ جس نے تجھے تخلیق کیا
میں بھی شاعر ہوں تو خوں دے کے سنواروں گا تجھے
کشمیر پر اس نے کیا معرکہ آرا نظم لکھی ؎
مہ و انجم سے تراشے ہوئے تیرے باسی
ظلم و ادبار کے شعلوں سے جہاں سوختہ ہیں
قحط و افلاس کے گرداب میں غرقاب عوام
جن سے تقدیر کے ساحل بھی برافروختہ ہیں
سالہا سال سے لب بست و زباں دوختہ ہیں
لیکن اب اے میری شاداب چناروں کی زمیں!
انقلابات نئے دور ہیں لانے والے
حشر اٹھانے کو ہیں اب ظلم کے ایوانوں میں
جن کو کہتا تھا جہاں‘ بوجھ اٹھانے والے
پھر تجھے ہیں گل و گلزار بنانے والے
فراز نے اپنے صاحبزادے کو فوج میں بھیجا تو محض نوکری کے لیے نہیں‘ بلکہ وطن کی محبت میں وہ کرنل کے عہدے تک پہنچا۔ عامر کا کہنا تھا‘ فراز چونکہ ڈکٹیٹروں کے خلاف لڑتا رہا‘ اس لیے پراپیگنڈہ بازوں نے اس کی حب الوطنی ہی کو مشکوک ٹھہرا دیا۔ 1982ء میں (ضیاء الحق کے مارشل لاء کا دور ) وہ کراچی پریس کلب میں مشاعرہ پڑھ کر نکلا تھا کہ اسے سندھ بدری کا حکم نامہ تھما دیا گیا۔ بالآخر اس نے خود ساختہ جلاوطنی کا فیصلہ کر لیا۔ اس دوران امریکہ اور یورپ میں مشاعرے بھی پڑھتا رہا۔''لیکن اس کا انڈیا جانا‘‘؟... ''انڈیا میں تو آپ کے کئی اور شعرا بھی مشاعرہ پڑھنے جاتے رہے‘ مثلاً قتیل شفائی‘‘۔
عامر کے پاس‘ احمد فراز کے حوالے سے یادوں کا خزانہ ہے۔ اسلام آباد میں ملک معراج خالد کی سرکاری رہائش گاہ پر محفلیں ہوتیں۔ محترمہ کے دوسرے دور میں ملک صاحب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر کے طور پر سرکاری رہائش گاہ میں مقیم ہوئے۔ محترمہ کی برطرفی کے بعد‘ اپنی عبوری وزارت عظمیٰ کا دور بھی انہوں نے یہیں گزارا۔ کبھی کبھار بیگم سرفراز اقبال کے ہاں اکٹھ ہوتا(فیض سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھنے والی خاتون نے ان کے ساتھ خط کتابت کو ''دامنِ یوسف‘‘ کے نام سے محفوظ کر دیا)کبھی اسلام آباد ہوٹل کی لابی میں محفل سجتی(آج بھی فراز کارنر کے نام سے یہ جگہ محفوظ ہے)
عامر ایس آئی ایس کے حوالے سے اپنی یادداشتوں کے لیے تو پتہ نہیں وقت نکال پائے گا یا نہیں (شاید اس میں کچھ قومی مصلحتیں اور ریاستی حکمتیں بھی حائل ہوں)لیکن فراز کے حوالے سے اپنی یادوں کو تو قلمبند کر دے۔ یہ فراز کا اپنے شاگرد پر حق بھی ہے اور دنیائے ادب کا عامر پر قرض بھی۔