مشتاق رئیسانی کا شکریہ اس نے بلوچستان کی غربت‘ محرومی‘ اور پسماندگی کی لاج رکھ لی۔ نیب سے پلی بارگین میں دو ارب روپے کی خطیر رقم بصورت نقد و اثاثہ جات واپس کر کے یہ ثابت کیا کہ قومی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے میں پیاس و افلاس کی دھرتی کے سپوت بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
بلوچستان کی محرومی‘ پسماندگی اور وفاق سے ناراضگی کا ڈھنڈورا اس قدر تسلسل سے پیٹا گیا اور اس کا ذمہ دار وفاقی حکومت‘ اداروں اور فوج و بیورو کریسی پر قابض پنجابی اشرافیہ کو قرار دے کر وہ دھول اڑائی گئی کہ پنجاب اور اسلام آباد کے ہر باسی کے چہرے پر ہمیشہ عرق انفعال کے قطرے ہی نظر آئے۔ کوئٹہ سے باہر نکل کرہر دل درد مند‘ خون کے آنسو روتا ہے کہ معدنی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ غربت و افلاس اور پسماندگی کی چکی میں پس رہا ہے اور حکمرانوں کو احساس نہیں۔ بلوچستان کی پسماندگی تو مسلّمہ ہے مگر ذمہ دار کون ہے؟ جانتے سب ہیں‘ تعیّن آج تک نہیں ہو سکا کہ اس میں بلوچستان کی سیاست‘ وسائل اور اقتدار پر قابض سول اور خاکی پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں اور اس شیطانی گٹھ جوڑ نے کبھی لوٹ مار کے اس کلچر کو ختم نہیں ہونے دیا۔
''ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی‘‘ فیم وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کے دور میں تحفظ حقوق بلوچستان کی آڑ میں کھربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز ملے۔ ہر رکن اسمبلی کو ملنے والے اربوں روپے اگر اس کے حلقہ کی تعمیر و ترقی پر خرچ ہوتے تو بلوچستان کے طول و عرض میں سکولوں‘ ہسپتالوں‘ سڑکوں‘ خود روزگار سکیموں اور صاف پانی کے منصوبوں کا جال بچھ جاتا۔ ایک کروڑ سے بھی کم آبادی کے صوبے کو ملنے والے وسائل کا بیشتر حصہ مگر جنرل پرویز مشرف‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے چہیتے صوبائی حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کی جیبوں میں منتقل ہوا‘ دوبئی ‘ کراچی اور اسلام آباد میں بنگلے خریدے گئے‘ نئے ماڈل کی مہنگی گاڑیاں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر دھول اڑانے لگیں اور وڈیروں کے علاوہ بیورو کریٹس کے بنک اکائونٹس میں اضافہ ہوا۔ بلوچستان کو سیاسی لیڈر شپ بھی الاماشاء اللہ وہ نصیب ہوئی جس نے اس لوٹ مار کا ہمیشہ دفاع کیا‘ پسماندگی کا ذمہ دار وفاق کو ٹھہرایا اور لٹیروں‘ غیر ملکی ایجنٹوںکو بلوچوں کے حقوق کا علمبردار اور عوام کا خیر خواہ ظاہر کیا۔ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف تحریکیں چلیں اور بھارت‘ افغانستان اور دیگر ممالک میں ٹریننگ کیمپ بھی قائم ہوئے‘ مگر عوام دشمن وڈیروں کے علاوہ حریت پسندوں اور قوم پرستوں نے کبھی پسماندگی کا ذمہ دار مقامی لٹیروں‘ منتخب و غیر منتخب حکمرانوں اور بیورو کریسی کو قرار دیا نہ ان ظالموں کا گریبان پکڑا۔ یوںان کے حوصلے بلند ہوتے گئے‘ پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھی ترقیاتی فنڈز اور قومی وسائل خرد برد کرنے والوں کی کمی نہیں اور لوٹ مار کا کلچر ہے مگر تینوں صوبوں میں ترقیاتی فنڈز کا کچھ حصہ منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے اور عوام کی محدود پیمانے پر اشک شوئی ہوتی ہے بلوچستان میں کاغذی منصوبے بنا کر ساری رقم ہڑپ کرنے کا رواج ہے اور وفاقی حکومت ان کی ناز برداری کے لیے چشم پوشی کرتی ہے۔
ایک پسماندہ صوبے میں لوٹ مار کا یہ عالم ہے تو جن صوبوں میں وسائل کی ریل پیل ہے اور حکمران بلوچستان سے زیادہ بااختیار و خودسر ہیں وہاں وزیروں‘ مشیروں ارکان اسمبلی اور ان کے چہیتے بیورو کریٹس کی لوٹ مار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین پر ساڑھے چار سو ارب کا کیس چل رہا ہے اور ایک وفاقی‘ عوام دوست پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ اپنی سیاست کو خطرے میں ڈال کر ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی کی پشت پناہی کر رہی ہے پنجاب میں بعض بڑی مچھلیوں کو بچانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی قربانی دی گئی اور سول ملٹری تعلقات خراب ہوئے۔ دو روز قبل پانچ خود مختار ریگولیٹری اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کا سبب بھی یہی ہے۔ نیپرا‘ اوگرا اور پیپرا کرپشن اور من مانی میں رکاوٹ تھے‘ اپنے انجام کو پہنچے۔ کبھی ایل ڈی اے پلازہ‘ کبھی ضلع کچہری ملتان اور کبھی کے ڈی اے اور سی ڈی اے دفاتر میں آتشزدگی کے واقعات بھی بلاوجہ نہیں پیش آتے‘ بیرون ملک جائیدادیں‘ کاروبار‘ بنک اکائونٹس یونہی نہیں پھلتے پھولتے ‘ جانے پہچانے لٹیرے ‘ قبضہ گروپ‘ بھتہ خور اور اغوا کار سیاسی جماعتوں میں خدمت خلق کے جذبے سے شامل نہیں ہوتے‘ جانتے سب ہیں‘ بولتا کوئی نہیں کہ اس حمام میں سارے ننگے ہیں جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار‘ جج‘ جرنیل‘ جرنلسٹ اور کرپشن کے خاتمے پر مامور ادارے۔
یہ پلی بارگیننگ بھی عجیب گورکھ دھندا ہے۔ موبائل چور‘ بکری چور اور جیب کترا پکڑا جائے تو پہلے عام شہری اس کی درگت بناتے ہیں‘ پھر پولیس والے اپنا غصہ نکالتے اور آخر میں وہ بے چارہ طویل مدت تک حوالات اور جیل کی ہوا کھاتا ہے۔ پاکستان بھر میں ہزاروںنہیں لاکھوں افراد ایسے قید ہیں جو اپنے جرم کی نوعیت کے مطابق پوری سزا بھگت چکے مگر ان کی عدالتوں میں شنوائی ہے نہ حکمرانوں کے دربار میں۔ لیکن اگر کوئی سیاستدان‘ سول و خاکی بیورو کریٹ اور تاجر و صنعت کار پکڑا جائے تو وہ جیل میں کم‘ ہسپتال میں زیادہ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ شاہانہ شب و روز بسر کرتا ہے۔ مشرقی معاشرے میں جو آئو بھگت داماد کی ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ اہمیت ریاست کے ان دامادوں کو ملتی ہے اور لوٹی گئی اربوں کھربوں روپے کا صرف دس بیس فیصد پلی بارگین کے ذریعے دے کر یہ بآسانی چھوٹ جاتے ہیں۔ باقی ماندہ رقم سے وہ اندرون و بیرون ملک عیش کرتے اور ہمارے درآمدی وزیر اعظم
شوکت عزیز کو دعائیں دیتے ہیں جس نے اپنے ہم پیالہ و ہم نوالہ لٹیروں کوپلی بارگین سہولت فراہم کی۔ نیب اپنی جگہ سچی ہے کہ یہ قانون اس نے بنایا نہ برقرار رکھا۔ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی یہ باقیات میاں نواز شریف کو طلال چودھری‘ دانیال عزیز اور ماروی میمن کی طرح عزیز ہے۔ تبھی اس ظالمانہ اور مضحکہ خیز شق کو آصف علی زرداری نے ختم کیا نہ میاں صاحب نے چھیڑا۔ ارکان اسمبلی کے لیے بی اے کی تعلیمی شرط اور وزیر اعلیٰ و وزیر اعظم کے تیسری بار انتخاب پر پابندی کو ختم کرنے میں یہ دونوں متحد اور عجلت میں تھے۔ لیکن سرکاری وسائل کی لوٹ مار کا یہ دروازہ منتخب حکمرانوں نے بھی چوپٹ کھلا رکھا تاکہ خالد لانگو‘ مشتاق رئیسانی اور دیگر اسے بآسانی استعمال کر سکیں۔ان قومی مجرموں نے کتنے سکولوں‘ ہسپتالوں‘ رفاہی اداروں اور صاف پانی کی سکیموں کے لیے مختص رقم جیب میں ڈال کر یہ دولت اکٹھی کی کسی کو فکر نہیں۔ اس جرم کی سزا کل اثاثوں‘ بنک اکائونٹس کی ضبطی اورعمر قید تھی تاکہ دوسرا کوئی اس کا ارتکاب نہ کرے مگر چور‘ چور کا اور ڈاکو ڈاکو کا احتساب کیوں اور کیسے کرے؟ لہٰذا پلی بارگین پر کوئی معترض نہیں۔
شوکت عزیز کو یہ آئیڈیا کہاں سے ملا اور فوجی دور کی نیب نے کیونکر ہاتھوں ہاتھ لیا‘ راوی خاموش ہے۔ مگر ہمارے مزاح نگار ‘ شاعر برسوں قبل تمام لٹیروں‘ چوروں ‘ ڈاکوئوں اور رشوت خوروں کو یہ مفت مشورہ دے چکے تھے ؎
میں بتائوں‘ تجھ کو تدبیر رہائی‘ مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے‘ دے کے رشوت چھوٹ جا
ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنے شہر کے اس ذہین شاعر کے مشورے کو درخور اعتنا نہ سمجھا‘ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی سیاسی طاقت اور سودے بازی کی صلاحیت پر انحصار کیا‘ ابھی تک پابند سلاسل ہے بلوچ بیورو کریٹ اور اس کے فرنٹ مین کو جس کی اردو بھی شائد اتنی معیاری نہ ہو‘ شاعر کا مشورہ اور نیب کا قانون پسند آیا‘ پلی بارگین کی منظوری مل گئی نیب کا ڈائریکٹر پریس کانفرنس میں بتا رہا تھا کہ مشتاق رئیسانی اور سہیل مجید اگلے دس سال تک سرکاری ملازمت اور عوامی منصب کے لیے نااہل ہیں۔ جن لوگوں کے پاس اربوں روپے کی جائیدادیں ہیں اور لوٹی ہوئی دولت ہے انہیں بائولے کتے نے کاٹا ہے کہ وہ دوبارہ سرکاری ملازمت یا عوامی نمائندگی کے بارے میں سوچیں۔ وہ کراچی‘ اسلام آباد‘ دبئی‘ لندن ‘ بنکاک میں عیش و عشرت کی زندگی کیوں بسر نہیں کریں گے۔اڑتیس ارب روپے ہضم کرنے کے لیے دو ارب روپے کی قربانی سزا نہیں‘ انعام ہے تاکہ یہ قومی مجرم باقیماندہ اربوں روپے سے خاندان اور اپنے دل کے ارمان پورے کر سکیں، چند ماہ کی قید اور لوٹی ہوئی دولت میں سے پانچ دس فیصد کی واپسی کے عوض انسان اگر پرتعیش زندگی بسر کر سکتا ہے تو‘ کس کا دل مشتاق رئیسانی کی طرح قومی خزانہ لوٹنے کو نہ چاہے گا‘ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔