تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     23-12-2016

پاکستان انڈر اٹیک

گزشتہ رات سال کی سب سے طویل شب تھی۔ ظاہر ہے جمعرات کا روز سب سے مختصر دن ہے۔ رات طویل ہو تو ذہن میں خوابوں کا لنڈا بازار سج جاتا ہے۔ اکثر خواب یادوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آج کا موضوع دونوں کا مجموعہ سمجھ لیں‘ اور اس کی آمد کا سبب سپریم کورٹ کے ایک نابغہ جج جسٹس جاوید اقبال کی تازہ پریس ٹاک ہے۔ جسٹس جاوید اقبال، جسٹس فلک شیر کی طرح عدلیہ میں سیاست کا شکار ہو گئے‘ اگرچہ الگ الگ وجہ سے‘ لیکن جسٹس فلک شیر اور جسٹس جاوید اقبال سیاسی چیف جسٹس سے سینئر تھے۔ جسٹس فلک شیر تعیناتی کی بنیاد پر جبکہ چیف جسٹس جاوید اقبال تاریخ پیدائش کی رو سے۔ پرویز مشرف نے جرنیل کلب سے رشتہ داری کی بنیاد پر سیاسی چیف جسٹس کو دونوں صاف ستھرے جج صاحبان پر ترجیح دینے کا پھیکا پُھس پُھسا اور بدذائقہ فیصلہ کیا۔
بات ہو رہی تھی جسٹس جاوید اقبال صاحب کی۔ ان کی عدالت میں مجھے بے شمار مقدمات لڑنے کا موقع ملا۔ کئی معرکۃ الآرا فیصلے رپورٹ شدہ بھی ہیں۔ مقدمے کی سماعت کے دوران یہ رپورٹروں سے آنکھ تک نہ ملاتے‘ اسی لیے نہ خبر بنتی اور نہ کوئی ٹِکر چلتا۔ ایک روز ان کی عدالت میں موجودہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور میں پیش ہوئے۔ ان سے عشروں پر پھیلی ذاتی شناسائی چل رہی ہے۔ دورانِِ سماعت وہ طبیعت کی اچانک خرابی سے فرش پر آرہے۔ ایسے موقعوں پر اکثر لوگ لٹک کر یہ دیکھنا پسند کرتے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔ مجھے ان کے چہرے پر بے پناہ پسینہ دیکھ کر تھوڑی سمجھ آئی کہ معاملہ کیا ہے۔ میں نے جلدی سے ان کی ٹائی اور قمیض کے بٹن کھولے۔ ساتھ ہی 
شدید پسینے کی وجہ سے ان کا جوتا اتارا اور ایک پائوں سے جراب اتاری، دوسرے پائوں سے جراب اتارنے والے شخص سے نظریں دوچار ہوئیں تو وہ جسٹس جاوید اقبال تھے‘ جو بینچ کی سربراہی چھوڑ کر مریض کے پائوں کے تلوے ملنے میں میرا ساتھ دے رہے تھے۔ جسٹس جاوید اقبال سے ایک اور ملاقات بھی بڑی دلچسپ رہی‘ جس میں میرا بیٹا عبداللہ بھی شریک تھا۔ میں نے بیٹے سے پوچھا کہ انکل کو پہچانتے ہو؟ عبداللہ تب سکول میں تھے۔ کہا: ان کو میں نے دیکھا ہوا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے قہقہہ لگایا‘ عبداللہ کی بات روکی اور اپنا ایک واقعہ سنانے لگ گئے۔ بولے: میں ایک جگہ شاپنگ کر رہا تھا۔ ایک خاتون میرے پاس آئی کہ آپ فلاں فلمی اداکار ہیں یا آپ ان کے ہم شکل ہیں۔ عبداللہ نے فوراً اس فلمی اداکار کا نام لے لیا‘ جس پر ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔
میں نے وزارت قانون و انصاف سے 11 اپریل 2011ء کواستعفیٰ دیا اور پاکستان کے آئین کے خالق شہید وزیر اعظم کے عدالتی قتل کے مقدمے میں وکالت شروع کر دی۔ مئی 2011ء کی یکم اور 2 تاریخ والی درمیانی رات کو یو ایس سپیشل فورسز نے خودمختار پاکستان کی سرزمین پر مسلح حملہ کر دیا۔ اس حملے کی بازگشت میری یادوں کو مہمیز دے گئی۔ آپ اسے خواب کہہ لیں یا پھر یادداشت، مجھے ایسے لگا جیسے پاکستان کی سرزمین پر قطار اندر قطار خون آشام گدھ اتر رہے ہیں۔ میری یادوں کے پردے پر ایبٹ آباد حملے کی رپورٹ لہرا گئی۔ ٹھہریے ٹھہریے یہ چار نام بھی سامنے آئے۔ جسٹس جاوید اقبال صدر کمیشن، عباس خان، اشرف جہانگیر قاضی اور لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد ممبرز۔ لوڈشیڈنگ کے باوجود صفحہ نمبر112‘ بلکہ وہ دیکھیں پیراگراف نمبر223 سامنے آ گیا ہے۔ ہلکے فونٹ میں ٹائپ شدہ پیرا یوں دکھائی دے رہا ہے۔
The Funds for the campaign in Nawan Sheher were not received through the FATA secretariat, which was Afridi's department. The coordinators of the program only intracted with Afridi. The Funds were deposited in his personal account at his department "was not involved" He was asked by commission if he considered this modality of direct personal payment to be appropriate. He was also asked why he did not infrom the government office activities since it involved the use of donor funds. Afridi admitted to the commission that he was paid around Rs. 1.3 Million. 
وہ رہا پیراگراف نمبر 224
As regards the actual procedure for the programme cards were given to the women who were vaccinated. The vaccines were to be administered in three doses. The LHWs would indicate on the cards when the second dose was due and ladies would be required to produce the card before receiving the second dose. Afridi came to Abbotabad on 19th March 2011 to collect the list of vaccinated women as well as the empty vaccine vails to account for their use. The second campaign was scheduled for April 13th. On April 17th, Afridi received call from another american women, a so-called "Sue" whom he had met through McGrath. She asked him to extend the programme to the whole of Nawan Sheher, specially the Pashtun area which he should monitor personally. There were 3 Pashtun localities (Mohallas) in Nawan Sheher.
ارے پیراگراف نمبر225 سامنے لہرا رہا ہے‘ صفحہ نمبر 113پر
On 19th and 20th April the campaign was lanch in pashtun areas of nawan sheher. When he approched the last house, the local lady supervisor informed him the residents were from peshawar and no one, expect Afridi, would be allowed inside because "they had feud" (the OBL compund was locally known as "Waziristan Kothi" and the brother was Swati so it is odd that the local women said the residents were form peshawar) on Afridi`s suggestion the LHWs skiped the house. However,the lady supervisor rang the door bell but recived no answer. she then called on her phone but was told taht the residents were not at home. It was not clear whom she spoke to or from where she got Ibrahim's or Abrar's phones numbers
پیرا گراف نمبر 226پڑھنے کے بعد فیصلہ کرنا پڑے گا کہ جس امریکی اٹارنی جنرل نے ڈالروں کے عوض ملکی سا لمیت بیچنے والوں کو گالی دی تھی وہ صحیح کام تھا یا غلط ۔ میرے خیالات کا تسلسل ٹوٹنے کا ڈر ہے۔ اس لئے پیرا گراف نمبر 226پر پہلے نظر ڈال لینی چاہیے ۔ 
Afridi said after completing the vaccination programe he informed the so called Kate, Sue and Sara accordingly. They visited the area frequently along with "their people" to check on the programe. All
key position in the "save the children" programe, according to Afridi, were filled by "their own people". Pakistanis performed operations in the field while the Americans did the finance and plaining. The whole campaign was completed on April 23, 2011. The cost of the campaign, according to Afridi, was Rs.5.4 millions. This was the cost of the three doses of the Vaccine for the women and the childern.
وطن فروش ضمیر فروشی کا کاروبار کیسے چلاتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک پیرا گراف نمبر 230پہ دکھائی دے رہی ہے۔ خیالات کی وادی پر سموک کے سائے بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے آپ پیرا گراف نمبر 230پہ توجہ مرکوز رکھیں۔ 
He admitted that FATA Secretariat has no role in the STC programme and that STC interacted directly with him. He also said that the Cheques he received were deposited in his personal accounts becouse his department was not involved .He said that the campaign was not brought to the knowledge of the Government as it was not a secret programme. The money was received in cash. (A cheque would leave a paper trail).
ٹیلی فون کی کرخت گھنٹی نے میرے خواب وخیال کو ڈی ریل کر دیا ہے۔ چھٹیاں شروع ہو چکی ہیں۔ میں پاناما والے فاضل بینچ کی پیروی میں وکالت نامہ روک رہا ہوں ۔ آخر کار چھٹیوں کے بھی تو کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ میں چھٹیوں سے انصاف کرنے جار ہا ہوں۔ نیکٹا سے وزیر اعظم تک سب چھٹی پر ہیں ۔ اس کے باوجو د کہ پاکستان آج بھی انڈر اٹیک ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved