تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-12-2016

چلتے بیل کو چابک مارنے کی عادت

جیسا کہ سب کو امید ہی نہیں یقین تھا کہ چیئرمین ضلع کونسل ملتان کے مسلم لیگ ن کے امیدوار دیوان محمد عباس کو ہائی کورٹ سے الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے گی۔ سو لوگوں کا یقین ‘ سچ ثابت ہوا اور انہیں یہ اجازت مل گئی اور آج ان کا الیکشن ہے‘ جو وہ بھاری اکثریت سے جیت لیں گے۔ ان کے ممکنہ نااہلی سے بچ جانے کا سب سے بڑا فائدہ فی الحال یہ نظر آ رہا ہے کہ ملتان کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 153جلالپور پیر والہ پر 2018ء کے آنے والے الیکشن میں زیادہ ''لوٹا بازی‘‘ نہیں ہو گی۔ اگر دیوان عاشق بخاری(فارغ شدہ ایم این اے حلقہ این اے153) کے بیٹے دیوان عباس بخاری کو اگر چیئرمین ضلع کونسل ملتان کے لیے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ نہ ملتی یا وہ نااہل ہو جاتے جیسا کہ آغاز میں ہوا تھا تو آئندہ الیکشن میں جلال پور پیر والہ میں وہی کچھ ہوتا جس کے لیے شجاعباد اور جلالپور پیر والہ والے شہرت رکھتے ہیں۔ ان دونوں تحصیلوں کے دو قومی حلقوں این اے 152اور 153اور صوبائی حلقوں پی پی205,204,203اور 206کی تاریخ اس سلسلے میں بڑی ''روشن روایات‘‘ کی امین ہے۔
اگر دیوان صاحبان بلدیاتی الیکشن میں من کی مراد نہ پاتے تو حلقہ این اے 153اور صوبائی حلقہ پی پی 205اور 206پر وہ لوٹا بازی ہوتی کہ شجاعبادیوں اور جلالپوریوں کی طوطا چشمی کے سابقہ ریکارڈ میں قابل قدر اضافہ ہوتا۔ تاہم راوی فی الحال چین لکھتا ہے تاہم ان تین حلقوں میں سوائے موجودہ ایم این اے حلقہ 153رانا قاسم نون کے کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون اگلا الیکشن کس پارٹی سے لڑے گا۔ چونکہ رانا قاسم نون کو ابھی مسلم لیگ ن میں آئے ایک سال بھی پورا نہیں ہوا اس لیے سابقہ روایات اور ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ابھی وہ 2018ء کا الیکشن مسلم لیگ ن کی طرف سے ہی لڑیں گے۔ شجاعباد اور جلالپور پیر والہ کے سیاستدان عموماً اگلا الیکشن دوسری پارٹی کی طرف سے لڑتے ہیں لیکن اس بار معاملہ ذرا مختلف ہے۔ فی الحال قرائن کیونکہ مسلم لیگ ن کی بہتر پوزیشن کی نشاندہی کر رہے ہیں اس لیے کم از کم حلقہ این اے 152اور 153کے موجودہ ارکان اسمبلی سید جاوید علی شاہ اور رانا قاسم نون کے پارٹی چھوڑ کر بھاگنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے ۔ اگر صورتحال مختلف ہوتی تو میرا اندازہ بھی بالکل مختلف ہوتا۔ فی الحال راوی مسلم لیگ ن کے لیے چین لکھتا ہے۔لیکن کیا میاں نواز شریف صاحب راوی کے لکھے گئے چین کو مدنظر رکھتے ہوئے خود بھی چین سے بیٹھ سکتے ہیں؟ یہ بڑا دلچسپ سوال ہے۔
میاں صاحب کے سدا سے مقدر ہی اچھے ہیں وگرنہ اپنی صلاحیتوں اور ذہنی استعداد کے حساب سے اُن پر ایک محاورہ صادق آتا ہے کہ ''روپ رون تے کرم کھان‘‘ یعنی حسن کو روتے اور قسمت کو مزے کرتے دیکھا ہے، میاں صاحب کو قدرت کی طرف سے مسلسل امدادی کمک ملتی رہتی ہے۔ وہ اپنی ذاتی صلاحیتوں سے معاملات کو ممکنہ حد تک خراب کرتے ہیں لیکن ہر بار قدرت ان کی غیب سے مدد فرماتی ہے۔ ویسے تو قدرت نے انہیں کئی مستقل امدادی دستے فراہم کر رکھے ہیں جن میں سید خورشید علی شاہ جیسا فرینڈلی اپوزیشن لیڈر اور آصف علی زرداری جیسا ''نیک نام‘‘ پارٹی لیڈر ہے جو عین وقت پر ان کی مدد کو آن حاضر ہوتے ہیں۔ عوامی سطح پر ان کو درپیش سب سے سیریس چیلنج بے نظیر بھٹو تھیں جو اپنے خالق حقیقی کے ہاں چلی گئیں۔ رہ گیا ان کا موجودہ پاپولر مخالف سیاسی رہنما عمران خان، تو اس کی متلون مزاجی‘ عقل سے ماورا غیر سیاسی فیصلوں اور شاہ محمود جیسے مشیروں کے طفیل وہ اپنا بیڑہ غرق کرنے کے لیے خودپوری طرح کفیل ہے۔ میاں صاحب کو فی الوقت سیاسی میدان میں کوئی حقیقی چیلنج درپیش نہیں ہے؛ تاہم میاں صاحب کوئی نہ کوئی راہ چلتے مسئلے کو ''جپھا‘‘ ڈالنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
میاں نواز شریف کو جب بھی کسی مصیبت یا مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ ان کے کسی مخالف نے نہیں بلکہ خود انہوں نے اپنی ذاتی کاوشوں سے ہی کھڑا کیا تھا۔ لیکن وہ اپنے خود ساختہ مسئلے کو کبھی بھی اپنی صلاحیتوں سے حل نہیں کر سکے بلکہ ان کے اپنے کھڑے کیے ہوئے مسئلے کو اللہ تعالیٰ غیبی مدد سے حل فرماتا ہے۔ مسئلہ کھڑا میاں صاحب خود کرتے ہیں جبکہ اس کو حل کرنے کا ذمہ فی الحال قدرت نے اپنے سر لے رکھا ہوا ہے۔
فوج سے تعلقات خراب کرنا ان کی ذاتی کاوش تھی اور جوابی کارروائی سے پرہیز کرنا فوجی قیادت کا دانشمندانہ قدم تھا وگر نہ میاں صاحب نے ممکنہ حد تک اکسانے کوشش کی مگر فریق ثانی نے ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود ''اکسنے‘‘ سے انکار کر دیا۔ پاناما لیکس‘ لندن کی پراپرٹی اور آف شور کمپنیوں کے مسائل بھی میاں صاحب کے خود کھڑے ہوئے تھے تاہم عمران خان کی ہر روز بدلتی ہوئی جوابی سٹریٹجی پیپلز پارٹی کی خالی خولی گیدڑ بھبکیوں اور عدلیہ کے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالے جانے والا رحم ان کے کام آ رہا ہے اور گمان غالب ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھی جلد ہی بری ہو جائیں گے۔ رہے نام اللہ کا۔
میاں صاحب کی خود ساختہ مصیبتوں میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ مغلیہ طرز حکومت کے خواہشمند ہیں اور ووٹ کے ذریعے آنے کے بعد وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں جو عموماً ''بوٹ والوں‘‘ سے وابستہ ہے۔ وہ طاقت کا سرچشمہ اپنی ذات میں مرتکز کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں اور اس سے بھی پہلے‘ ہر بار وہ اسی ایک شوق کے طفیل خوارو خستہ ہوتے رہے ہیں۔صدر فاروق لغاری کی چھٹی‘ جنرل جہانگیر کرامت کی رخصتی اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی فراغت ان کے اسی شوق کا نتیجہ تھا اور اس شوق کے نتیجے میں وہ راستے کے ہر ستون اور ادارے کو برباد کرنے کے در پے ہو جاتے ہیں۔ اب بھی ان کا یہی شوق ان کے لیے مصیبتیں کھڑی کرنے جا رہا ہے۔
1984ء میں کمپنیز آرڈی ننس بنا۔ تب یہ قانون اسمبلی کی بجائے صدر کے دستخطوں سے بطور آرڈی ننس اس لیے منظور ہوا کہ تب اسمبلی موجود ہی نہ تھی۔ بعدازاں جب اسمبلی وجود میں آئی اس آرڈی ننس کو قومی اسمبلی سے منظور کروا لیا گیا۔ اب اچانک میاں صاحب کو اس آرڈی ننس میں تبدیلی کا شوق پیدا ہوا اسمبلی کی موجودگی کے باوجود اسے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے بجائے اسے آرڈی ننس کے طور پر لاگو کرنے کی کوشش کی۔ ایک ستم ظریف دوست کا کہنا ہے،چونکہ ایوان صدر میں جناب ممنون حسین بالکل بیکار بیٹھے تھے لہٰذا صرف ان کی تالیف قلب اور اطمینان کی خاطر یہ مسودہ اسمبلی کے بجائے براہ راست ان کو بھجوا دیا تاکہ ان کا ضمیر بھی مطمئن ہو کہ انہوں نے بھی بالآخر کوئی کام کیا ہے اور وہ دستخط کرکے خوش ہو جائیں۔ سو انہوں نے دستخط فرما دیے اور یوں میاں صاحب نے اس آرڈی ننس کے ذریعے پورے کارپوریٹ سیکٹر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا بندوبست کر لیا۔ اس نئے مسودے میں یقیناً کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو بہتری کی جانب مثبت قدم ہیں لیکن چپکے سے میاں صاحب نے اپنے مغلیہ شوق کی تکمیل فرمانے کی پھر کوشش کی اور اس نئے آرڈی ننس کے طفیل تقریباً تیس کے لگ بھگ ''پبلک لسٹڈ‘‘ کمپنیز کے چیف آپریٹنگ آفیسرز/مینجنگ ڈائریکٹرز کو فارغ کرنے کے اختیارات حاصل کر لیے۔ پہلے یہ اختیارات ان کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو حاصل تھے مگر نئے مسودے میں یہ اختیار وزیر اعظم کو تفویض کر دیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی شامل کر دیا کہ کمپنیز آرڈی ننس کے معاملات میں ملک میں مروجہ ''قانون شہادت‘‘ لاگو نہ ہو گا بلکہ عدالت کا صوابدیدی اختیار ہو گا کہ وہ گواہی کی کون سی صورت قبول کرتی ہے۔
دوسری طرف یہ کہ سرکار نے ملک کے پانچ اہم خود مختار ریگولیٹرز کو حکومت کے ماتحت کر دیا ہے تاکہ ان کے غلط سلط اقتصادی فیصلوں کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ رہ جائے۔ نیپرا ‘ پیپرا‘ پی ٹی اے‘ فریکونسی ایلوکیشن بورڈ اور اوگرا کو خود مختاری کے درجے سے نیچے لا کر سرکار کے ماتحت کر دیا ہے اور عوام کو اداروں کی لوٹ مار سے جو تھوڑا بہت بچائو حاصل تھا وہ اس سے بھی محروم ہو گئے ہیں اب بجلی کے نرخ کا فیصلہ وزارت پانی و بجلی کرے گی لیکن وہ یہ نرخ خود کب طے کرے گی؟ یہ نرخ اسے جناب اسحاق ڈار عطا فرمائیں گے انہیں حکومتی اللوں تللوں کے کتنی رقم درکار ہے وہ اپنی ضرورت کو بجلی کے نرخ پر تقسیم کریں گے اور عوام کے سر پر ضرب لگا کر اپنا حاصل جمع پورا کر لیں گے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد پنجاب کو گیس کے کوٹے میں جو مار پڑی اس کو عوام گھروں میں سوئی گیس کی بندش اور انرجی سیکٹر میں سی این جی کی بندش کی صورت میں بھگت رہے تھے۔ اٹھارہویں ترمیم نے جس کے تحت میاں صاحب نے خود تیسری بار وزیر اعظم کی راہ ہموار کی تھی پنجاب کے عوام کو گیس کے سلسلے میں ذلیل و رسوا کر کے رکھ دیا اور صرف پنجاب میں سی این جی سیکٹر برباد ہو گیا اب اسے ریٹ کے سلسلے میں مادر پدر آزاد کر کے کہا جا رہا ہے کہ اس سے سی این جی سیکٹر میں جان پڑ جائے گی۔ جب گیس ہی موجود نہیں تو جان کہاں سے آئے گی؟ اب ایل این جی اور قطر سے معاہدوں کو کون مانیٹر کرے گا؟ اب سی این جی اور ایل این جی کے ریٹ کون کنٹرول کرے گا۔ اب بجلی کے نرخ طے کرتے ہوئے عوام کی سہولت اور آسانی کون دیکھے گا۔ کل کلاں آئل کمپنیوں کو بھی تیل کے نرخ طے کرنے میں ملنے والی آزادی کو کون دیکھے گا؟
میں نے کہا ہے ناں کہ میاں صاحب کو مصیبتیں مول لینے کا ''ٹھرک‘‘ ہے وہ چلتے بیل کو چابک مارنے کی پرانی عادت میں مبتلا ہیں اور ایک پنجابی محاورہ ہے کہ عادتیں سروں کے ساتھ ہی جاتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved