تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     23-12-2016

معاشی ترقی کے لیے نیا نظامِ محصولات

بدقسمتی سے آج تک پاکستان میں کسی بھی حکومت نے قومی سطح پر ایک ایسے نظام محصولات کی طرف توجہ نہیں دی جو ہمارے وطن ِ عزیز کے لیے تیز رفتار صنعتی اور معاشی ترقی میں ممدومعاون ثابت ہو۔ اس کے برعکس ظالمانہ نظام محصولات میں لوگوں کو تکلیف دینے، غیر قانونی طریقوں سے ہدف حاصل کرنے اور امیر غریب کے درمیان خلیج وسیع کرنے کے علاوہ ہمارے حکمران کچھ نہیں کررہے ۔ معاشی ترقی کی رفتار ہماری آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا نہیں کرپارہی۔ حکومت اندرونی اور بیرونی قرضہ جات کے ذریعے کام چلا رہی ہے ۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ہم قرضوں کی دلدل میں اتنا دھنس چکے ہیں کہ پچھلے قرضوں کا سود ادا کرنے کے بعد مزید قرضوں پر انحصار ہے تاکہ ترقیاتی کاموں کا سلسلہ چلتا رہے، اور روزمرہ کے اخراجات پورے ہوسکیں ۔ 
امسال ہمارا مالی خسارہ دوٹریلین روپوںسے تجاوز کرجائے گا۔ محصولات کا 70 فیصد محض قرضوں کے سود کی ادائیگی کی نذر ہوجائے گا۔ شاہانہ اخراجات اور قرضوں کا کم جمع ہونا صرف بڑے مسائل نہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ معاشی سطح پر ہرسال بیس لاکھ نئے افراد کے لیے روزگار کا بندوبست ہے۔ساٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل آبادی کے لیے پاکستان میں سب کو روزگار دینے کے لیے معاشی ترقی کی شرح نمو کم از کم آٹھ فیصد چاہیے ، مگر فی الحال یہ چار فیصد کے لگ بھگ ہے ۔ 
قرضوں کا بوجھ تو اب ناقابل ِ برداشت ہوچکا ہے ، جوکہ معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ حکومت کے پاس اتنی سوجھ بوجھ نہیں کہ وہ نظام ِ محصولات کو درست کرکے لوگوں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دے ۔ مربوط نظام ، جس میں تکنیکی تعلیم اور صنعتی سرمایہ کاری کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جائے ، ہماری پالیسی میں سرے سے ہی موجود نہیں۔ توانائی کے بحران اور ظالمانہ محصولات کے باعث کوئی نئی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں۔ موجودہ صنعتیں بھی بحران کا شکار ہیں۔ معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے سے ہی محصولات میں اضافہ ہوگا، مگر حکومت اس کے برعکس کررہی ہے ۔ پیچیدہ اور غیر منصفانہ محصولات کے ذریعے نہ تو آمدن میں اخراجات کے برابر اضافہ کر رہی ہے اور نہ ہی معاشی ترقی کے لیے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی ظرف توجہ ہے ۔یعنی توانائی کا بحران اور مہنگےinputs۔ان سب نے برآمدات کو بھی کم کردیا ہے ۔بینک لوگوں کو سود پر گاڑیاں دے کر ہمارے ماحول میں مزید آلودگی اور تیل کی درآمد کے خرچہ کو بڑھا رہے ہیں مگر صنعتی اور معاشی ترقی بذریعہ نئی سرمایہ کاری کے لیے قرضہ جات نہیںدے رہے۔سڑکوں پر گاڑیوں کایہ عالم ہے کہ ہر وقت لوگوں کے لیے کہیں آنا جانا عذاب سے کم نہیں۔پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے حکومتی سرمایہ کاری کا فقدان ہے۔حکومتی کنٹرول میں چلنے والے ادارے ٹیکس گزاروں کی جیب پر اتنا بڑا بوجھ ہیں۔ ان اداروں کے نقصانات اربوں میں ہیں مگر وہاں عیاشی کا عالم دیدنی ہے۔ان حالات کا حل ایک ایسے نظام محصولات میں ہے جو حکومت کا لیے کم از کم دس ٹریلین روپے اکٹھا کر سکے۔اس سے نظام تعلیم ،صحت ،ٹرانسپورٹ اور ہائوسنگ کے علاوہ وہ تمام اخراجات بھی پورے ہو سکیں گے جو ریاست کو چلانے کے لیے ضروری ہیں۔اس وقت مرکزی حکومت محض تین ٹریلین کا ریونیو بذریعہ ایف بی آر اکٹھا کر رہی ہے اور وہ بھی اربوں کے ریفنڈز روک کر اور بڑے اداروں سے ایڈوانس وصول کرنے کے بعد ایف بی آر کی ناکامی کی وجہ سے ملک میں متوازی معیشت کا سائز 100ٹریلین تک پہنچ چکا ہے۔اگر اس پر محض10فیصد ٹیکس بھی لے لیا جائے تو ایک سال میں ہی دس ٹریلین روپے حکومتی خزانہ میں آسکتے ہیں۔لوگوں پر واضح کردیا جائے کہ اگر وہ غیر ٹیکس شدہ پوشیدہ اثاثوں پر ٹیکس ادا نہیں کریں گے تو وہ تمام بحق سرکار ضبط کر لئے جائیں گے اور ان کو دس سال کی قید بھی ہو سکتی ہے۔ایک دفعہ اس اعلان کے بعد مستقبل کے لئے سادہ ٹیکس نظام نافذ کر دیا جائے جس میںتمام طرح کے محصولات کو ختم کر کے ایک ہی ٹیکس میں ضم کر دیا جائے ۔دس فیصد کے لحاظ سے ہرطرح کی آمدن پر ٹیکس کا نفاذ کر دیا جائے۔اور اس کی وصولی کی ایک فعال قومی اوران محصولات کے ذریعے اکٹھا کیا جائے جو کسی طرح سے کسی بھی ٹیکس چور کے ساتھ رعایت نہ برتے۔لوگوں سے بآسانی دس ٹریلین کا ایک ٹیکس وصول کرنے کے بعد ان کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں ۔یہ نظام ترقی کے لیے بھی معاون ثابت ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved