گلزار غالب کی قیام گاہوں کے علاوہ دلی کے ہر کوچے گلی محلے‘ عمارات ‘معروف اور غیر معروف شعراء و ادباء کی رہائش گاہوں اور مشاغل کی چلتی پھرتی لغت ہیں، کہیں سے کھول کر پڑھ لیجیے۔ اجمال کا کیا ذکر پوری تفصیلات پائیے گا، کوئی پہلو تشنہ نہیں ہو گا۔ گلزار گفتگو طراز ہیں غضب کے۔ شعر اور گالیاں بکنا اور بڑہانکنے میں بھی کمال کے لوگ ہیں۔ میرا کہا کوئی وزیر کبیر ٹال ہی نہیں سکتا۔ کسی میں یہ ہمت نہیں۔
یوں تو گلزار دہلوی زشتی نے حضرت رئیس کو سلسلۂ ملامتیہ کا امام گردان کر فرمایا ہم تو آپ کے صحابی ہیں، اس کے بعد مشورے اور اصلاحِ حال کی کوشش عجیب انداز میں کی۔ گویا ہم نمک حرام پاکستانی ہیں۔ آپ یوں نہیں، یوں بیان دیجیے گا۔ گفتگو اس ڈھنگ سے کیجیے۔ اس ڈھب سے جس پر پکڑ دھکڑ نہ ہو۔ پکڑ دھکڑ ہندوستان میں کیا ہوتی، مدعایہ تھا کہ ایسا کچھ کر کے، چلو ایسا کچھ کہہ سن کے جاؤ کہ پاکستان میں گرفت نہ ہو۔ جمیل الدین عالی کو بھی میں نے سبھی کچھ سمجھا دیا تھا۔ دیکھ ہی لیا ہو گا آپ نے وہ کیسے کامیاب رہے۔ ایک ہندوستانی شہری دلی کا ادیب و شاعر ہماری محبت میں اس قسم کی باتیں کیوں کر رہا ہے۔ کیا وہ یہ سمجھتا ہے ہم پاکستان پر کیچڑ اُچھالنے کے لیے ہندوستان آئے ہیں‘ کیا ہم محبِ وطن نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو دلی والوں نے کیونکر جانا۔ اگر ہم سچے پاکستان ہیں تو یہ دہلوی جرأت سوچنے سمجھنے کی دعوت ضرور دیتی ہے۔ یہ سب کچھ صبح ہوتے ہی رئیس صاحب سے کہا گیا اور پوچھا بھی لیکن واں بس اک خامشی تری سب کا جواب تھا۔ میں
نے خوب غور کیا تو بعض باتیں کھُل کر سامنے آ گئیں۔ میرا ذہنی جائزہ کچھ اس طرح کا ہے۔ میں تقسیم ہند کو مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کی کارکردگی، ضد، ہٹ دھرمی، نفرت، تعصب کا مظہر سمجھتا ہوں۔ انگریز اور ہندو کی ملی بھگت نے مسلمانوں سے بدلے چکانا چاہے۔ تسلیم کہ مسلمان ایک اقلیت تھے۔ مگر یہ وہ اقلیت ہے جس نے اپنے دورِ اقتدار میں اپنی رعایا سے یکساں سلوک کیا۔ کسی کو ترجیح ہر گز نہ تھی اور مذہبی معاملات میں تو بلا کی رواداری ‘ہندی حکمران مسلمان کی ایک شان رہی ہے۔ اکبر تو اعتدال کی حد بھی پھاند گئے تھے۔ اس کے باوجود آزادی وطن کی تحریک میں مسلمان کے چھوٹے چھوٹے مطالبات کوجس حقارت سے ٹھکرایا اور جھٹلایا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اگر ہندو قیادت ذرا بھی فراخ دلی، فراخ ذہنی سے کام لیتی تو کیا عجب وہ ہمارے بہترین تعاون سے محروم نہ رہتی۔ لیکن وہاں تو مسلم کُشی کا ایک جنون سوار تھا۔ ردِ عمل تو ہونا ہی چاہیے تھا اور وہ ہوا۔ مسلمان کے حق میں مبارک ردِ عمل۔ ہندو کے بدلے ہوئے تیور اور نا انصافیوں کی یورش نے بکھرے ہوئے لوگوں اور منتشر شیرازے کو یکجا کر دیا۔ ذہنی انتشار جو مسلمانوں میں پھیلا ہؤا تھا سمٹ کر ایک نقطے پر مرکوز ہو گیا اور وہ نکتہ تھا اپنے وجود کا اور اپنے اسلامی تشخص اور اقرارکا۔ اپنے ہونے کا اقرار پوری دل جمعی اور دل سوزی سے مسلمانوں کے تعاون سے محمد علی جناح نے کرایا۔ قائداعظم کی بے ریا قیادت اور مسلمان مردو زن کے سچے اعتماد اور اخلاص کا نتیجہ پاکستان بن گیا۔ اگر خدانخواستہ قیادت بے روح اور بے راہرو ہوتی تو یہ جو چھوٹا سا گھر بنا لیا ہے کبھی نہ بنتا۔ پاکستان مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں، جوش و جذبے، لگن اور جناح کی کھری رہبری کا ناقابلِ تسخیر نقش ہے۔ یہ بھی سچ ہے مسلمان یوپی کا ہو، بہار کا ہو، ایک اسلامی مملکت کے خواب جو دیکھنے لگا تھا شرمندۂ تعبیر ہونے کا بھی متمنی تھا، اس خواب کے۔ لیکن اس کے لیے یہ قید تو نہ تھی کہ صدیوں سے بسے بسائے ٹھکانے اُجاڑ دو۔ ہم نے دیکھا کہ ایک بڑی تعداد ترکِ سکونت پر مجبور کر دی گئی۔ ہندوؤں کی زبردست یلغار کے باوجود کسی کا باپ کسی کا بھائی کسی کی ماں کسی کی بیٹی کسی کا ماموں مرنے سے بچ گیا۔ ہجرت بھی نہ کر سکا‘ وہیں رہا جہاں تھا۔ سینکڑوں ہزاروں کٹ مرے اور لاکھوں پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ گھر بار جان و مال عزت سب لُٹ جانے کو سہہ جانا نظریاتی جذبے کی تکمیل کے تحت تھا۔ باپ
دادا کی قبروں کو اُن لوگوں نے تو یکسر فراموش کر دیا جن کا وہاں کوئی نہ رہا تھا۔ لیکن جن کے اعزہ لٹک گئے وہ تو کسی نہ کسی طرح جذباتی ربط سے بچ نہ سکے۔ اس لیے اب بھی ہندوستان کی پاکستان دشمن پالیسیوں کے باوجود ہمارا کراچی کا باسی جب وہاں جاتا ہے تو دیار غیر ہوتے ہوئے بھی اپنے اقربا میں جا کر اقربا کو پا کر وہ بیگانگی محسوس نہیں کرتا جو ہندوستان کا ضمیر اور خمیر بن گیا ہے۔ نکسن صدر امریکہ نے غلط نہیں لکھا کہ وزیراعظم اندرا گاندھی کو پاکستانیوں اور پاکستان سے نفرت ورثے میں ملی ہے‘ یہی حالت عوام کی ہے۔ ہمارا اُردو طبقہ چونکہ ماموؤں بھائیوں بہنوں کا مہمان ہوتا ہے بالفاظ دیگر بھائی کراچی سے چل کر بہن کے گھر آ گئے اس لیے ہندوستانیوں کی اکھنڈ بھارت ذہنی تگ و تاز سے بے نیاز وہاں جو زہر اُگلتا ہے سنتے سنتے‘ کچھ کچھ سمجھتے‘ خیر سے گھر کو آجاتے ہیں۔ میں نہ ہجرت کے لطف و لذت سے دو چار ہؤا نہ دار و رسن کی آزمائش سے گزرا ہوں۔ یہ سعادت میرا حصہ نہیں بنی۔ یہ مرتبۂ بلند ہر ایک کو ملا بھی نہیں کرتا۔ نہ میرا وہاں کوئی چچا تھا نہ ماموں۔ میں تو محض ایک مسافر تھا۔ میرے محسوسات احساسات کی تختی قطعاً سپاٹ تھی جس پر ہندوستانی ذہنیت نقش ہونا تھی، مجھے خفیہ پولیس کے دفتر میں کھڑے ہو کر‘ ہائے پچیس برس بعد آنے کا موقع ملا ہے ہائے تیس سال بعد یہ دن آیا ہے‘ کہنے اور سُنانے اور ہمدردیاں حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
گلزار دہلوی زشتی کی ہدایات سے پہلے ہم خود بھی رئیس صاحب کی ''او ہند جانے والے میرا سلام لے جا‘‘ ذہنیت اور بے ہنگم بے لگامی سے خائف تھے۔ قدغن دو باتوں پر لگا کر چلے تھے ہم بھی۔ ایک تو شراب دو تین چایوں سے آگے نہ بڑھے گی۔ دوسرے کوئی ایسا بیان نہیں دیا جائے گا جس میں ہندوستان کی محبت میں مرے مٹے جا رہے ہوں۔ قدغن کے دوسرے حصے سے دلچسپی حضرت کو بھی تھی لیکن منافقانہ۔ ایک خط پاکستانی سفارت خانہ در ہندوستان‘ کراچی ہی سے چلتا کر چکے تھے۔ مضمون اور مفہوم یہ تھا، ہمیں بتایا جائے ہم کس زبان میں بات کریں۔ میں نے اسے مصلحت آمیز ''بھولپن‘‘ اور منافقت جانا اور پوچھا آخر اس کی ضرورت کیا ہے۔ ہمارے ''مراسم‘‘ کی ہندوستان سے نوعیت کیا ہے۔ آپ صرف پاکستانی ہی نہیں پاکستان کے ذہین صحافی شہری ہیں۔ حالات کی نبض پر آپ کا ہاتھ رہتا ہے۔ آخر کس قسم کی رہنمائی چاہیے آپ کو۔ دل کا چور یہ سب کچھ کرا رہا تھا ورنہ عام آدمی بھی جب دنیا کے کسی حصے میں بولے گا، پاکستان ہی کے گن گائے گا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہم کسی اور کا کلمہ پڑھیں گے۔ غیر شعوری ‘شعوری ہوش بے ہوشی‘ ہم تو قصیدے جس کا کھاتے ہیں، اسی کے پڑھیں گے۔ اپنے گھر کو بُرا کہا ہے کبھی کسی نے ‘خواہ وہ خستہ حال جھونپڑا ہی کیوں نہ ہو۔ وہی جھونپڑا ہی تو ہماری بہو بیٹیوں کی چادرہے۔ زشتی کی باتیں میرے لیے زہر، اختر فیروز اور رئیس کے لیے رہنما۔
آج کا مقطع
یہی ہے فکر کہیں مان ہی نہ جائیں‘ ظفر
ہمارے شعبدئہ فن پہ گفتگو ہے بہت