تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     23-12-2016

’ذُمے واری‘ کس کی؟

چند ماہ پہلے جب حکومتِ پنجاب نے گھریلو تشدد کے بارے میں ایک عجیب و غریب سا قانون بنانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف مولانافضل الرحمٰن نے لاہور کے ایوانِ اقبال میں ایک کانفرنس منعقد فرمائی جس میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام کے علاوہ جمعیت علماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے مدارس کے طلبہ بھی شریک ہوئے۔ مولانا حسبِ معمول تاخیر سے تشریف لائے مگر طلبہ نے جس والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا، دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ آپ سیدھے سٹیج پر تشریف فرما ہوئے اور ناظمِ تقریب نے دوسرے مسالک کے علماء کو ایک ایک کرکے سٹیج پر بلانا شروع کردیا۔ جیسے ہی کوئی عالم سٹیج پر لگی اپنی نشست پر پہنچتا مولانا فضل الرحمٰن کھڑے ہوکر اس کا استقبال کرتے اور ان کی دیکھا دیکھی سامعین میں بیٹھے طلبہ بھی تالیاں بجا کر آنے والے کو خوش آمدید کہتے ۔ تقریب شروع ہوچکی تھی کہ سٹیج کے قریبی دروازے سے ایک اور مسلک کے علماء کا وفد ہال میں داخل ہوا۔ ناظمِ تقریب نے ان کی آمد کا اعلان کیا تو مولانا فضل الرحمٰن اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے ، عجیب واقعہ یہ ہوا کہ ان کے ساتھ ہی ہال میں موجود طلبہ بھی بڑی تعداد میں کھڑے ہوگئے ورآنے والے علماء کو تقریب سے باہر نکالنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ مولانانے ہاتھ کے اشارے سے اور ناظمِ تقریب نے ساؤنڈ سسٹم کے سہارے طلبہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر ان کا احتجاج بڑھتا چلا گیا۔ آنے والوں نے یہ رنگ دیکھا تو واپس جانے کے لیے مڑے، اس پر جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ اٹھے اور انہیں روکنے گئے۔ اسی دورا ن مولانا فضل الرحمٰن نے مائیک 
سنبھالا اور طلبہ کو کچھ غصے سے سمجھایا کہ وہ آنے والے مہمانو ں کی بے عزتی کرکے دراصل اپنے اکابرین کی بے عزتی کروا رہے ہیں۔ مولانا کی فہمائش کے بعد طلبہ بیٹھ گئے اور ناراض علماء بھی واپس آگئے مگر مذہبی سیاسی قوتوں کے اتحاد کاجو تاثر وہ بنانا چاہتے تھے نہ بن سکا۔ اتفاق سے خاکسار بھی وہیں موجود تھا اورکانفرنس میں نوجوانوں کا رویہ دیکھ کر سوچ رہا تھاکہ ہم انیس سو نوے کی دہائی سے فرقہ وارانہ انتہا پسندی کو اپنی جانوں پر بھگت رہے ہیں اور اتنے عرصے بعد بھی ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے بچے دوسروں کے زعماء کو کافر کہنے سمجھ کر اپنی مجالس سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ گویا ہم انہیں آج بھی وہی تعلیم دے رہے ہیں جس نے معاشرے میں نفرت کو فروغ دیا ہے! ذہن میں سوال اٹھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے بیس میں سے تین نکات (پانچواں، نوا ں اور دسواں) تو براہ راست انتہا پسندی، مذہبی تفرقہ بازی اور دینی مدارس میں اصلاحات سے متعلق ہیں، یہ آخر کیوںحکومت کی نگاہوں سے اب تک اوجھل ہیں؟جب جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کوئٹہ کے سانحہ 8 اگست کی تفتیش شروع کی وہ بھی اسی ایک سوال پر آرُک گئی، مگر انہوں نے ہمت کرکے یہ پتا لگا لیا کہ اس سوال کا جواب ہمارے خود پسند وزیرداخلہ جناب چودھری نثار علی خان نے دینا ہے۔ 
چودھری نثار علی خان بطور وزیرداخلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے سول سپاہ سالار ہیں۔ وزارت سنبھالنے کے بعد انہوں نے ہمیں بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرنا سود مند ہوگا۔پورا ملک اس امید میں مبتلا ہوگیا کہ شاید اس حیلے سے ملک میں بے گناہوں کا بہتا ہوا خون رک جائے۔ ان مذاکرات کا انجام جو ہوا سب کو معلوم ہے۔ اس کے بعد آپریشن ضربِ عضب شروع ہوا تو ایک بار پھر امیدوں کی فصل لہلہا اٹھی اور چودھری نثار علی خان اس آپریشن کے سب سے بڑے مؤید بن کر سامنے آئے ۔ اس آپریشن کے باوجود بھی پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ہمارے بچوں کو ذبح کیا گیا تو ہماری ساری سیاسی قیادت نے نیشنل ایکشن پلان بنا کر قوم کو امید کی نئی کرن دکھائی کہ اس منصوبے پر عمل کرتے ہوئے دہشت گردی پر قابو پالیا جائے گا۔ نیشنل ایکشن پلان کے مطابق نیکٹا کو فعال کرنا، مدارس میں اصلاحات کرنا ، کالعدم تنظیموں کا نام بدل کر کام سے روکنا اور فوجداری جرائم سے متعلق عدالتی ضابطوں کی اصلاحات کی تجاویز تیار کرنا، وہ ذمہ داریاں تھی جو وزارت ِ داخلہ پر ڈالی گئی تھیں۔ اب ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کا حال بھی سن لیجیے۔ 
نیکٹا کو فعال کرنے کا آغاز ہوا تو اس کے لیے ایک موزوں سربراہ کی تلاش ہوئی۔ ہر وہ شخص جو اس کی سربراہی کے لیے موزوں سمجھا گیا تو اس نے کام کرنے کے لیے واحد شرط یہ رکھی کہ نیکٹا کو چودھری نثار علی خان سے دور رکھا جائے۔خدا خدا کرکے کوئی ایسا شخص ملا جو اس ادارے کی سربراہی اور چودھری نثار کو بیک وقت قبول کرلے تو اس ادارے میں کوئی دوسرا ڈھنگ کا آدمی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہورہا۔سربراہ کا بھی حال یہ ہے کہ سامنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے بھی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کا منتظر رہتا ہے اور ٹی وی پر اپیلیں کررہا ہے کہ کوئی اس کے ساتھ مل کر کام کرلے مگر ہر طرف سے جواب نفی میں آتا ہے۔یاد رہے کہ اسی ادارے نے دہشت گردی کے خلاف بیانیہ اور نیا ضابطہ فوجداری تشکیل دینا تھا مگر لوگ نہ ملنے کے باعث کوئی کام نہ ہوسکا۔اس ادارے نے ملک کی تمام خفیہ ایجنسیوں کے درمیان رابطہ کاری کرنا تھی مگر اس کا حال یہ ہے آج بھی ایک ایجنسی دوسری کو معلومات دینے سے گریزاں رہتی ہے۔ کم ازکم ایک واقعہ تو پوری جزئیات کے ساتھ میرے علم میں ہے کہ حیدرآباد میں ہاتھ لگنے والے دہشت گرد تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی ہی ایک دوسری ایجنسی کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے۔ 
جہاں تک تعلق ہے مدارس میں اصلاحات کا تو یہ کام خود چودھری نثار علی خان نے آگے بڑھ کر اپنے ذمے لیا تھا۔ اس بارے میں انہوں نے علماء کرام کے ساتھ پے درپے نشستیں کیں بلکہ ایک اجلاس میں تو وہ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو بھی لے گئے۔ یہ اجلاس اصلاحات کا عزم دہرا کر ختم ہوگیا اور اس کے بعد کسی نے مدارس میں اصلاحات کا نام بھی نہیں لیا۔اس معاملے میں صوبوں کا کردار یہ تھا کہ مدارس کی فہرستیں بنائیں اور فرقہ واریت پھیلانے والے علماء کے خلاف کارروائی کریں۔ صوبے اپنا بیشتر کام مکمل کرچکے مگر اصلاحات کا جوکام چودھری صاحب کے ذمے تھا وہیں کا وہیں ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ اگر کوئی مدرسہ یا کسی مدرسے کا کوئی استاد نوجوانوں کو انتہاپسندی کی طرف مائل کررہا ہے تو اس کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں پڑی۔ ایسا نہیں کہ مدارس اصلاحات کی مزاحمت کرتے ہیں، مصیبت یہ ہے کہ اصلاحات کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کو سرے سے علم ہی نہیں کہ کام کا آغاز کہاں سے ہونا ہے۔ یہی حقیقت جسٹس فائز عیسٰی نے اپنی رپورٹ میں واضح کردی ہے جس پر ''ذُمے واری‘‘ قبول کرنے والے تلملا رہے ہیں۔ 
دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں کوئی عدالتی کمیشن وزیرداخلہ سے یہ سوال پوچھتا تو وہ پہلے استعفیٰ اور پھر جواب دیتا۔ چونکہ یہ پاکستان ہے اور وزیرِ مذکور چودھری نثار علی خان ہیں اس لیے استعفیٰ آیا نہ جواب، البتہ پریس کانفرنس ضرور آئی جس میں وزیرموصوف نے فرمایا، ''میںکسی کا ادھار نہیں رکھتا ، حساب برابر کردیتا ہوں‘‘۔ ساڑھے تین سال حکومت میں رہنے کے بعد کوئی وزیر سوال کا جواب دینے کی بجائے دھمکی دے توسمجھ لینا چاہیے کہ اپنی میعاد کے باقی ڈیڑھ سال میں بھی سوائے پریس کانفرنسوںکے ، اس کا کچھ کرنے کا پروگرام نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved