جو آدمی اپنی رفیق حیات کے قتل کی تفتیش پر آمادہ نہ ہوا‘ وہ اپنی قوم کے زخم مندمل کرنے کی تدبیر کیسے کرے گا؟ ؎
آستیں کے خنجروں کی تیز دھاروں سے کہو
مائوں کے بیٹوں کا خونِ ناروا واپس کریں
وزیر اعظم کے نزدیک زرداری صاحب کی واپسی نیک شگون تھی۔ یہ الگ بات کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ خواہش ان کی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو وہ سنبھالیں۔ اس کے پلیٹ فارم سے‘ ان کے خلاف جو شورو غوغا برپا رہتا ہے‘ تمام ہو جائے۔ وزیر اعظم کا دردِ سر پاناما کے انکشافات ہیں۔ کسی طرح ان کی جان چھوٹ جائے۔ سات ماہ تک تحقیقات کی وہ مزاحمت کرتے رہے؛ تاآنکہ عمران خان نے اسلام آباد کے محاصرے کا فیصلہ کیا۔ ایک لشکر لے کر وزیر اعلیٰ پرویز خٹک دارالحکومت روانہ ہوئے۔ سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینا پڑا۔ یہ الگ بات کہ پھر چیف جسٹس کے سبکدوش ہونے کا دن آ پہنچا۔ کئی ہفتوں کی سماعت کو انہوں نے کالعدم قرار دیا۔ حکم دیا کہ نئے بنچ کی تشکیل نئے چیف جسٹس فرمائیں گے۔ وہ قضیہ کہ جس نے پورے ملک کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے‘ وہیں کا وہیں رہ گیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم اور ان کا خاندان‘ قومی دولت ملک سے باہر لے گئے ۔ کیا یہ قانونی طریق سے حاصل کی گئی۔ کیا اس پہ ٹیکس ادا کیا گیا۔ اگر وہ اور ان کے فرزندان ارجمند قانون کا مذاق اڑانے کے مرتکب ہوئے ہیں تو کیا انہیں سزا دی جا سکے گی۔ کیا ملک کی دولت‘ ملک میں واپس آ سکے گی؟
زرداری صاحب کیا کریں گے؟ کیا وہ ایک تحریک برپا کردیں گے کہ کرپشن کا خاتمہ ہو ۔ کس طرح؟ آخر کس طرح ایسی کوئی تحریک وہ اٹھا سکتے ہیں؟ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا اگر
احتساب ہو تو کیا زرداری صاحب اور ان کے قبیلے کی لوٹ مار کا سوال نہیں اٹھے گا؟ کیا دبئی‘ برطانیہ‘ فرانس اور امریکہ میں ان کی جائیدادیں زیر بحث نہ آئیں گی، جن میں سے کچھ محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام پر خریدی گئیں؟ سوئس بینک کے کھاتے اور سرے محل زیر بحث نہ آئیں گے؟ کس قدر مضحکہ خیز صورت حال ہے۔ بدعنوانی کے الزامات کی یلغار میں گھرے حکمران کے خلاف، اس سے زیادہ مرتکب ٹھہرایا گیا لیڈر، ہنگامہ کیسے برپا کر سکتا ہے؟
وطن واپسی سے پہلے، جو آخری تحفہ انہوں نے ملک کو دیا ہے‘ وہ دیانت داری کی شہرت رکھنے والے ایک پولیس افسر سے گلو خلاصی ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے پر فائز رہنے والے 35افسروں نے اس پہ فریاد کی ہے۔ یہ لوگ عدالت سے رجوع کرنے پہ غور بھی ہے۔ دونوں پارٹیوں کی وکالت کرنے والے ایک مشہور ٹی وی مبصر نے‘ میاں صاحب نے جسے ایک قومی ادارے میں اہم منصب سونپ رکھا ہے‘ یہ کہا کہ وہ اس شخص کو اپنی شوگر ملوں کو نقصان پہنچانے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں پہ حیرت ہے‘ جو اس بحث میں الجھے ہیں کہ زرداری صاحب مفاہمت کی سیاست کریں گے یا مخالفت کی؟ ظاہر ہے کہ دبائو ڈال کر اپنے کچھ مطالبے وہ منوانے کی کوشش کریں گے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ مطالبات کیا ہو سکتے ہیں۔ مستقل طور پر مگر میاں صاحب کی مزاحمت اور مخالفت وہ کیسے کر سکتے ہیں؟ واپسی سے قبل‘ ایک اہم فیصلہ انہوں نے یہ کیا کہ ڈاکٹر عاصم کو پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کا صدر بنا دیا۔ وہ صاحب جن پہ 462 ارب روپے کی بے قاعدگیوں کے الزامات ہیں اور جو کبھی پیپلز پارٹی کے ممبر نہیں رہے۔ برخوردار بلاول بھٹو زرداری ‘والد گرامی کے اس شاندار اقدام کے بعد‘ ڈاکٹر عاصم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں سیاسی قیدی کہا۔ سیاسی قیدی وہ کیسے ہو گئے؟ نواز شریف حکومت کے لیے کیا وہ ایک مسئلہ تھے؟ کیا ان کے خلاف کوئی شورش انہوں نے برپا کر رکھی تھی؟
عوامی حقوق کے نئے نوجوان چمپئن‘ بلاول بھٹو‘ مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہی مولانا فضل الرحمن‘ واحد حقیقی اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے والے عمران خان کو جو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ جو یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ پاناما لیکس سے اٹھنے والے الزامات بے سر و پا ہیں۔ وہی مولانا فضل الرحمن‘جن کا ہدف یہ ہے کہ مقتل میں کھڑے کشمیریوں کے لیے‘ کبھی کبھار اظہار ہمدردی کے عوض‘ کشمیر کمیٹی میں چیئرمین کے عہدے پر مسلط رہیں۔ ان کے ہم نفس اور نامطمئن ہو جانے کی صورت میں‘ پارٹی کی سربراہی کے لیے ممکنہ حریف‘ مولانا محمد خان شیرانی‘ اسی شان و شوکت سے‘ تیسری بار بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین رہیں۔ وفاق میں ایک رسیلی وزارت ان کے دست راست اکرم درانی کی جیب میں رہے‘ عمر بھر کی سیاست سے‘ جنہوں نے اور کچھ بھی حاصل کیا ہو‘ نیک نامی کبھی نہ کمائی۔ چند ماہ قبل بنوں میں‘ وزیر اعظم کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جنہوں نے کہا تھا کہ میاں صاحب اگر حکم دیں تو بنی گالہ کی وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ مولانا فضل الرحمن اور میاں صاحب کی نظر‘ پختونخوا کے آئندہ الیکشن پہ ہے۔ صوبے کے طوفانی دورے میں‘ مولانا فضل الرحمن کی فرمائش پر‘ اربوں روپے کے منصوبوں کا انہوں نے اعلان کیا۔ بنوں میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈے کا بھی ۔ایک تحفہ عنایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ''مولانا‘ یہ آپ کی نذر ہے‘‘۔ بلاول اس آدمی کے پاس کیا لینے گئے تھے؟ اُسے چوما کیوں تھا؟ خراج تحسین کیوں پیش کیا تھا؟
پاکستانی عوام کے مسائل اور ان کے دکھوں سے ان لوگوں کا کیا واسطہ؟ ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ اگر نہیں دیکھ سکتی تو پیہم پسپا ہوتی صحافت نہیں دیکھ سکتی۔ قومی سطح کی تبدیلیوں کے بعد‘ جس کے لیے خراب موسم کی پیش گوئی ہے۔ اہل اقتدار کے وہی تیور لوٹ آنے کی‘ اخبار نویسوں پر جب بغاوت کے مقدمات قائم کئے جاتے تھے‘ ملیحہ لودھی اور نجم سیٹھی پر۔ اخبارات کے دفاتر کا پولیس جب گھیرائو کیا کرتی تھی کہ نیوز پرنٹ پہنچ نہ پائے۔ جنرل پرویز مشرف کے بقول جب ان سے فرمائش کی گئی کہ فوج کی نگرانی میں لے کر‘ ان کا کورٹ مارشل کیا جائے۔ نجم سیٹھی نے تردید نہیں کی۔ ملیحہ لودھی اقوام متحدہ میں اب نون لیگ کی سفیر ہیں۔ اس میڈیا گروپ نے شریف خاندان سے مصالحت کر لی۔ صرف وہی دونوں گروہ جانتے ہیں کہ کن شرائط پر۔ کہانیاں بہت ہیں اور ایک سے ایک سنسنی خیز۔ ایک دن آئے گا‘ جب ان داستانوں کو دن کی روشنی نصیب ہوگی۔ ان کے کردار بولیں گے۔ سودا بازی کرنے والوں کے ہاتھ پائوں گواہی دیں گے۔ اخبارات کے صفحات پر نوع بہ نوع قصّے جگمگائیں گے اورشاید کتابیں لکھی جائیں۔
ہر ایک کا اپنا سچ ہے اور ہر ایک اپنے سچ کا خود ہی ذمہ دار؛ تاآنکہ زمانہ ہر چیز کو آشکار کر دے۔ کہر کا موسم گزر چکے اور بارشیں اتریں تو قدیم کھنڈرات تک اجاگر ہو جاتے ہیں۔ وقت کے باطن میں کوئی چیز چھپی نہیں رہتی۔ ایسا وہ بے مہر ہے کہ ایک ایک کو آشکار کرتا ہے۔ کسی چہرے کا غازہ برقرار رہتا ہے اور نہ کسی کا باطن چھپا رہ سکتا ہے۔ ہر ایک چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے‘ ہر ایک باطن آشکار۔
آصف علی زرداری اب کی بار اپنے وطن کو کیا تحفہ دیں گے؟ اس سوال کے ساتھ ایک اور خیال ذہن میں ابھرا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک موت کے بعد، کیا ان کی جائیداد‘ وارثوں کے حوالے کر دی گئی؟ ان کا حق ان کی اولاد کو دے دیا گیا؟ بلاول بھٹو اور ان کی بہنوں کو اپنی ضروریات کے لیے‘ آج بھی اگر پدرِمحترم کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے تو اپنی قوم کو وہ کیا عطا کریں گے؟ افسوس کہ لوگ کم ہی غور کرتے ہیں۔
جو آدمی اپنی رفیق حیات کے قتل کی تفتیش پر آمادہ نہ ہوا‘ وہ اپنی قوم کے زخم مندمل کرنے کی تدبیر کیسے کرے گا؟ ؎
آستیں کے خنجروں کی تیز دھاروں سے کہو
مائوں کے بیٹوں کا خونِ ناروا واپس کریں