ولادت، شیر خوارگی، لڑکپن، عنفوان شباب، شبابِ پختہ، ادھیڑ عمر اور بڑھاپا۔ یہ تمام مراحل صرف انسانوں تک محدود یا کچھ اُنہی پر محیط نہیں۔ ہر قوم اور تہذیب پر بھی ان تمام مدارج و مراحل کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہر قوم اور تہذیب پیدائش کے بعد شیر خوارگی اور لڑکپن کے مراحل طے کرتی ہوئی عہدِ شباب سے گزر کر بڑھاپے کی طرف بڑھتی ہے۔ بڑھاپے کو ٹالنا انسان کے لیے ممکن ہے نہ کسی تہذیب یا قوم کے لیے۔ مگر ہاں، بڑھاپے کو باوقار بناکر اِس جہاں سے گزرنا ہر انسان اور ہر ہر قوم و تہذیب کے ہاتھ میں ہے۔ ع
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
روئے ارض پر کچھ نہ کچھ کر دکھانے کا موقع ہر انسان، قوم اور تہذیب کو ملتا ہے۔ موقع سے فائدہ اٹھاکر، صلاحیتوں اور قوٰی کو بروئے لاتے ہوئے کیا کرنا ہے اِس کا انحصار متعلقہ انسان، قوم یا تہذیب پر ہے۔ آغاز خواہ کچھ ہو، سب کو انجام کے لیے متفکر رہنا چاہیے۔ جو کچھ آخر آخر دکھائی دے گا وہی یاد رہ جائے گا۔ بقول غالبؔ
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے
مغرب نے بھی عہدِ شباب گزار لیا ہے اور اب ڈھلتی عمر کے بعد بڑھاپے کی منزل آیا چاہتی ہے۔ یہ بات بہت سوں کو بہت عجیب لگتی ہے۔ مغرب اور بڑھاپا؟ اِس وقت دنیا پر مغربی تہذیب کا واضح اثر موجود ہے۔ مغرب کی دی ہوئی ٹیکنالوجیز کی مدد ہی سے تو آج کی دنیا میں اتنی بھرپور، ہمہ گیر ترقی ممکن ہوسکی ہے۔ ایسے میں مغرب کے زوال کا کیوں سوچا جائے؟ اب حیرت کیوں ہو؟ 1930 کی دہائی میں جرمن دانشور اوسوالڈ اسپنگلر نے ''زوالِ مغرب‘‘ لکھ کر لوگوں کو خوب حیران کیا تھا۔ تب مغربی تہذیب مادّی ترقی کے مدارج تیزی سے طے کرتی ہوئی دنیا کی امامت کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ ایسے میں زوال کی بات؟ بات عجیب تھی۔ اسپنگلر نے اپنی کتاب میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ مغرب نے مادّی ترقی یقینی بنانے کی راہ میں سب کچھ لٹا دیا ہے یعنی اب اپنی روح، اخلاقی اصولوں اور اقدار سے محروم ہوچلی ہے۔ مغرب میں بہت سے لوگ اِس بات پر برہم ہوئے۔ ہونا بھی چاہیے تھا۔ ع
بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کی!
اسپنگلر کے دور میں ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی رفتار آج کی سی تیز نہ تھی مگر جو کچھ بھی تھی، ہوش ربا تھی۔ اسپنگلر کی بات چند عشروں میں درست ثابت ہوگئی۔ اور اب تو خیر مغرب کا زوال بہت واضح ہوچکا ہے۔ مگر یہ سب دیکھنے کے لیے دیکھنے والی آنکھ درکار ہے۔ ؎
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
روشنی کی رفتار تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔ سورج کی روشنی ہم تک تقریباً ساڑھے آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے۔ گویا سورج اگر اِسی لمحے اپنی روشنی سے یکسر محروم ہوجائے، بجھ جائے تو ہمیں ساڑھے آٹھ منٹ گزرنے پر اِس ہلاکت خیز حقیقت کا علم ہوسکے گا! کچھ ایسا ہی حال مغرب کا بھی ہے۔ اِس ستارے کی روشنی ختم ہوچلی ہے اور مکمل خاتمے کا وقت زیادہ دور نہیں مگر ہمیں چند عشروں کے بعد اِس حقیقت کا علم ہوگا کیونکہ تب تک تو مغرب کا چمکیلا اندھیرا ہم تک پہنچتا ہی رہے گا!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی امامت کے لیے کوئی اور تیار ہے یا نہیں۔ گھوم پھر کر نظر ایشیا پر ٹھہرتی ہے اور ٹھہرنی بھی چاہیے۔ انفرادی سطح پر مخاصمت کا جو رجحان پایا جاتا ہے وہی رجحان اجتماعی سطح پر بھی پایا جاتا ہے۔ مغرب کو اپنی کم ہوتی ہوئی اخلاقی اور نفسی طاقت کا بخوبی اندازہ ہے مگر اپنی سلطنت کو گِرتی ہوئی دیکھنا کس سلطان کو پسند ہوگا؟ مغرب بھی نہیں چاہتا کہ کوئی اور خطہ عالمگیر اثر و نفوذ کا حامل ہو۔ ایشیا اب تیار ہوچکا ہے مگر اُس کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے کا عمل مغرب نے تیز کردیا ہے۔
امریکا اور یورپ کا معاملہ یہ رہا ہے کہ انہوں نے بھرپور طاقت کے نشے میں چُور ہوکر ہمیشہ من چاہا کھیل کھیلا ہے۔ دونوں خطوں نے مل کر ایک صدی سے بھی زائد مدت کے دوران ہر اس کمزور کو بری طرح دبایا ہے جس پر ان کا بس خوب چلا ہے۔
امریکا اور یورپ کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کسی زمانے میں علاقے کے ''جدی پشتی‘‘ بدمعاشوں کا ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے اِتنے غلط کام کیے ہوتے تھے کہ یہ خیال ہی ہر وقت پریشان رکھتا تھا کہ جب طاقت میں کمی واقع ہوگی تب اگر تمام مظلوم متحد ہوگئے تو کیا ہوگا! ع
اِسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے!
مشرق وسطٰی اور شمالی افریقا میں مغرب نے 6 عشروں کے دوران جو کھیل کھیلا ہے وہ اب اپنا منطقی نتیجہ ظاہر کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا مغرب سے متنفّر ہوچکی ہے۔ پہلے تو مغرب نے مسلم ممالک کے قدرتی وسائل پر خوب ہاتھ صاف کیے اور اور اس دوران مسلم ممالک کو مختلف میدانوں میں پس ماندہ بھی رکھتا رہا اور جب بازی پلٹتی دکھائی دینے لگی تو شیعہ سُنّی قضیے کو مزید ہوا دے کر اسلامی دنیا کے سینے میں مسلکی انتہا پسندی کا خنجر گہرا اتار دیا۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں امریکا اور یورپ نے مل کر ایران کی بھرپور پشت پناہی کی ہے جس کے نتیجے میں افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن تاراج کیے جاچکے ہیں۔ اور اب بحرین میں بھی خرابی کے آثار ہیں۔ عراق میں ایرانی کِلّا گاڑ کر خطے میں وسیع البنیاد اور طویل المیعاد عِناد کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
اب ترکی قدرے کھل کر سامنے آیا ہے تو دنیا حیران ہو رہی ہے۔ ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات ابھر رہے ہیں۔ کیا سعودی عرب اور دیگر مضبوط عرب ممالک اب امریکا اور یورپ سے پنڈ چھڑانا چاہتے ہیں؟ کیا ترکی کا (ایشیائی سمت والی) علاقائی سیاست میں متحرک ہونا سعودی عرب کے اشارے پر ہے؟ اور پھر پاکستان، چین اور روس کا محض دو تین سال میں غیر معمولی حد تک فعال ہوجانا کیا اِس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اب طاقت کا مرکز ایشیا کو بنانے کی تیاری کی جارہی ہے؟
امریکا اور یورپ نے اسلامی دنیا کو 6 عشروں سے بھی زائد مدت تک بے وقوف بنایا ہے۔ دوستی اور پارٹنر شپ کے نام پر قدرتی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ اِن دونوں خطوں نے اسلامی دنیا میں بغض و عِناد کے بیج بونے اور فساد برپا کرتے رہنے میںکوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اور اب جہادی کلچر کو ختم کرنے کے نام پر افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ہے۔ اس عمل کے پہلو بہ پہلو ایران کو بھرپور استحکام سے ہمکنار رکھنے کا خاطر خواہ اہتمام کیا گیا ہے۔ عرب دنیا اندھی ہے مگر اِتنی بھی نہیں۔ ایک ہی سوراخ سے خود کو کب تک ڈسواتی رہے؟
پاکستان نے بھی اپنے قیام کے بعد سے اب تک امریکا اور یورپ کے خرمن سے خوشہ چینی کی ہے اور واضح جھکاؤ رکھنے پر بھی ذلت ہی کا سامنا کیا ہے۔ ایک مدت سے پاکستانی پالیسیاں مغرب نواز رہی ہیں اور پریشانی کا سامان کرتی آئی ہیں۔ بقول مصحفی ؔ ؎
کیا مصیبت ہے کھلے آنکھ تو رونا آئے
اور جھپکے تو وہی خوابِ پریشاں دیکھوں!
عالمی برادری میں جب بھی کوئی بڑا سوال اٹھا، پاکستان نے امریکا اور یورپ کی کھل کر حاشیہ برداری کی مگر اے وائے ناکامی کہ یہ ساری محنت اکارت گئی۔ ہر بار یہی محسوس ہوا کہ 'بقول فغاںؔ ع
نہ سروکار ہے بلبل کو نہ گل کو مجھ سے
اب ایشیا کی بڑی طاقتیں ایک پلیٹ فارم پر آرہی ہیں تو امریکا اور یورپ دونوں جزبز ہو رہے ہیں۔ ان دونوں کے جزبز ہونے سے ہمیں زیادہ محتاط رہنا ہے کہ جس پر ایشیائی طاقتیں یکجان ہو رہی ہیں وہ پلیٹ فارم پاکستان ہے!
پاکستان کے لیے بہترین آپشن یہ ہے کہ تمام دستیاب آپشنز کا جائزہ لے کر بہترین کو اپنائے اور اس وقت بہترین آپشن یہی ہے کہ امریکا اور یورپ سے فاصلے بڑھاتے ہوئے انہیں گلے لگایا جائے جو جغرافیائی اعتبار سے نزدیک بھی ہیں اور زمینی حقائق کے اعتبار سے خطرناک بھی نہیں۔ پاکستان سمیت اسلامی دنیا نے مغرب کے ہاتھوں جو کچھ سہا ہے اُسے خوابِ پریشاں سمجھ کر بھلا دینا ہی حکمت کا تقاضا ہے۔ کسی نے خوب مشورہ دیا ہے ؎
گزر گیا جو زمانہ اُسے بھلا ہی دو
جو نقش بن نہیں سکتا اُسے مٹا ہی دو
مغرب کے ڈوبتے ہوئے سورج کے ہاتھوں پھیلتے اندھیرے کا ماتم کرتے رہنے کے بجائے ہمیں مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کے خیر مقدم کے لیے تیار رہنا ہے۔