ایک وقت آتا ہے‘ جب ہر آنے والا دن‘ تنہائی میں اضافہ کرنے لگتا ہے۔ آج میری تنہائی میں ایک اور اضافہ ہو گیا۔ انور قدوائی ‘جو پچاس ساٹھ سال سے میرا ساتھی تھا۔ ہم صرف صحافی ہی نہیں ‘ لاہور کی رنگین محفلوں کے حاضرین میں شامل ہونے والے منچلے بھی تھے۔اگر میں تمام حاضرین محفل کو یاد کرنے لگوں ‘تو ان گنت کالم درکار ہوں گے۔ سچی بات ہے‘ میری یادداشت میں وہ گنجائش بھی نہیںرہ گئی کہ میں سب کا ذکر کر سکوں۔ صرف انور قدوائی پر بات کروں گا۔ میری اور اس کی دوستی کراچی سے شروع ہوئی تھی اور ساٹھ سال کے بعد‘ لاہور میں آ کر اس نے یہ رفاقت چھوڑ دی۔ مگر زیادہ دنوں کی بات نہیں‘ میں اسے دوسری دنیا میں بھی نہیں چھوڑوں گا۔ اس کا تعاقب شروع کر دیا ہے‘ بہت جلد جا ملوں گا۔ پھر ہم لامحدود فرصت میں بیٹھ کر پرانی باتیں یاد کریں گے۔ فی الحال انور قدوائی
کو خدا حافظ۔انور قدوائی آج کے زمانے کی ‘تمام سیاسی تبدیلیوں کا رازدان تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ سی پیک کی نئی کہانی کے پیچھے کیا کچھ ہے؟ اور کیا کچھ سامنے آنا باقی ہے؟ گزشتہ دنوں آصف زرداری ''من پسند ‘‘جلاوطنی سے اکتا کر‘ یقین ہونے کے بعد ‘پاکستان واپس آ گئے کہ ملک کے وزیراعظم نوازشریف ‘ ان کی وطن واپسی کا خیرمقدم کریں گے۔ مگر یہ نوازشریف کی سیاسی فراخدلی تھی کہ جس روز آصف زرداری اپنا خیرمقدم ''خریدکر‘‘کراچی میں اترنے کی تیاریاں کر رہے تھے‘ اس سے عین چند گھنٹے پہلے‘ زرداری صاحب کے ایک قریبی دوست کے دفاتر پر چھاپے ماردیئے گئے‘ ان کے دوست کو روپوش ہونا پڑا۔ مگر اس کے کارندے گرفتار کر لئے گئے۔ آج نوازشریف ‘پرانے دور کے وزیراعظم نہیں۔ اب شیر کے ''چاروں ہاتھ‘‘ طاقتور اور متحرک ہیں۔ ایجنسیاں ان کے ہاتھ میں ہیں۔ رینجرز ان کے کنٹرول میں ہے۔ نیب ان کی جیب میں ہے اور امورخارجہ پر ان کی گرفت کا یہ عالم ہے کہ آذربائیجان سے لے کر ‘بوسنیا تک ‘جہاں چاہیں وہ دورہ کر سکتے ہیں۔ ابھی چند گھنٹے قبل ہی ‘وہ بوسنیا کے دورے سے واپس تشریف لائے ہوں گے۔ یہ وہ بدنصیب ملک ہے‘ جہاں کی قریباً آدھی آبادی کو بے رحمی سے قتل کیا گیا تھا۔ جس کے تباہ حال باشندوں کو ‘میاں صاحب نے پاکستان کے خرچ پر‘ اسلام آباد بلا کر‘ ان کی میزبانی کی تھی۔ غالباً اسی میزبانی کا اجر وصول کرنے اور اپنے ممنون احسان میزبانوں میں‘ احسان مندی کے جذبات کا جائزہ لینے بوسنیا گئے ہوں گے۔ سیاستدان کا ہر احسان‘ اس کی سرمایہ کاری کے مانند ہوتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم بھی جو سرمایہ کاری کرتے ہیں‘ اس سے نفع سمیت ‘فیض یاب ہونا کبھی نہیں بھولتے۔
آصف زرداری نے وطن واپسی سے پہلے ‘یقینی طور پر وزیراعظم کے احسان کا قرض اٹھا لیاہوگا اور دیر ہونے سے پہلے زرداری صاحب کو جتا بھی دیا ہو گا کہ ''میں ‘‘خصوصی توجہ دے کر‘ آپ کی واپسی کے دروازے کھول رہا ہوں، آپ واپس تشریف لے آئیں، آپ کو خوش آمدید کہا جائے گا۔قبل اس کے کہ زرداری صاحب پاکستان میں قدم رکھتے‘ کراچی میں ان کے ایک قریبی دوست کے دفتروں پر چھاپے مار دیئے گئے، تلاشیاں لی گئیں، اسلحہ برآمدکر لیا گیا۔ کراچی میں ہر قسم کا اسلحہ اونے پونے فروخت ہوتا ہے اور پولیس چاہے‘ تو دھمکی دے کر مفت میں‘ ہر طرح کا اسلحہ حاصل کر سکتی ہے۔ ظاہر ہے‘ جب حکم ملے گا تو خفیہ ایجنسیاں ہوں یا پولیس‘ حکم کی تعمیل میں جس قسم کے کاغذات اور جیسا اسلحہ درکارہو‘ مطلوبہ مقام سے برآمد کر سکتی ہیں۔ زرداری صاحب کو یقینا یہ خبریں مل گئی ہوں گی۔ جب وہ جہاز سے باہر نکلے‘ تو ان کی مونچھوں سے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ زیربار ہیں یا وزیراعظم کو اپنی مونچھوں سے مرعوب کرنے آئے ہیں؟ زرداری صاحب کی پرانی مونچھیں یاد کی جائیں‘ تو وہ اتنی لمبی تھیں کہ آرام سے تائو دیا جا سکتا تھا لیکن اب کی بار وہ کراچی واپس آئے ہیں‘ تو مونچھیں اس قابل ہی نہیں تھیں کہ ان پر تائو دیا جا سکتا۔ مگر صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ تائو کا ''تائو‘‘ باقی نہیں رہ گیا۔ بغیر تائو کی مونچھیں دیکھ کر‘ سمجھ دار لوگ جان گئے تھے کہ زرداری صاحب تقریریں اور بیانات ‘جیسے چاہیں دیتے رہیںلیکن جتنے دن بھی وہ پاکستان میں رہیں گے‘ نہ کسی کو دھمکی دیں گے، نہ آنکھیں دکھائیں گے اور ہر ممکن کوشش کریں گے کہ پاناما پیپرز کا ذکر نہ کریں۔ مونچھوں کے ''فرشی سٹائل ‘‘کو برقرار رکھیں۔ماضی میں انہوں نے جتنی جلاوطنیاں اختیار کی تھیں‘ وہ ان کی اپنی مرضی کے مطابق تھیں لیکن اس بار وہ کامیاب و کامران ‘نوازشریف اقتدار کے زیرسایہ ہیں، وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ بھارت کو چھوڑ کر‘ دنیا کے ہر ملک کو آنکھیں بھی دکھا سکتے ہیں۔ رہ گئے آصف زرداری‘ تو ان کے پاس دل کی تسلی کا یہی سہارا ہے کہ اگر وزیراعظم‘ آصف زرداری کو جیل کی یاد دلانا چاہیں‘ تو جواب میں وہ یہی کر سکتے ہیں کہ دلی کے حکمرانوں سے مدد مانگیں یا برطانیہ کی حکومت سے تحفظ کے طلب گار ہوں، کیونکہ برطانیہ واحد ملک ہے‘ جہاں ان دونوں کے اثاثوں کی کنجی محفوظ ہے۔ پیپلزپارٹی والوں کو شاید اندازہ نہیں ہو سکا کہ آج کے وزیراعظم نوازشریف ‘اب پاکستان کی کسی طاقت کے بس میں نہیں رہ گئے۔ ایک عمران خان باقی رہ گئے ہیں‘ جو ان کے سامنے نہیں جھکے۔
امکان یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم ‘جو اب پاکستانی گولائتھ کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں‘ ان کے سامنے کسی کی مجال نہیں کہ تن کے کھڑا ہو سکے۔ جو بھی سامنے جاتا ہے‘ خواجہ سعد رفیق یا کابینہ کے دیگر وزیروں کی طرح‘ مثل کمان دہرا ہو جاتا ہے، باقی بھی جتنے مصاحبین ہیں‘ ان میں کسی کو وزیراعظم کے سامنے‘ سر اٹھا کر کھڑے ہونے یا بیٹھنے کی مجال نہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایسا طاقتور انسان‘ عمران خان جیسے لیڈر کی سرکشی ‘کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ میں اور ملک کے لاکھوں غریب‘ عمران خان کے حق میں دعائیں تو بہت کرتے ہیں، مگر کسی کے بس میں نہیں کہ گولائتھ کے حملے کا مقابلہ کر سکے۔ آصف زرداری ''نیویں نیویں ہو کے‘‘ گولائتھ کے مقابلے میں شکست خوردہ اور ناتواں پارٹیوں کا اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غورطلب بات یہ ہے کہ مجوزہ سیاسی اتحاد بنے گا کس کے خلاف؟ عمران خان کے؟ یا گولائتھ کے؟ میں یہ بات ازراہ تفنن نہیں لکھ رہا۔ ہمارے سیاسی منظر سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ آنے والی سیاست میں صرف دو طاقتیں آمنے سامنے ہوں گی۔ ایک عمران خان‘ ایک گولائتھ۔ جنگل کے سارے چھوٹے چھوٹے جانور،ان کے ساتھ تقسیم ہو جائیں گے۔
عمران خان واحد سیاسی لیڈر ہے‘ جو ابھی تک گولائتھ کے سامنے کھڑا ہے اور گولائتھ سارے جنگل کے چھوٹے موٹے جانوروں کو گھیر کے‘ اپنی طاقت جمع کرنے کی ترکیب استعمال کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چھوٹے موٹے جنگلی جانوروں میں ہمت کہاں ہے کہ وہ گولائتھ یعنی شیر کے ساتھ اتحاد بنانے کا حوصلہ کریں؟ سب جانتے ہیں ‘ شیر وقت پڑنے پر ہر کسی کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہے مگر جیسے ہی کوئی ہرن‘ بھیڑیا‘ بھینسا‘ گیدڑ ‘ اس کے قابو میں آئے‘ تو پھر شیر صبر نہیں کر سکتا؛ البتہ بعض معاملات میں شیر کی ہمت بھی جواب دے جاتی ہے۔ جیسے شیر برسوں سے چوہدری برادران کو پنجے میں لینے کی بڑی جدوجہد کر رہا ہے لیکن چوہدری برادران پر شیر کا بس نہیں چلتا۔ بلکہ جہاں شیر بے بس ہو جائے‘ چوہدری برادران پلٹ کر ‘ شیر کی ناک پر پنجہ مار دیتے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں‘ آصف زرداری کا مجوزہ سیاسی اتحاد کس کے خلاف بنے گا؟ ساری پارٹیاں اور شیر کا سارا خاندان‘ صرف ایک ہی لیڈر پر غلبہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں لیکن عمران خان گرفت میں نہیں آ رہا۔ لاکھوں کروڑوں عوام کی طاقت‘ کسی ایک کی گرفت میں آ بھی نہیں سکتی۔ آج کے دھند بھرے دنوں میں‘ نہ کسی کو اپنا چہرہ نظر آتا ہے‘ نہ اپنی طاقت کا اندازہ ہو رہا ہے۔ عوامی طاقت کو شکست دینا ناممکن ہے۔ سوائے اس کے کہ عمران خان خود کو شکست دینے پر تل جائے۔ مجھے ڈر ہے کہ عمران یہی کچھ نہ کر گزرے۔