تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     25-12-2016

اداس شام

یہ محض دسمبر کی روایتی اداسی نہیں تھی‘ کچھ عمر کا تقاضا بھی تھا۔ سہ پہر تین بجے یونیورسٹی سے واپسی ہوئی تو جسم و جاں مضمحل تھے۔ بیٹی کو چائے کا کہہ کر کمبل میں گھس گیا۔ جمعے کو مغرب کے بعد ایوان اقبال میں کونسل آف نیشنل افیئرز (سی این اے) کی ہفتہ وار میٹنگ ہوتی ہے۔ یہ قومی امور پر تبصرے اور تجزیے کے ساتھ احباب کے مل بیٹھنے کا بہانہ بھی ہوتا ہے ؎
میرؔ جمع ہیں احباب حالِ دل کہہ لے
پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے‘ نہ رہے
لیکن اضمحلال کچھ یوں غالب تھا کہ واپڈا ٹائون سے ایوانِ اقبال روانگی کی ہمت نہ ہوئی۔ گھر میں پینٹ ہو رہا ہے‘ جس کے باعث کچن کے معمولات بھی معطل۔ کاشف نے نعرہ لگایا‘ ابّو کو سردی لگ گئی ہے۔ آج گرما گرم مچھلی چلے گی۔ تب اسے ماں بھی یاد آئی‘ وہ سردیوں میں بچوں کے لیے مچھلی کا بطور خاص اہتمام کرتی۔ علامہ اقبال ٹائون میں‘ شہر کی مشہور دکان نئی نئی آئی تھی۔ وہ انہیں دکان پر لے جاتی۔ اس کا اصرار ہوتا‘ نان پکوڑوں کو ہاتھ بھی مت لگائو‘ صرف مچھلی کھائو۔ کاشف کو یاد تھا‘ کبھی مچھلی صرف 200 روپے کلو بھی ہوتی تھی۔
ادھر اسلامی جمعیت طلبہ نے گورنمنٹ سائنس کالج میں جمعیت کے سابق وابستگان کے لیے ڈنر کا اہتمام کر رکھا تھا۔ 23دسمبر کی شام۔۔۔۔1947ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام اسی روز عمل میں آیا تھا۔ یاد دہانی کے لیے فرحان شوکت ہنجرا کی کال بھی آئی۔Added Attractionکے طور پر سید منور حسن کی شرکت کی اطلاع بھی تھی۔ مجھے یاد آیا‘ منور صاحب جمعیت کے ناظم اعلیٰ تھے جب میں امیدوارِ رکنیت بنا۔ یہ درخواست اواخر 1971ء میں جناب مطیع الرحمن نظامی کے دستخط کے ساتھ منظور ہوئی تھی۔ جامع العلوم ملتان میں یہ متحدہ پاکستان کی جمعیت کا آخری سالانہ اجتماع تھا۔ ناظم اعلیٰ مطیع الرحمن نظامی ڈھاکا میں مخدوش حالات کے باوجود کچھ ساتھیوں کے ہمراہ ملتان آئے تھے۔
جمعیت سے وابستگی کے ماہ و سال کیا کیا یادیں لیے ہوئے ہیں! یہ بڑا ہنگامہ خیز دور تھا۔ اسی دوران جاوید ہاشمی پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد‘ بھٹو کے دور اقتدار میں حزبِ اختلاف مایوس اور مضحمل تھی۔ ہاشمی کی زیر قیادت پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین قوم کی جمہوری امنگوں کو نئی توانائی بخشنے کا باعث بن گئی۔ اس میں جمعیت کی ملک گیر تنظیم بھی بروئے کار آئی۔ پھر فرید پراچہ کی زیر قیادت1974ء کی ختمِ نبوت موومنٹ،1977ء کی تحریکِ نظامِ مصطفی میں بھی جمعیت کے نوجوانوں کا کردار کم اہم نہ تھا۔
1983ء میں جنرل ضیاء الحق نے سٹوڈنٹس یونینز کے انتخابات پر پابندی عائد کر دی؛ البتہ طلبہ تنظیمیں قائم رہیں۔ سٹوڈنٹس یونینز کے سالانہ انتخابات ان تنظیموں کے احتساب کا ذریعہ ہوتے تھے۔ طلبہ و طالبات میں اپنے بہتر امیج کے لیے‘ وہ اپنے بہتر چہرے سامنے لاتیں۔ سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی لگی تو یہ تنظیمیں قبضہ گروپوں کی صورت اختیار کر گئیں۔ جس کا جہاں زور تھا‘ وہاں اس نے قبضہ جما لیا۔ قبضہ چھڑانے اور قبضہ برقرار رکھنے کے لیے مسلح تصادم معمول بن گئے۔ کہا جاتا ہے‘ جمعیت کے معاملات دوسروں کی نسبت اب بھی بہتر ہیں، لیکن زوال تو یہاں بھی ہے۔
نا سازیٔ طبع کے باعث احباب کے اس اجتماع میں بھی شریک نہ ہو سکا کہ اسی دوران سید انور قدوائی کے انتقال کی خبر نے دنیائے دل کو زیر و زبر کر دیا۔ افسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے۔
ابھی دو دن پہلے مسرور کیفی رخصت ہوئے تھے۔ ذوالقرنین‘ شفیق مرزا اور اظہر جعفری کی رحلت بھی تو گزشتہ مہینے ہی ہوئی تھی کہ اب انور قدوائی نے بھی رختِ سفر باندھ لیا۔ برسوں پر محیط یادیں عود کر آئیں۔ علامہ اقبال ٹائون کے جہانزیب بلاک میں‘ میں نے کوئی20 سال گزارے۔ رامے صاحب کی وزارتِ اعلیٰ کے دَور میں اقبال ٹائون کا منصوبہ بنا تو جہاں زیب بلاک اور ستلج بلاک اہلِ قلم کے لیے مخصوص ہوئے اور لاہور کے صحافی بڑی تعداد میں صاحبِ پلاٹ (اور ان میں سے کچھ صاحبِ مکان بھی) ہو گئے۔
ہم بعد میں اس کوچے میں آئے تھے چنانچہ ا س بستی میں کرائے دار ہو گئے۔ پیشہ ورانہ مصروفیات تو تب بھی ہوتی تھیں لیکن آج والی آپا دھاپی اور نفسا نفسی نہیں تھی ‘ چنانچہ وقتاً فوقتاً مل بیٹھنے کی صورت پیدا ہوتی رہتی۔ عید پر محبوب سبحانی کے ہاں‘‘ملن‘‘ تو مستقل سالانہ آئٹم تھا، جس کے لیے باقاعدہ دعوت یا یاددہانی کی ضرورت نہ ہوتی۔ ہاں سویّوں اور شیرخرما سے تواضع کے ساتھ چٹکلے بھی جاری رہتے‘ تب عطاء الحق قاسمی بھی یہیں ہوتے تھے۔ نصراللہ غلزئی‘ ظہور بٹ‘ سلطان عارف اور انور سدید سمیت کئی دوست یہاں سے اگلے جہاں سدھار گئے‘ اور اب قدوائی صاحب بھی ان سے جا ملے : ؎
وہ جو اس جہاں سے گزر گئے‘ کسی اور شہر میں زندہ ہیں
ایک ایسا شہر ضرور ہے‘ انہی دوستوں سے بھرا ہوا
میں نے نوائے وقت جوائن کیا تو قدوائی صاحب چیف رپورٹر تھے۔ عمر میں وہ ہم سینئرز سے بھی کم از کم دس بارہ سال آگے تھے۔ پولیٹیکل بیٹ میں مجھے ان کی رہنمائی ہمیشہ حاصل رہی۔ ''مشرق‘‘ بند ہوا تو چیف ایڈیٹر جناب اقبال زبیری کو نظامی صاحب نوائے وقت میں لے آئے۔ صبح گیارہ بجے کی رپورٹرز میٹنگ میں وہ بھی شریک ہو جاتے۔ زبیری صاحب خود بھی شفیق و مہربان تھے۔ کسی رپورٹر کی سنگین غلطی یا کسی خبر کی ''مِسنگ‘‘ پر ان کی زبانی سرزنش بھی کافی ہوتی۔ قدوائی صاحب بھی اپنے رفیقِ کار کی کمزوری یا کوتاہی کو اپنے کھاتے میں ڈال لیتے۔
نواب زادہ صاحب‘ پیر پگارا اور مولانا نورانی سمیت ملک کے سبھی بڑے سیاسی رہنمائوں سے ان کا ذاتی تعلق بھی بہت گہرا تھا۔ بعض تو ان کے ساتھ سیاسی راز و نیاز بھی شیئر کرتے۔ قدوائی صاحب نے ان کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہ پہنچائی۔ جو بات آف دی ریکارڈ ہوتی‘ وہ آف دی ریکارڈ ہی رہتی۔ ان کا سینہ کئی سیاسی رازوں کا دفینہ تھا جسے وہ اپنے ساتھ ہی لے گئے۔پیر صاحب کا معاملہ تو یوں تھا کہ اخبار نویسوں کو کم ہی لفٹ کراتے۔ لاہور میں انور قدوائی ان چار اخبار نویسوں میں سے تھے جنہیں پیر صاحب کے ہاں باریابی کا اعزاز ملتا (باقی تین میں سید فاروق شاہ(مرحوم)، سید سجاد کرمانی(مرحوم) اور چودھری خادم حسین تھے۔کرمانی صاحب رخصت ہوئے تو پرویز بشیر نے ان کی جگہ لے لی۔) کچھ عرصے بعد اشرف ممتاز اور مجھے بھی اذنِ باریابی ملنے لگا۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف عملی سیاست میں آئے‘ توقدوائی صاحب برسوں ان کے قریب ترین رہے۔
نوائے وقت سے وہ جنگ میں آگئے اور یہاں ایڈیٹوریل سیکشن جیسے اہم اور حساس شعبے کی ذمہ داریوں میں شریک ہوئے۔ مجھے یہاں بھی ان کی شفقت حاصل رہی۔ کالم بھیجنے میں عموماً تاخیر ہو جاتی تو ان کی محبت بھری ڈانٹ بھی سننا پڑتی۔ وہ اسے ''آخری بار‘‘ قرار دیتے اور یہ ''آخری بار‘‘ جنگ میں میرے آخری کالم تک چلتی رہی۔
وہ صحافیوں کی ٹریڈیونین کا بھی اہم نام تھے‘ لیکن اسے کبھی اپنے مفاد کے لیے استعمال نہ کیا۔ صحافت ان کا مشن بھی تھا اور ذریعہ روزگار بھی۔ یہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا‘ وہ اسی میں سکون پاتے۔ جمعے کے دن بھی دفتر میں اپنے فرائض انجام دینے کے بعد گھر پہنچے ہی تھے کہ بلاوا آ گیا۔ اور بندہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved